عدالتی پھٹکار کے باوجود ڈھٹائی برقرار

سہیل انجم

اس بات میں نہ پہلے کبھی کوئی شک تھا اور نہ اب ہے کہ بی جے پی نے اگر چہ نپور شرما کو پارٹی سے معطل کر دیا ہے لیکن اب بھی پوری پارٹی ان کے پیچھے کھڑی ہے۔ صرف پارٹی ہی نہیں بلکہ حکومت بھی ان کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ بی جے پی اور حکومت کے ان بیانات کی بظاہر کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے یا ان کا کوئی مطلب نہیں رہ گیا ہے کہ وہ نپور شرما کے بیان کی تائید نہیں کرتے اور یہ کہ ان کا بیان پارٹی اور حکومت کے خیالات و نظریات کی ترجمانی نہیں کرتا۔ کیونکہ اگر واقعی حکومت ان کے بیان کو غلط مانتی اور اس بات کا احساس کرتی کہ اس بیان کی وجہ سے ہی پورے ملک میں آگ لگی ہوئی ہے تو وہ بہت پہلے ان کے خلاف قانونی کارروائی کر چکی ہوتی اور انھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج چکی ہوتی۔

نپور شرما نے 26 مئی کو ایک نیوز چینل ٹائمز ناؤ کی ایک ڈبیٹ میں حصہ لیتے ہوئے پیغمبر اسلامؐ کی شان میں گستاخی کی تھی۔ اس وقت سے لے کر اب تک دریائے گنگا و جمنا میں بہت پانی بہہ چکا ہے۔ لیکن نپور شرما کے ساتھ ساتھ بی جے پی اور حکومت کی ڈھٹائی اپنی جگہ پر برقرار ہے۔ ابھی تک عالم اسلام اور پھر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں، عالمی اداروں، اقوام متحدہ اور امریکہ نے ان کے بیان کی مذمت کی تھی اور تمام مذاہب کے یکساں احترام پر زور دیا تھا۔ لیکن جب پانی سر سے اونچا ہو گیا تو ملک کی عدالت عظمیٰ یعنی سپریم کورٹ نے بھی ان کے بیان کی مذمت کی اور اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی بری طرح سے سرزنش کی۔

عدالت کے فاضل ججوں نے نپور شرما کی ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے جس طرح انھیں ملک میں لگنے والی آگ کے لیے تن تنہا ذمہ دار قرار دیا اور ہدایت دی کہ وہ ٹی وی پر آکر پوری قوم سے معافی مانگیں وہ اپنے آپ میں ایک تاریخی واقعہ ہے۔ یاد نہیں پڑتا کہ سپریم کورٹ نے اس سے قبل کسی سیاست داں کو اس طرح پھٹکارا ہو اور یہ کہا ہو کہ وہ ٹی وی پر آکر پورے ملک سے معافی مانگے۔ دراصل نپور شرما نے سپریم کورٹ میں دہائی دی تھی کہ انھیں جان کا خطرہ ہے لہٰذا ان کے خلاف مختلف ریاستوں میں قائم مقدمات کو ایک جگہ جمع کرکے دہلی منتقل کر دیا جائے تاکہ ان کو دوسری ریاستوں میں جانچ کے لیے نہ جانا پڑے۔

لیکن سپریم کورٹ نے نہ صرف یہ کہ ان کی عرضی خارج کر دی بلکہ یہ کہا کہ ان کے بیان کی وجہ سے پورے ملک میں آگ لگی ہوئی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ راجستھان کے ادے پور میں ہونے والا قتل انہی کی وجہ سے ہوا۔ جب ان کے وکیل نے کہا کہ ان کی موکلہ نے معافی مانگ لی ہے تو عدالت نے سوال کیا کہ کس سے معافی مانگ لی اور کیسے معافی مانگی۔ اگر مگر کرکے اور مشروط معافی مانگنا اور وہ بھی اتنی تاخیر سے اس کا کیا جواز ہے۔ عدالت نے سختی کے ساتھ کہا کہ جس طرح انھوں نے ٹی وی چینل پر بیان دیا تھا اسی طرح وہ ٹی وی چینل پر آکر معافی مانگیں۔ عدالت نے مذکورہ نیوز چینل ٹائمز ناؤ کے خلاف بھی ریمارکس دیئے اور دہلی پولیس کے خلاف بھی۔

