اترپردیش میں راہل اکھلیش ایک ساتھ

محمدقمرعالم ندوی
اترپردیش پارٹی لیڈران نے اپنے اپنے امیدوار کو میدان میں اتارچکی ہے، اب ہرگلی کوچے میں امیدواروں کی ریلیاں نکل رہی ہے، ہرطرف امیدواروں کا شورغوغاں ہے،نعرے بازی ہورہی ہے، کہیں میدانوں میں بڑے بڑے سیاسی ماہرین فلمی دنیا کے سپر اسٹار عوام کو لبھانے، بھیڑ جمع کرانے کے لئے عوام کے سامنے حاضر ی دینے کاوقت ہوچکاہے، اترپردیش میں ایس پی کانگریس کی بھی دھوم ہے اور پہلے یہ بات گونج رہی تھی کہ کہ کانگریس جس کے ساتھ بھی اتحاد کرے گی، کامیاب ہوجائے گی،شرع میں میں بات چلی تھی کہ اگربہوجن سماج وادی کے ساتھ اتحاد ہوتاہے توبہت ہی خوش آئندثابت ہوگا، لیکن بہن جی نے پورے سیٹ پرلڑنے کافیصلہ کرلیا، حالانکہ۲۴ سال پہلے بھی کانگریس کا بہوجن سماج وادی پارٹی کے ساتھ اتحاد ہواتھا،بی جے پی کے ساتھ کانگریس کبھی اتحاد کے لئے سوچ بھی نہیں سکتی، بالآخرپوری سوچی سمجھے منصوبہ کے تحت کانگریس کااتحادسماج وادی کے ساتھ انجام پاگیا،سیٹ کامسئلہ رکا ہوا تھا، وہ بھی پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا ہے، اب جہاں الیکشن کا وقت آپہنچاہے ،وہیں راہل اکھلیش یادو کاپریس کانفرنس اور روڈ شوبھی کافی اہمیت کاحامل ہے، یہ پہلی دفعہ دیکھنے کوملاہے، جہاں ایک اسٹیج پر راہل اکھلیش نظرآئے میڈیاکے سامنے روبرو ہوکر پریس کانفرنس کیا اور آگے کی حکمت عملی پرچلنے کی تیاری ہے، میڈیا کے سامنے اپنی بات رکھاہے، لکھنؤ کے مشہور علاقہ حضرت گنج سے گھنٹہ گھرتک ۸ کیلومیٹر تک لمبا روڈ شو بھی کیا، لوگوں کا زبردست بھیڑ امنڈ پڑا تھا، اس سے پہلے بھی راہل اکھلیش نے روڈ شو کیا تھا، لیکن وہ اپنے پارٹی کے جھنڈے تلے تھا، یہ تاریخ میں پہلی دفعہ ہے، راہل اکھلیش نے ایک ساتھ پریس کانفرنس کیا، گاڑ ی پر سوار ہوکر روڈ شو کیاہے، اکھلیش نے کہاہے کہ اب سائیکل کے ساتھ ہاتھ کاسپورٹ رہے گا تو ملک ترقی کرے گا، راہل گاندھی نے کہاہے کہ ملک اس مک کے گنگا جمنا کا ملن ہوا ہے ، یہاں یہ بات ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے کہ جس طرح دونوں نوجوان لیڈران گرم جوشی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہیں ،اگریہی رویہ اور سلوک برابربرقراکھاہے توکہاجاسکتاہے ،راہل اکھلیش دونوں کی جوڑی سے آگے کے نتائج بھی مثبت ثابت ہوں گے اور اس کے اثرات دور تک مرتب ہوں گے، اترپردیش میں یہ دونو نوجوان کی وجہ سے یوپی کے نوجوان طبقہ کے حوصلے بلند ہیں ،وزیراعلی کے امیدوار کے لئے اکھلیش کی کامیاب بنانے کی کوشش ہے، لیکن کیااسی طرح ۲۰۱۹ میں بھی اکھلیش یادو راہل کے وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر روڈ شو کرکے کامیاب بناپائیں گے ، اگردوستی اسی طرح کامیاب ہوتاہے تونئی نسل کے نوجوان کے لئے سودمندثابت ہوگا ،ہرطرف سے اتحادی پارٹی کوجیتنے کی قیاس آرائی کابازارگرم ہے ،وہیں دادری مظفرنگر کامعاملہ لوگ بھولے نہیں ہے، بلکہ وہ وقت آج بھی یاد کرکے بدن کانپ اٹھتاہے، سب کے باوجود ایک طبقہ اتحادی طبقہ کو کامیاب کرنے کا خواہنشمند ہے ،جبکہ مایاوتی نے اپناسابقہ ریکارڈ کوتورتے ہوئے، اس دفعہ ۱۰۹ مسلم میدواروں کوٹکٹ دیاہے، اس دفعہ مایاوتی کومسلم امیدوارکی زیادہ فکرستانی لگے ہے، مسلم طبقہ کی بہی خواہی کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے، چونکہ مایاوتی جانتی ہے کہ صرف دلت پسماندہ اقلیتی طبقہ کے ساتھ کامیاب نہیں ہوسکتی ہے ،بلکہ مسلم ووٹروں کی بھی کافی اہمیت ہے، بھارتی جنتا پارٹی پر پوری طرح سے کنبہ پروری کا اثر دیکھنے کومل رہاہے ہرایم پی ہر ایم اے لے کا بیٹا پوتا بہو بیٹی کو ٹکٹ دے کر اپنے نظریہ فکرکی عکاسی بیان کردیاہے ،دوسری طرف سب کاساتھ سب کاوکاس کانعرہ لگانے والی بی جے پی نے ایک بھی مسلم امیدواروں کوٹکٹ نہیں دیاہے، انہیں یہ بات پوری طرح سے معلوم ہے کہ مسلم کمیونٹی بی جے پی کو ووٹ نہیں دے گی، ہارنے جیتنے کا فیصلہ تو پہلے نہیں کرسکتے ایسے بھی مسلم علاقہ سے بی جے پی کی ہار تو یقینی مانا جارہا ہے ،تاہم اب دیکھناہے کہ لوگوں کارجحان کس طرف جاتاہے اور اہم بات یہ کہ نوٹ بندی کا تذکرہ اب مودی سرکارنہیں کررہی ہے، اس لئے کہ لوگ دکھی ہیں ،ہرچہارجانب کاروبار ٹھپ بن چکاہے، انگنت لوگ بے روزگار بیٹھے ہیں،علی گڑھ میں تالا کا کاروبار براس ہنڈی کرافٹ کا کاروبار بند ہوچکاہے، نوٹ بندی کااثرباقی ہے، لوگوں میں ہاہاکار مچا ہواہے، اس کا ذمہ دار دراصل مودی سرکارہے، جواپنے طورپرمن مانی کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے۔
اترپردیش کی عوام کو کسی ایک پلیٹ فارم کارخ کرنا ہے، چونکہ ڈر ہے کہ اگر اترپردیش کی عوام بکھرنے کی کشش کرے گی تو بی جے پی کافائدہ ہوجائے گا،اگرملک کے نظم کو درست ومستحکم کرناہے توبی جے پی کا سرے سے بائکاٹ کرناہے ،کمل چھاپ کوکھلنے سے بچاناہے، ہاتھی کو آگے برھنے نہیں دیناہے اگر ہاتھی بڑھ گئی تو اترپردیش میں ہرجگہ ہاتھی چل کریہاں کی عوام کو اپنے پا ؤ ں سے روند دے گی ،موجودہ حالات میں اترپردیش کا الیکشن بہت اہمیت کاحامل ہے، جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتاہے، یہی وجہ ہے کہ ملک کے پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخاب کی دھوم