مہاراشٹر میں جمہوریت لہولہان

معصوم مرادآبادی 

مہاراشٹر میں پچھلا ہفتہ زبردست سیاسی کشمکش میں گزرا ۔ بال ٹھاکرے کی قایم کی ہوئی شیوسینا دوحصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ مہاوکاس اگھاڑی سرکارخطرے میں ہے۔ باغی گروپ کے لیڈر ایکناتھ شندے کا دعویٰ ہے کہ ممبران اسمبلی کی اکثریت ان کے ساتھ ہے۔ گوہاٹی میں باغیوں کے ساتھ اطمینان سے شطرنج کھیل رہے ایکنا تھ شندے کا کہنا ہے کہ ان کے سرپہ ’مہاشکتی‘ کا ہاتھ ہے۔ یہ مہاشکتی کون ہے اور اس کا منصوبہ کیا ہے، یہ سبھی کو معلوم ہے۔ فی الحال شندے اور ان کے ساتھیوں کا مستقبل اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کے ہاتھوں میں ہے۔ شندے نے اپنے 37 ممبران اسمبلی کی جو فہرست ڈپٹی اسپیکر کو سونپی ہے، ان میں سے 16 ممبران کی رکنیت ختم کرنے کے لیے ادھو ٹھاکرے پہلے ہی ڈپٹی اسپیکر سے رجوع ہوچکے ہیں۔ شہ اور مات کے اس کھیل کا انجام کیا ہوگا؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس سیاسی ہلچل کے دوران یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ بی جے پی اب ملک کی کسی بھی ریاست میں اپنے سوا کسی پارٹی کی حکومت دیکھنا نہیں چاہتی۔ پورے ملک پر بلا شرکت غیرے ہندتوا کا پرچم لہرانے کا جو خواب اس نے دیکھا ہے، اس کی تعبیر کے لیے وہ کسی بھی حدتک جاسکتی ہے۔

مہاراشٹر بی جے پی کے لیڈر راؤ صاحب پاٹل نے دعویٰ کیا ہے کہ ”شیوسینا کا کوئی بھی ممبراسمبلی ان کے رابطے میں نہیں ہے۔ ہم نے ایکناتھ شندے سے بھی کوئی بات نہیں کی ہے۔ یہ شیوسینا کا اندرونی معاملہ ہے۔“ بظاہر یہ ایک سیدھا سادا بیان ہے جس پر یقین کرنے کو جی بھی چاہتا ہے، لیکن اگر آپ سیاسی نقطہ نظر سے دیکھیں تو اس بیان میں ہی سیاسی عیاری اور مکاری کے سارے راز پوشیدہ ہیں۔سبھی جانتے ہیں کہ سیاست دو اور دو چار کاکھیل نہیں ہے بلکہ یہ عیاری، مکاری، جھوٹ اور مکروفریب کی دنیا ہے۔ اس میں جو کچھ سامنے نظر آتا ہے، اصلیت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ بظاہر یہ کہنا آسان ہے کہ یہ شوسینا کا داخلی بحران ہے، لیکن درحقیقت اس کی پوری اسکرپٹ بی جے پی نے لکھی ہے، جو مہاراشٹر میں اقتدار ہتھیانے کے لیے بے قرار ہے۔ پچھلے ڈھائی سال کے دوران مہاراشٹر کی ’مہاوکاس اگھاڑی‘ سرکار کو گراکر اقتدار پر قبضہ کرنے کی یہ دوسری کوشش ہے۔ پہلی کوشش میں بی جے پی نے این سی پی کو نشانہ بنایا تھا، لیکن این سی پی چونکہ شردپوار کی پارٹی ہے، جو سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں، اس لیے بی جے پی کا اقتدار ہتھیانے کا وہ کھیل کامیاب نہیں ہوسکا۔ اس وقت بغاوت کے ہیرو شردپورا کے بھتیجے اجیت پوار تھے۔ انھوں نے اپنی پارٹی کے کچھ ممبران اسمبلی کے ساتھ بی جے پی کے دیویندر فرنویس سے ہاتھ ملاکر انھیں آناً فاناً وزیراعلٰی اور خود نائب وزیراعلیٰ کا حلف بھی اٹھا لیا تھا۔ یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا تھا کہ سبھی سکتہ میں آگئے تھے۔ کسی نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اجیت اپنے چچا شردپوار سے بغاوت کریں گے۔ اس بغاوت کے محرک بھی وہی فرنویس تھے، جنھیں وزیراعلیٰ بنانے کے لیے شیوسینا کے باغی لیڈر ایکناتھ شندے بے قرار ہیں۔اس وقت فرنویس کا داؤ خالی گیا، کیونکہ اجیت پوار اپنے چچا کے پاس واپس آگئے اور فرنویس کو مستعفی ہونا پڑا۔ اس بار بھی شیوسینا کے سینئر لیڈر ایکناتھ شندے کے سرپر بھی فرنویس کا ہاتھ صاف نظر آتا ہے۔

