عظیم مذہبی شخصیات کی اہانت کی اجازت نہیں دی جاسکتی!

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

       ایک صحافی میرے پاس تشریف لائے اور خواہش کی کہ حزبِ اقتدار کی ایک ترجمان خاتون نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں جو گستاخی کی ہے اس پر ایک بیان ریکارڈ کروادیجیے _

      میں نے عرض کیا : ” مختلف مذاہب کی عظیم شخصیات کے خلاف بدگوئی اور دریدہ دہنی اخلاق و مروّت کے خلاف ہے _ کوئی مرد ہو یا عورت ، اگر اس کی طرف سے یہ جسارت ہوتی ہے تو در حقیقت یہ اس کا خُبثِ باطن ہے جو اس کے بدبودار منھ سے اگلا پڑتا ہے _ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اس سلسلے میں صریح اور سخت ہدایت دی ہے :” یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں بُرا بھلا نہ کہو… _” (الانعام : 108) چنانچہ مسلمان دیگر مذاہب کی اہم اور عظیم شخصیات کے خلاف کبھی ایسے الفاظ اپنے منھ سے نہیں نکالتے جن سے ان مذاہب کے ماننے والے اذیّت محسوس کریں ، لیکن یہ ملک کی کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ اقتدار پر قابض لوگ فرقہ وارانہ منافرت کی آگ بھڑکانے کی برابر کوشش کررہے ہیں اور اس کے لیے وہ مسلمانوں کی انتہائی محترم اور مقدّس شخصیات کے بارے میں انتہائی ناشائستہ باتیں زبان پر لانے میں تکلّف نہیں کرتے _

   ” جو بات کہی گئی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جب نکاح ہوا ، اُس وقت ان کی عمر 6 برس اور رخصتی کے وقت عمر 9 برس تھی ، اس پر آپ کا کیا خیال ہے؟ ” صحافی نے دریافت کیا _

        میں نے عرض کیا : ” اس کا تعلق اسلام کے عقائد اور اساسیات سے نہیں ہے ، بلکہ یہ تاریخی معاملہ ہے _ اگرچہ بیش تر روایات میں یہی بات کہی گئی ہے کہ ام المؤمنین کی عمر نکاح کے وقت 6 برس اور رخصتی کے وقت 9 برس تھی ، لیکن بعض محققین نے دوسری آرا بھی پیش کی ہیں _ مثلاً ان میں سے بعض کی رائے ہے کہ رخصتی کے وقت ان کی عمر 19 برس اور بعض کے نزدیک 25 برس تھی _

     ” آپ ان آراء میں سے کس کے حق میں ہیں؟” صحافی کا اگلا سوال تھا _

     میں نے کہا : ” میری رائے یہی ہے کہ ان کی عمر نکاح کے وقت 6 برس اور رخصتی کے وقت 9 برس تھی _ لیکن اس پر تنقید کرنا ، اشتعال انگیز باتیں کہنا اور اہانت آمیز رویّہ اختیار کرنا درست نہیں ہے _ اس پر کوئی اعتراض نہیں بنتا _

        “وہ کیسے؟ ” صحافی کا سوال تھا _

         میں نے عرض کیا : ” اس پر کئی پہلوؤں سے غور کرنے کی ضرورت ہے :

    (1) کوئی واقعہ جس زمانے کا ہو اسی زمانے میں پہنچ کر اس پر غور کیا جانا چاہیے _ چودہ سو برس قبل عرب کلچر میں کم سنی کے نکاح کا رواج تھا _ بہت سے واقعات تاریخی طور پر ثابت ہیں کہ نو دس برس میں لڑکیوں اور لڑکوں کے نکاح کو معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا _ یہی نہیں ، مغربی ممالک میں تو گزشتہ صدی تک کم عمری میں نکاح کی قانونی طور پر اجازت تھی _ بتایا جاتا ہے کہ ہندوؤں کی قدیم مذہبی کتاب منوسمرتی میں بھی کم عمری کے نکاح کی اجازت دی گئی ہے _