ہے، لیکن جتنا زیادہ چرچا اترپردیش میں ہے اتنازیادہ کسی دوسری ریاست کانام نہیں آرہاہے اس کاوجہ یہی ہے دہلی میں پہنچنے کاراستہ یوپی سے ہوکرہی گذرتاہے،یہاں جیت سے ہی ۲۰۱۹ کاراستہ ہموار ہوگا، بی جے پی اکھلیش یادو کی منشور کااعادہ کیاہے ،جس میں لیپ ٹاپ،میٹرو، ایمبولینس سروس، خواتین کے لئے پنشن ،نئے میڈیکل کالج اور وائی فائی زون بنانے کاوعدہ کیاہے ، بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں س بات کابھی ذکرکیاہے کہ اگر بھاجپا کی سرکار کامیاب ہوتی ہے تو رام مندر اسی جگہ پر بنے گی ،تین طلاق اورسول کوڈپرعمل درآمد کیاجائے گا،بعض بی جے پی والے لوگ تورم مندر کوایشو بنانااپنے لئے لازم ملزم سمجھ لیاہے، وہ اس لئے کہ رام مندر کے بغیر نہیں جیت سکتاہے ،گویا کہا جائے گا کہ بی جے پی نے کوئی نیا اچھوتا منشور دل سے شائع نہیں کیا ہے، جس کی وجہ سے لوگ بی جے پی کی طرف مائل ہوسکیں۔بلکہ وہی پرانی ساری باتیں ہیں جوپہلے سے اترپردیش میں ہوتا آرہا ہے۔
سیاسی ماہرین کی طرف سے یہ تبصرہ موصول ہورہاہے ڈبیٹ میں دکھایا جارہا ہے، کہیں بی جے پی کوہارنے کا بیان دیا جارہا ہے تو کہیں اترپردیش سے ایس پی کانگریس کی جیت کادعوی کیا رہا ہے ، اکھلیش یادو پہلے نمبر پر مضبوط ،طاقتور وزیراعلی کے دور میں ہیں، اکھلیش یادو وزیراعظم مودی سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں اچھے شبیہ کے مالک ہیں،اکھلیش یادوکی سرکار مایاوتی سے پہلے ہیں دوسرے نیتاکے مقابلہ میں سب سے آگے بڑھ چکے ہیں، وہیں دوسرے نمبر پر مایاوتی کاچہرہ ابھرتا ہوا نظر آرہاہے ،بی جے پی پارٹی کامقام تیسرے نمبرپرہے، اب دیکھنا ہے کہ حقیقت میں جیت کس کی ہوتی ہے، ہر پارٹی لیڈران پرچارکے لئے اسٹار بالی وڈ کو بھی لانے پر مجبور ہیں، تاکہ اس کے بغیرووٹ ووٹ حاصل نہیں کیاجاسکتاہے ،عوام بھی چالاک ہوچکی ہے، دیکھنے کے لئے بھیڑ جمع ہوجاتی ہے، لیکن بی جے پی کوووٹ دینے کی دوبارہ غلطی نہیں کرسکتی ہے، وزیراعظم کی آئے دن ریلی ہورہی ہے، جہاں لوگوں کاامنڈ ٹوٹ پرتاہے تو بسا اوقات وزیراعظم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ سب ہمارے ووٹرس ہیں ،ہمارے چاہنے والے ہیں ہمارے نظریہ فکرسے مطمئن ہیں، حالانکہ یہ ان کی بھول ہے، کاؤنٹنگ کے بعد وزیراعظم کوحقیقت کاپتہ چل جائے گا ،چونکہ الیکشن کے دوران تو آنکھ پردھول پرجاتاہے، ذہن دماغ سمٹ کر مفلوج ہوجاتاہے ،جس کی وجہ سے وہ دیکھنے کے سمجھنے کے لائق نہیں ہوتے، اس لئے جب کھیل ختم ہوجاتاہے تواپنی عقلمندی پرافسوس کرتے ہیں کہ کہیں کسی سسٹم کابہانہ لگاکراپنی کمی کوچھپاتے ہیں۔