عدالت کے ان انتہائی سخت ریمارکس کے بعد یہ امید پیدا ہو چلی تھی کہ اب نپور شرما ٹی وی پر آکر پوری قوم سے معافی مانگ کر اس آگ کو بجھا دیں گی۔ ایسا سمجھا جا رہا تھا کہ حکومت بھی ان سے کہے گی کہ وہ عدالتی حکم کی پابندی کریں اور پورے ملک سے معافی مانگیں۔ اس کے علاوہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی اور انھیں گرفتار کرکے جیل بھیجا جائے گا۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ دہلی پولیس نے اب بھی ان کو تحفظ فراہم کر رکھا ہے۔ گزشتہ دنوں جب ممبئی کی پولیس ان کو لے جانے کے لیے دہلی آئی تھی تو نپور شرما روپوش ہو گئیں۔ وہ پولیس کے ہتھے نہیں چڑھیں اور شاید دہلی پولیس نے بھی ممبئی پولیس کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا۔ لہٰذا ممبئی کی پولیس خالی ہاتھ لوٹ گئی۔

ادھر کلکتہ کی پولیس نے بھی نپور شرما کو حاضر ہونے اور جانچ میں تعاون دینے کے لیے سمن کیا تھا لیکن وہ وہاں بھی نہیں پہنچیں۔ اب کلکتہ کی پولیس نے ان کے نام سے لُک آؤٹ نوٹس جاری کر دیا ہے۔ لک آؤٹ نوٹس یا لک آؤٹ سرکولر اس وقت جاری کیا جاتا ہے جب کوئی مجرم پولیس کے طلب کرنے پر حاضر نہ ہو اور راہ فرار اختیار کر لے۔ یعنی ایک مفرور مجرم کی تلاش کے لیے یہ سرکولر جاری کیا جاتا ہے۔ سرکولر جاری ہونے کے بعد پولیس اس کی تلاش کرتی ہے اور اس پر بھی نظر رکھتی ہے کہ وہ شخص ملک سے باہر تو نہیں بھاگ رہا ہے۔ یعنی ایئر پورٹس کو الرٹ کر دیا جاتا ہے تاکہ اگر وہ شخص کسی دوسرے ملک میں جانے کی کوشش کرے تو اسے روکا اور پکڑا جا سکے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب نپور کے لیے پریشانیاں اور بڑھ گئی ہیں۔

بی جے پی ہو یا موجودہ حکومت، وہ عدالتی فیصلے یا حکم کو اپنے حساب سے لیتی ہیں۔ یعنی اگر وہ فیصلہ ان کو سوٹ کرتا ہے تو اس پر کارروائی ہوتی ہے اور نہیں کرتا تو کارروائی نہیں ہوتی۔ تازہ مثال تیستا سیتلواڈ کی ہے۔ جب سپریم کور ٹ نے گجرات فسادات کے سلسلے میں ذکیہ جعفری کی عرضی خارج کی اور یہ بھی کہہ دیا کہ عرضی داخل کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے تو اگلے ہی روز ذکیہ جعفری کی شریک عرضی گزار تیستا سیتلواڈ کو گرفتار کر لیا گیا۔ تیستا سیتلواڈ وہ خاتون ہیں جنھوں نے گجرات فسادات کے متاثرین کی قانونی مدد کی اور اب بھی کر رہی تھیں۔ لیکن انھیں گرفتار کر لیا گیا اور ان پر کئی الزامات لگا دیئے گئے۔ لیکن جب اسی سپریم کورٹ نے نپور شرما سے کہا کہ وہ پوری قوم سے معافی مانگیں تو نہ تو پولیس حرکت میں آئی اور نہ ہی حکومت۔ جبکہ عدالت نے دہلی پولیس کو بھی آڑے ہاتھوں لیا تھا اور اشاروں اشاروں میں حکومت پر بھی نکتہ چینی کی تھی۔

بہرحال عدالت کی سرزنش اور معافی مانگنے کی ہدایت کے باوجود نپور نے ابھی تک معافی نہیں مانگی ہے اور نہ ہی انھیں گرفتار کیا گیا ہے۔ حالانکہ اگر پہلے ہی انھیں گرفتار کر لیا گیا ہوتا تو ملک اس مصیبت میں نہیں پھنستا اور نہ ہی دنیا میں ہندوستان کی بدنامی ہوتی۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت اپنی روش بدلے اور نپور کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرتے ہوئے انھیں گرفتار کرے تاکہ ملک میں جو آگ لگی ہوئی ہے وہ بجھ سکے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com