سبھی جانتے ہیں کہ مہاراشٹر ملک کی اقتصادی راجدھانی ہے اور ہر پارٹی یہاں حکومت کرنا چاہتی ہے۔ بی جے پی تو یوں بھی اس وقت مہاراشٹر اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی ہے، لیکن اپنی شاطرانہ چالوں کی وجہ سے وہ اپوزیشن میں بیٹھی ہوئی ہے۔ حکومت اس سے آدھی سیٹوں والی شیوسینا کے ہاتھوں میں ہے۔کانگریس، این سی پی اور شیوسینا کی مخلوط حکومت گزشتہ ڈھائی سال سے کامیابی کے ساتھ چل تو رہی تھی، لیکن اس کو جھٹکے بھی لگ رہے تھے۔ ڈھائی سال پہلے جب شیوسینا سے شدید سیاسی اورنظریاتی اختلاف رکھنے والی کانگریس اور این سی پی نے ادھوٹھاکرے کو وزیراعلیٰ بنوایا تھا تو لوگوں کو اس بات پر مکمل یقین ہوچلا تھا کہ سیاست میں کوئی کسی کا مستقل دوست اور دشمن نہیں ہوتا بلکہ سب کچھ سیاسی مفادات ہی ہوتے ہیں، لیکن یہاں معاملہ چونکہ شیوسینا کا تھا اس لیے لوگوں کو جلدی اس اتحاد پر یقین نہیں آتا تھا۔ وہی شیوسینا جس کے سربراہ بال ٹھاکرے نے اپنی پوری سیاسی عمارت مسلم دشمنی پر تعمیر کی تھی ۔ اسی شیوسینا کے ساتھ کانگریس اور این سی پی جیسی سیکولر پارٹیوں نے مخلوط حکومت تشکیل دی۔ اس کا واحد مقصد بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنا تھا۔ بی جے پی اور شیوسینا نے مل کر الیکشن لڑا تھا اور بی جے پی اس میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی، لیکن شیوسینا اور بی جے پی میں وزیراعلیٰ کی کرسی کے سوال پر ان بن ہوگئی۔ ادھو ٹھاکرے چاہتے تھے کہ ڈھائی سال بی جے پی کا اور ڈھائی سال شیوسینا کا وزیراعلیٰ ہو، لیکن یہ شرط بی جے پی کو منظور نہیں تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں کا اتحاد ٹوٹ گیا۔ ادھوٹھاکرے کا این سی پی اور کانگریس کی مدد سے وزیراعلیٰ بننے کا خواب پورا ہوا۔ اس دوران ادھو ٹھاکرے نے خوش اسلوبی سے سرکار چلائی اور اپنے اتحادیوں کا پورا خیال رکھا، لیکن وہ اتحادیوں اور خود اپنی پارٹی کے ممبران کے درمیان توازن قایم نہیں رکھ سکے۔ ان کی پارٹی کے لیڈران کو یہ شکایت پیدا ہوگئی کہ وہ ان سے دور ہوگئے ہیں۔ اسی دوری کا فائدہ بی جے پی نے اٹھایا اور ان کی پارٹی میں نقب لگانے میں کامیاب ہوگئی۔ حالانکہ بی جے پی باربار یہی کہہ رہی ہے کہ یہ شیوسینا کا اندرونی معاملہ ہے اور اس کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، لیکن جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ شیوسینا میں اس بغاوت کے پیچھے بی جے پی کے علاوہ کوئی اورنہیں ہے۔ شیوسینا کے باغی ممبران کی پہلے گجرات اور اس کے بعد آسام میں جو آؤبھگت ہوئی ہے، وہ محض اتفاق نہیں ہے۔ ان دونوں صوبوں میں بی جے پی کی سرکار ہے اور وہاں شیوسینا کے باغی اراکین کی ضیافت کا اہتمام بی جے پی ہائی کمان کی ہدایت پر ہی کیا گیا ہے۔

یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ بی جے پی نے اس قسم کا کھیل کھیلا ہے بلکہ وہ اس سے پہلے بھی یہی کھیل مدھیہ پردیش، کرناٹک اور راجستھان میں کھیل چکی ہے۔ راجستھان میں اس کا شو فلاپ ضرور ہوا لیکن وہ مدھیہ پردیش اور کرناٹک میں اپنا کھیل کھیلنے میں کامیاب ہوگئی۔مدھیہ پردیش میں جب 2018 میں اسمبلی انتخابات ہوئے تو وہاں کانگریس سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری اور اس نے وہاں بی ایس پی اور کچھ آزاد ممبران کی مدد سے سرکار بنائی، لیکن 2020 میں بی جے پی نے وہاں جیوتی رادتیہ سندھیا کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر انھیں کانگریس سے بغاوت پر آمادہ کرلیا۔جیوتی رادتیہ کے حامی ممبران اسمبلی کی بغاوت سے کمل ناتھ کی قیادت والی کانگریس حکومت اقلیت میں آگئی اور انھیں مستعفی ہونا پڑا۔ اس طرح باغی ممبران اسمبلی کی حمایت سے وہاں بی جے پی نے سرکار بنالی۔ اس سے قبل یہی کھیل بی جے پی نے کرناٹک میں کھیلا تھا۔ وہاں 2017 کے چناؤ کے بعد یدی روپا نے حلف تو اٹھالیا لیکن وہ اپنی اکثریت ثابت نہیں کرپائے۔ اس کے بعد کانگریس اور جے ڈی ایس نے مخلوط سرکار بنالی۔ جولائی 2019میں بی جے پی نے یہاں بھی وہی کھیل کھیلا۔ کانگریس اور جے ڈی یو کے کئی ممبران اسمبلی باغی ہوکر بی جے پی کے خیمے میں چلے گئے اور اس طرح بی جے پی نے یہاں بھی سرکار بنالی۔لیکن جب یہی کھیل بی جے پی نے راجستھان میں سچن پائلٹ پر ہاتھ رکھ کر کھیلا تو وہ اس میں کامیاب نہیں ہوپائی۔

مہاراشٹر کے موجودہ حالات میں یہ کہنا مشکل ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، لیکن اتنا ضرور ہے کہ 53 ممبران اسمبلی والی شیوسینا میں جس بڑی تعداد میں بغاوت ہوئی ہے، اس سے شیوسینا کے وجود پر ہی سوالیہ نشان کھڑا ہوگیا ہے۔ بال ٹھاکرے کی ہندتوا سیاست کے سہارے اقتدار تک پہنچنے والی شیوسینا کا انجام کیا ہوگا، یہ آنے والے دن ہی بتائیں گے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ شوسینا میں بغاوت کے وسیع بیج بوکر بی جے پی نے خود کو مہاراشٹر میں ہندتوا سیاست کا اکلوتا ٹھیکیدار ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔خود کو اصولوں اور سیاسی اخلاقیات کا سب سے بڑا علمبردار قرار دینے والی “دنیا کی سب سے بڑی پارٹی” نے ایک بار پھر جمہوریت کو لہولہان کردیا ہے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com