پارٹی بچا نہیں پا رہے ملک کیسے بچائیں گے؟

 سہیل انجم 

دہشت گردی نہ صرف ہندوستان کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے کسی ناسور سے کم نہیں۔ عالمی برادری اس سلسلے میں فکرمند ہے اور اس سے متحد ہو کر لڑنے پر زور دیتی رہی ہے۔ لیکن اگر اس مسئلے کو سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے استعمال کیا جائے تو اس کی بھرپور مذمت کی جانی چاہیے۔ اس کی بھی اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ اقتدار میں بنے رہنے کی خاطر دہشت گردوں سے ساز باز کر لی جائے اور انھیں محض اس لیے پارٹی کا ممبر بنا دیا جائے کہ اس سے ووٹ حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ اگر کوئی پارٹی ایسا کرتی ہے تو وہ نہ صرف اپنے ملک کے لیے بلکہ انسانیت کے لیے بھی تباہی کا سامان کرتی ہے۔

بی جے پی ہمیشہ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی رہی ہے کہ وہ دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کے لیے جتنی سنجیدہ ہے اتنی کوئی پارٹی سنجیدہ نہیں ہے۔ وہ دوسری سیاسی پارٹیوں پر اور بالخصوص کانگریس پر دہشت گردوں کی حمایت کرنے کا الزام عاید کرتی رہی ہے۔ لیکن اگر غور کیا جائے اور مختلف واقعات پر نظر ڈالی جائے تو ایسا لگتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اس کا دعویٰ حقیقی نہیں بلکہ فرضی ہے۔ جبکہ کانگریس کو دہشت گردی سے خاصا نقصان ہوا ہے۔ اس پارٹی سے وابستہ ملک کے دو وزرائے اعظم اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اس کے باوجود بی جے پی کانگریس پر دہشت گردوں کے تئیں نرم رویے کا الزام عاید کرتی ہے۔

حالیہ دنوں میں جو واقعات پیش آئے ہیں وہ بی جے پی کے دعوے کی پول کھولتے ہیں۔ امت شاہ جب بی جے پی کے صدر تھے تو انھوں نے اس کی ممبرشپ میں اضافے کے لیے مہم چلائی تھی جس کے نتیجے میں اس کے ارکان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور بی جے پی خود کو دنیا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہونے کا دعویٰ کرنے لگی۔ ممکن ہے کہ یہ سچ ہو لیکن یہ الزام بھی سچ لگتا ہے کہ اس نے بغیر تحقیق اور انکوائری کے ہر اس شخص کو اپنا ممبر بنا دیا جس نے اس کی خواہش ظاہر کی۔ اس نے اس کے ماضی کے ریکارڈ کو جانچنے اور پرکھنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ لہٰذا اب دہشت گردوں کے بی جے پی میں شمولیت کا انکشاف ہونے لگا ہے۔

کانگریس نے اس سلسلے میں بی جے پی کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ بی جے پی کو خود احتسابی کرنی چاہیے اور یہ جانچنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنے ارکان کی تعداد میں اضافے کے لالچ میں ملک کو نقصان پہنچانے کے خطرہ تو نہیں پیدا کر رہی ہے۔ اس نے بی جے پی سے اپیل کی ہے کہ وہ ایک اندورنی جانچ کمیٹی تشکیل دے اور اس کا پتہ لگائے کہ دہشت گردوں نے بی جے پی کی رکنیت کیسے حاصل کر لی۔ اس کے علاوہ وہ اس معاملے پر غور و خوض کرنے کے لیے نیشنل ایکزیکٹیو کی میٹنگ بھی بلائے۔

ادھر کانگریس کی ایک دوسری لیڈر ونگ کمانڈر انوما آچاریہ نے بھونیشور میں ایک پریس کانفرنس کرکے دہشت گردوں سے بی جے پی کے مبینہ کنکشن کو بے نقاب کیا ہے۔ انھوں نے اس کی متعدد مثالیں پیش کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ کیا یہ محض سنجوگ ہے یا پریوگ ہے۔ ان کے مطابق ہم دہشت گردی پر سیاست کرنے میں یقین نہیں رکھتے لیکن دہشت گردوں سے بی جے پی کے تعلقات کے سلسلے میں جو حالیہ انکشافات ہوئے ہیں ان کی روشنی میں اس سے سوالات ضرور پوچھ سکتے ہیں۔

انھوں نے ادے پور میں ایک ہندو درزی کے قتل میں ملوث ریاض اٹاری کا ذکر کیا اور کہا کہ اس نے بی جے پی کے ایک بڑے مقامی لیڈر کی موجودگی میں پارٹی جوائن کی تھی۔ انھوں نے میڈیا رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ راجستھان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بی جے پی کے گلاب چند کٹاریہ کے داماد نے ریاض کو بی جے پی میں شامل کرایا تھا۔ پارٹی کے سینئر بی جے پی رہنماؤں کی موجودگی میں پارٹی کے متعدد پروگراموں میں شریک ہوتے ہوئے بھی اسے دیکھا گیا ہے۔

