تیستا سیتلواڑکی گرفتاری کے مضمرات

ابھے کمار

سماجی و انسانی حقوق کارکن ، صحافی اور مصنفہ تیستا سیتلواڑ کو گجرات اے ٹی ایس نے گرفتار کر لیا ہے۔ ممبئی میں واقع ان کی رہائش گاہ سے انہیں اتوار کے روز تحویل میں لے لیا گیا ۔ ان کے خلاف پولیس نے جعلسازی اور دھوکہ دہی سمیت کئی دفعات لگائی ہیں۔ وہیں پولیس پر سیتلواڑ نے یہ الزا م لگایا ہے کہ انہیں گرفتار کرتے وقت زور زبردستی کی گئی اور اس دوران ان کو چوٹیں بھی آئی ہیں۔ یکم جولائی تک سیتلواڑ کو پولیس حراست میں بھیج دیا گیا ہےسیتلواڑ کے علاوہ سابق پولیس ڈائرکٹر جنرل آر بی سری کمار اور سابق آئی پی ایس سنجیو بھٹ پر بھی مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ ان لوگوں پر بھی پولیس نے جعلسازی کرنے اور معصوم لوگوں کو پھنسانے سے متعلق مقدمہ دائر کیا ہے۔ اس پورے معاملہ کی جانچ کے لیے گجرات حکومت نے ایک ایس آئی ٹی بنائی ہے۔ ان سب کاروائیوں کے خلاف ملک پھر میں احتجاج ہو رہے ہیں اور انسان حقوق سے وابستہ تنظیموں نے اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے کہ انصاف کا مطالبہ کرنے والوں پر ہی پولیس اُلٹے کاروائی کر رہی ہے۔ بہت سارے انصاف پسند لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیتلواڑ اور کو پریشان کر ہندوتوا طاقتیں ایک سخت پیغام بھی دینا چاہتی ہیں۔پیغام یہ ہے کہ انہوں چیلنج کرنے والوں کو ایسی ہی سزا دی جائے گی۔تیستا سیتلواڑ کی گرفتاری کے پیچھے ایک سیاق بھی ہے۔ ان کی گرفتاری ایک دن قبل سپریم کورٹ نے گجرات فسادات سے متعلق ایک فیصلہ سُنایا تھا ۔ اس فیصلہ میں اس نے ذکیہ جعفری سے وابستہ ایک عرضی کو خارج کر دیا۔ یہ عرضی ایس آئی ٹی کی جانچ رپورٹ کو چیلنج کر رہی تھی، جس نے گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو کلین چیٹ دے دی تھی۔ سپریم کورٹ نےنہ صرف عرضی خارض کی بلکہ ا س کیس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ بھی اس پورے معاملہ میں غلط طریقہ کار کا استعمال کیے ہیں ، ان کے خلاف قانوں کے مطابق کاروائی ہونی چا ہیے۔ عدالت کے اس تبصرہ کے بعد گجرات پولیس نے سیتلواڑ اور دیگر کے خلاف نیا مقدمہ درج کیا اور ان کی دھر پکڑ شروع ہو گئی۔

پوری کاروارئی کو دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ گجرات پولیس سیاسی دباؤ میں کام کر رہی ہے ۔ المیہ دیکھیے حکومت اور انتظامیہ میں بیتھے جن لوگوں پر فسادات کے دواران اپنے فرائض کو انجام نہ دینے کا الزام تھا ، اب وہی لوگ عدالت کے فیصلے کا استعال ان لوگوں پر کر رہے ہیں جنہوں نے مظلوموں کو انصاف دلانے کے لیے جدو جہد کی۔ سیاست داں تو اپنے مفاد میں طاقت کا غلط استعمال کرتےرہے ہیں، مگر عدالت کی یہ پوری ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے کمزور ترین لوگوں کے مفاد کو سب سےپہلی ترجیح دے، مگر پچھلے کچھ سالوں سے عدالت عظمیٰ کے بہت سارے فیصلوں نے لوگوں کو کافی مایوس کیا ہے۔ را م مندر بابری مسجد تنازع کا ہی معاملہ لے لیجیے۔ جس مسجد کو دن کی روشنی میں توڑا گیا اس کی ہی شناخت قبول نہیں کی گئی ۔ ذکیہ جعفری کی عرضی کو مسترد کرتے ہوئے کورٹ نے جو تبصرے کیے ہیں وہ بھی کافی تشویسناک ہے کیونکہ عدالت نے انسانی حقوق کے لیے لڑنےوالوں اور مظلوموں کی آواز بلند کرنے والوں کو ہی ٹارگیٹ بنایا ہے۔ عدالت کو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ اس ٖفیصلہ کے انتظار میں بھگوا سیاست داں کافی لمبے وقت سے تھے۔ عدالت کےاس فیصلے کو اب وہ اپنے طریقے سے تشریح دے رہے ہیں اور ان لوگوں کو پکڑ رہے ہیں جنہوں نے ان کی سیاست کو کافی عرصہ سے جیلنج کیا ہے۔ سیتلوارڑ بھی لمبے وقت سے فرقہ پرستی اور نفرت کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ وہ سماجی انصاف کے اقدار میں بھی یقین رکھتی ہیں ۔ بابا صاحب امبیڈر کے افکار سے بھی وہ کافی متاثر ہیں۔ ان کی تحریر اور تقریر میں ذات اور جنس کی بنیاد پر ہو رہے امتیاز کے خلاف بھی صدائے احتجاج گنجتی ہیں۔

