اتر پردیش کی یوگی حکومت کے ذریعہ تشدد کے ملزمین کے گھروں پر بلڈوزر چلائے جانے سے مسلم طبقہ میں شدید ناراضگی ہے۔ اس تعلق سے سپریم کورٹ میں جمعیۃ علماء ہند نے ایک عرضی داخل کی تھی جس پر آج سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ نے یوگی حکومت سے تین دنوں میں اس پورے معاملے پر جواب داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ حالانکہ بلڈوزر ایکشن پر روک لگانے سے متعلق فی الحال کوئی حکم صادر نہیں کیا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے یہ ضرور کہا ہے کہ کوئی بھی کارروائی قانون کے دائرے میں ہونی چاہیے۔ اس معاملے پر اب آئندہ ہفتہ منگل کو سماعت ہوگی۔
آج ہوئی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے یوگی حکومت سے کہا کہ کوئی بھی توڑ پھوڑ کی کارروائی قانون پر عمل کرتے ہوئے ہو۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ایسی رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ یہ بدلے کی کارروائی ہے، اب یہ کتنا صحیح ہے اور کتنا غلط ہمیں نہیں معلوم۔ یہ رپورٹس درست بھی ہو سکتی ہیں اور غلط بھی۔ اگر اس طرح کی انہدامی کارروائی کی جاتی ہے تو کم از کم جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ قانون کے دائرے میں ہونا چاہیے۔
عدالت عظمیٰ کے ذریعہ کیے گئے اس تبصرہ پر یوگی حکومت کی طرف سے پیش وکیل تشار مہتا نے کہا کہ کیا عدالت طریقہ کار پر عمل کرنے والی ہدایت جاری کر سکتی ہے؟ اس پر سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم نوٹس جاری کر رہے ہیں، آپ تین دنوں میں جواب داخل کریں۔ آپ یقینی کریں کہ اس دوران کچھ بھی انہونی نہ ہو۔
قابل ذکر ہے کہ جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت یوپی حکومت کو ہدایت دے کہ مناسب طریقہ پر عمل کیے بغیر آگے کوئی انہدامی کارروائی نہ ہو۔ جمعیۃ کی طرف سے پیش وکیل سی یو سنگھ نے جوابدہی طے کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ عدالت فوری کارروائی پر روک لگائے۔ انھوں نے قانونی ضابطوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ریگولیشن آف بلڈنگ آپریشن ایکٹ کے مطابق بغیر بلڈنگ مالک کو اپنی بات رکھنے کا موقع دیئے کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی ہے۔ اس پر جسٹس بوپنا نے کہا کہ نوٹس ضروری ہوتا ہے، ہمیں اس کی جانکاری ہے۔