قارئین کو معلوم ہوگا کہ گزشتہ دنوں جموں و کشمیر میں لشکر طیبہ کے ایک دہشت گرد طالب حسین شاہ کو گاؤں والوں نے پکڑ لیا تھا۔ اس کے ساتھ ایک اور دہشت گرد پکڑا گیا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ طالب شاہ بی جے پی کے اقلیتی شعبے کا عہدے دار تھا۔ پولیس کے مطابق اس وقت دونوں افراد مسلح تھے۔ ان کے قبضے سے دو اے کے 47 رائفل، سات دستی بم اور بھاری تعداد میں گولہ بارود برآمد کیے گئے تھے۔ طالب حسین کی نشاندہی پر ضلع راجوری کے گاؤں دَرّج میں دہشت گردوں کے ایک ٹھکانے سے چھ مقناطیسی یا اسٹکی بم، تین پستول میگزین اور 19 راؤنڈز، ایک انڈر بیرل گرینیڈ لانچر اور تین گرینیڈ، اے کے 47 بندوق کی 75 گولیاں اور اینٹنا سمیت ایک آئی ای ڈی بھی برآمد کی گئی تھی۔ رپورٹوں کے مطابق وہ لوگ امرناتھ یاتریوں پر حملے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق امراوتی میں ایک کیمسٹ اومیش کولہے کے قتل کے ایک ملزم عرفان خان کے مہاراشٹر کی آزاد ایم پی نونیت رانا اور ان کے ایم ایل اے شوہر روی رانا سے تعلقات تھے۔ عرفان نے نونیت کی انتخابی مہم بھی چلائی تھی۔ کانگریس رہنما نے کہا کہ ان دونوں ایم پی ایم ایل میاں بیوی کے بی جے پی سے قریبی رشتے کے بارے میں ہر شخص جانتا ہے۔ خیال رہے کہ جب مسجدوں کے سامنے ہنومان چالیسہ پڑھنے کی مہم چلائی جا رہی تھی تو نونیت رانا نے اس وقت کے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کے گھر کے باہر ہنومان چالیسہ پڑھنے کا اعلان کیا تھا جس پر انھیں پولیس نے گرفتار کیا تھا اور وہ کئی دنوں تک جیل میں تھیں۔ اس وقت بی جے پی نے ان کی بھرپور حمایت کی تھی۔ یاد رہے کہ میڈیا رپورٹوں کے مطابق اومیش کولہے کا قتل نوپور شرما کی حمایت کرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔

بی جے پی کے ایک سابق لیڈر اور سابق سرپنچ طارق احمد میر کو حزب المجاہدین کے کمامڈر نوید بابو کے لیے ہتھیار حاصل کرنے کے الزام میں 2020 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس سے قبل این آئی اے نے اسے ڈی ایس پی دیویندر سنگھ کے ساتھ دہشت گردوں کو ہتھیار سپلائی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ کانگریس رہنما انوما آچاریہ کا کہنا ہے کہ اگر دیویندر سنگھ معاملے کی ایماندارانہ جانچ ہوئی ہوتی تو بہت سے حقائق سامنے آتے لیکن جانچ کو درمیان ہی میں روک دیا گیا۔

مدھیہ پردیش کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ نے 2017 میں بی جے پی آئی ٹی سیل کے ایک ممبر دھرو سکسینہ اور اس کے دس ساتھیوں کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ ان لوگوں نے جاسوسی کے عمل کو آسان بنانے کے لیے ایک غیر قانونی ٹیلی فون ایکسچینج بھی قائم کیا تھا۔ دھرو سکسینہ کی مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان کے ساتھ ایک تصویر بھی میڈیا میں شائع ہوئی تھی۔ دو سال کے بعد دہشت گردوں کی فنڈنگ کے الزام میں مدھیہ پردیش بجرنگ دل کے ایک لیڈر بلرام سنگھ کو گرفتار کیا گیا تھا۔

خصوصی این آئی اے عدالت نے 2017 میں آسام بی جے پی کے ایک لیڈر نرنجن ہوجائی کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ اس کو ایک ہزار کروڑ روپے کے ایک گھوٹالے میں پکڑا گیا تھا۔ انوما آچاریہ کا کہنا ہے کہ سرکاری فنڈ کو دہشت گردوں کی مدد کے لیے منتقل کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بی جے پی نے سری نگر میونسپل کارپوریشن کے الیکشن میں وارڈ نمبر 33 سے مولانا مسعود اظہر کے ایک خادم محمد فاروق خان کو ٹکٹ دیا تھا۔ جبکہ وہ اس سے قبل جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ اور حرکت المجاہدین کا ممبر تھا۔

انوما آچاریہ نے بی جے پی پر یہ الزام بھی لگایا کہ اس کی حکومت نے 1999 میں قندھار جہاز ہائی جیک معاملے میں مسعود اظہر کو رہا کیا تھا۔ بعد میں مسعود اظہر نے جیش محمد نامی تنظیم بنائی جس نے پارلیمنٹ ہاؤس پر حملہ کیا اور جو 2008 میں ممبئی پر ہونے والے خوفناک حملے میں بھی ملوث رہی ہے۔ اسی نے 2019 میں پلوامہ میں سی آر پی ایف کے قافلے پر حملہ کیا تھا۔

ان واقعات کی روشنی میں یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ کیا واقعی بی جے پی دہشت گردی کے مسئلے پر سنجیدہ ہے یا وہ محض فرضی دعویٰ کرتی ہے۔ جس طرح بی جے پی میں دہشت گردوں کے داخلے کا انکشاف ہوا ہے وہ بہت سنگین معاملہ ہے۔ بی جے پی کو اس معاملے پر عوام کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ صرف کانگریس پر دہشت گردی کے نام پر سیاست کرنے کا الزام لگا دینے سے بات نہیں بنے گی۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com