عدالت کو یہ بات سمجھنی چاہیے تھی کہ ریاست کی طاقت کے سامنے کسی فرد یا تنظیم کی طاقت کچھ بھی نہیں ہوتی ہے۔ اکثر ریاست اپنے مفاد کے لیے لوگوں کا استحصال کرتا ہے، جو بھی اس کے ظلم و زیادتی کے خلاف بولے ، ریاست ان کو کچلے کی کوشش کرتی ہے۔ اس لیے جب کوئی فرد یا کوئی تنظیم ریاست یا اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے خلاف کیس درج کرتا ہے تو عدالت کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ دونوں کی طاقت ایک برابر ہر گز نہیں ہے۔ ریاست اور ارباب اقتدار کے پاس پوری مشینری ہوتی ہے ، جس کی بنیاد پر وہ اپنے حریف کو ٹارگیٹ کرتی ہے ۔ اعتدال پسند سیاسی افکار نے ہمیشہ ریاست کو شخصی آزادی کے لیے ایک خظرہ مانا ہے۔ ہمارے آئین میں بھی بنیادی حقوق کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے، کیونکہ یہ انسانوں کی شخصی آزادی کےضامن ہیں۔ بنیادی حقوق شخصی آزادی پر ریاست کے حملوں کے خلاف ایک شیلڈ کا کام کرتے ہیں۔ یہ بات کورٹ کئی بار فراموش کر دیتا ہے کہ ریاست ہمیشہ سالمیت اور قومی مفاد کےنام پر ہی لوگوں کو پریشان کرتی ہے اور ایسے ایسے قانون کو پارلیمنٹ سے پاس کرا لیتی ہے جو آئین کے بنیادی حوقوق کے لیے خظرہ ثابت ہوتے ہیں۔ اس لیے عدالت کو چاہیے کہ کسی فرد اور ریاست کو ایک ہی ترازو میں نہ تولے۔ عدالت نے اپنے مذکورہ تبصرہ میں پولیس اور ریاست کو یہ موقع دے دیا ہے کہ وہ مظلوم لوگوں کی آواز بلند کرنے والے لوگوں کے خلاف کاروائی کر سکے ۔

کیا یہ بات کسی سے پوشیدہ ہوئی ہے کہ فسادات ہوتے نہیں بلکہ کروائے جاتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جب تک پولیس جائے واردات پر نہ پہنچے تک تک کچھ لوگوں کو کاٹ مار دیا جائے، مگر کیا فسادات کئی کئی دنوں تک چلتے رہیں گے، اگر انہیں روکنے کے لیے پولیس اور انتظامیہ سنجیدہ ہو؟ بہت سارے سیاستات کے ماہرین اور پولیس میں کام کرنے والے اعلیٰ افسران کا کہا ہے کہ دنگے ہوتے نہیں بلکہ کروائے جاتے ہیں۔ ہر حکومت کے پاس ایک خفیہ محکمہ ہوتا ہے، جس میں ر ہزاروں کی تعداد میں لوگ کام کرتے ہیں۔ کیا ان کو اس بات کی خبر نہیں تھی کہ گجرات میں اتنا بڑا فساد ہونے جا رہا ہے؟ کیا انہوں نے سرکار کو خبردار نہیں کیا ہوگا؟ عدالت تو فیصلہ دتیی ہی رہتی ہیں ، مگر ان کے سارے فیصلہ تنقید سے پرے بھی نہیں ہوتے ۔ تاریخ نے ماضی کے کئی عدالتی فیصلوں کو کوڑے کے ڈھیر میں بھی ڈال دیا ہے۔ یاد رکھیے معصوموں کا خون اور ان کی آہ میں بڑی گرمی ہوگی ہے۔ وہ ظلم و زیادتی کے بڑے سے بڑے قلعہ کو پانی کی طرح پکھلا دیتی ہے۔ آج تیستا سیتلواڑ اور ان جیسے دیگر انصاف پسند لوگوں کو نشانہ بنایا جانا جمہوریت پر حملے کے مترادف ہے۔ آئیں پر امن طریقے سے مظلوموں کی آواز بلند کرنے والو کو خاموش کرنے کی کوشش کے خلاف ہم اپنی آواز بلند کریں۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com