    (2) اسلام میں اگرچہ بلوغت سے قبل نکاح کی اجازت دی گئی ہے ، لیکن جنسی تعلق کی اجازت بلوغت کے بعد ہی ہے _ اور بلوغت کی کوئی حد مقرّر نہیں کی جاسکتی _ جغرافیہ ، آب و ہوا ، خاندان ، غذائیت ، ذہنی پرورش اور دیگر عوامل اس پر اثر انداز ہوتے ہیں _ ان اسباب سے کوئی لڑکی جلد بالغ ہوسکتی ہے اور کوئی دیر میں _ یورپ کے سرد ممالک میں نو دس برس کی عمر میں لڑکیوں کے ماں بن جانے کے بہت سے واقعات ریکارڈ میں آئے ہیں _ پھر سرزمینِ عرب کے گرم آب و ہوا والے علاقے میں ایسا ہونا عین ممکن ہے _

     (3) اگرچہ اسلام میں زوجین کا ہم عمر ہونا پسندیدہ ہے ، لیکن اسے زیادہ اہمیت نہیں دی گئی ہے _ اس کے بجائے اس پر زور دیا گیا ہے کہ ان کے درمیان ذہنی ہم آہنگی اور سماجی موافقت کے زیادہ سے زیادہ اسباب فراہم کرنے کی کوشش کی جائے _ اگر ازدواجی تعلقات میں خوش گواری اور مزاجوں میں ہم آہنگی ہو تو عمروں میں تفاوت سے کچھ فرق نہیں پڑتا _

    (4) آج آزادئ رائے کا خوب ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے ، لیکن خواتین کو اس کا حق کیوں نہیں دیا جاتا؟ اگر ایک بالغ لڑکی اپنی آزاد مرضی سے کسی بڑی عمر کے مرد کے ساتھ نکاح پر تیار ہوجائے تو دوسروں کو اس پر اعتراض کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے؟!

    (5) ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کو بدباطن اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے نعوذ باللہ یہ آپ کی جنسی بے اعتدالی کا نتیجہ تھا ، حالاں کہ آپ کی ازدواجی زندگی سے اس کی کلیتاً تردید ہوتی ہے _ آپ نے 25 برس کی عمر میں ایک ایسی 40 سالہ خاتون سے نکاح کیا جن کے یکے بعد دیگرے دو شوہروں کا انتقال ہوچکا تھا اور وہ صاحبِ اولاد تھیں _ آپ نے 50 برس کی عمر تک اسی ایک بیوی پر قناعت کی اور کسی دوسری خاتون سے نکاح کا خواہش کا کبھی اظہار نہیں کیا _ ان کی وفات کی بعد ایک ایسی خاتون (حضرت سودہ رضی اللہ عنہا) سے نکاح کیا ، جو آپ کی ہم عمر تھیں _ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ جتنی خواتین سے نکاح کیے وہ سب ایک یا دو یا تین شوہروں کی بیویاں رہ چکی تھیں _ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ کا نکاح ایک خاص مقصد سے تھا اور وہ یہ کہ کوئی زیرک خاتون آپ کے ساتھ رہ کر آپ کی تعلیمات کو محفوظ کرے اور آپ کے انتقال کے کافی عرصہ بعد تک انہیں عام کرتی رہے _ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کی وفات کے بعد 50 برس تک آپ کے پیغام اور تعلیمات کو عام کرتی رہیں _

    ” پھر اللہ کے رسول اور حضرت عائشہ کے خلاف جو یاوہ گوئی کی جا رہی ہے اسے روکنے کے لیے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟” صحافی کا سوال تھا _

     میں نے عرض کیا : ” اس سلسلے میں مسلمانوں کی سربرآوردہ شخصیات کو کوئی منصوبۂ عمل تیار کرنا چاہیے _ مسلمانوں کو مذمّت اور احتجاج کے تمام جائز اور قانونی طریقے اختیار کرنے چاہیے اور ایسے بد باطن افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی کرنی چاہیے ، تاکہ ان کی شرانگیزی پر لگام لگے اور وہ قانون کے شکنجوں میں کسے جائیں _”

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com