جھوٹ اور نفرت کا کاروبار

معصوم مرادآبادی

 لندن کی ایک عدالت نے حال ہی میں ارنب گوسوامی کے’ری پبلک ٹی وی‘ پر ایک جھوٹی خبر چلانے کے لیے 36 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا ہے۔ یہ جرمانہ ایک برطانوی تاجر کوبدنام کرنے کے عوض وصول کیا جائے گا۔ دراصل ری پبلک ٹی وی نے دوسال قبل یعنی 22 جولائی 2020 کو ”آئی ایس آئی کی کٹھ پتلی‘ کے عنوان سے ایک پروگرام نشر کیا تھا جس میں ایک برطانوی شہری انیس مسرت کو ’دہشت گردوں کا ہم نوا‘ اور ہندوستان مخالف شخص قرار دیا گیا تھا۔ انیس مسرت نے ری پبلک ٹی وی کے اس سفید جھوٹ کے خلاف لندن ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ عدالت نے پایا کہ چینل نے جو خبر نشر کی تھی اس کے حق میں اس کے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں تھے اور اس سے شکایت کنندہ کا وقار مجروح ہوا۔ لہٰذا عدالت نے چینل پر37500 پاؤنڈ اسٹرلنگ کا جرمانہ عائد کیاہے، جو ہندوستانی کرنسی میں تقریباً 36 لاکھ روپے ہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ گودی میڈیا کے کسی چینل پر جھوٹی خبریں چلانے کے لیے بھاری رقم کا جرمانہ عائد کیا گیاہے۔ورنہ اب تک اس نوعیت کے چینل ہر قسم کاجھوٹ پھیلانے کے معاملے میں کسی بھی سزا سے بچتے رہے ہیں۔ یہ بھی اس لیے ممکن ہوسکاہے کہ عدالتی کارروائی بیرون ملک کی ایک عدالت میں ہوئی، ورنہ اندرون ملک اس قسم کے سینکڑوں مقدمات زیرسماعت ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ گودی میڈیا نے عزت دار لوگوں کی پگڑیاں اچھالی ہیں اور بے سرپیر کی خبروں سے اس ملک کے کمزورطبقوں اور خاص طور پر مسلمانوں کا جینا حرام کررکھا ہے۔سب سے شرمناک بات یہ ہے کہ جب کبھی ان چینلوں کے اینکروں یا رپورٹروں کے خلاف جھوٹی خبروں کے لیے مقدمات درج ہوتے ہیں تو بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں کی پولیس ان کے دفاع میں سامنے آجاتی ہے اور انھیں قانونی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ان واقعات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جھوٹ کا یہ گھناؤنا کاروبار حکمراں جماعت کی سرپرستی میں پھل پھول رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پچھلے دنوں جب راہل گاندھی کے خلاف ایک بالکل جھوٹی خبر چلانے کے لیے ’زی نیوز‘ کے اینکر روہت رنجن کی گرفتاری کے لیے چھتیس گڑھ پولیس وارنٹ لے کر نوئیڈا پہنچی تو مقامی پولیس اس کے سامنے دیوار بن گئی اوراس نے روہت رنجن کو چھتیس گڑھ پولیس کے ہاتھوں سے چھین کر فرار ہونے کا موقع فراہم کیا۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس معاملے میں تمام قانونی ضابطوں کو بھی بالائے طاق رکھ دیا گیا۔قانونی ضابطوں کے مطابق اگر کسی ریاستی پولیس کو کسی ملزم کی تلاش ہے اور مطلوبہ ملزم کسی دوسری ریاست میں موجود ہے تو یہ اس ریاست کی پولیس کی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی گرفتاری میں مددکرے، مگر یہاں معاملہ چونکہ گودی میڈیا کا ہے، اس لیے نوئیڈا پولیس نے غیرقانونی طور پر ملزم کو چھتیس گڑھ پولیس کے ہاتھوں سے چھڑالیا۔معاملہ یہ تھا کہ زی نیوز کے اس اینکر نے کانگریس لیڈر راہل گاندھی کے خلاف ایک ایسی گمراہ کن خبر چلائی تھی جس سے ان کی پوزیشن مجروح ہوتی تھی۔ دراصل کیرل میں راہل کے حلقہ انتخاب وایناڑ میں کچھ شرپسند نوجوانوں نے ان کے دفتر پر حملہ کرکے توڑپھوڑکی تھی۔ جب اخبار نویسوں نے راہل گاندھی سے اس واقعہ پر تبصرہ کرنے کو کہا تو انھوں نے جواب دیاکہ ”وہ اپنے ہی بچے ہیں، ہم انھیں سمجھا بجھاکر راہ راست پر لائیں گے۔“زی ٹی وی نے راہل گاندھی کے اس بیان کو رائے پور واقعہ سے جوڑ کر دکھایا اور کہا کہ راہل گاندھی نے کنہیا لال کے قاتلوں کے بارے میں یہ ہمدردانہ بات کہی ہے۔ اس خبر کے نشر ہونے کے بعد جب کانگریس پارٹی نے احتجاج کیا تو چینل نے باقاعدہ معافی مانگی، لیکن روہت رنجن کے خلاف چونکہ راجستھان اورچھتیس گڑھ میں کیس درج ہوچکا تھا، اس لیے اس کی گرفتاری ضروری تھی۔ جس کی راہ میں اترپردیش پولیس نے روڑے اٹکائے اور ملزم کو فرارہونے کا موقع دیا۔

اس سے قبل زی ٹی وی کے اینکر امن چوپڑا نے گزشتہ اپریل میں راجستھان کے الورضلع میں ایک مندر کے انہدام سے متعلق یہ من گھڑت کہانی نشر کی تھی کہ یہ اقدام کانگریس حکومت نے دہلی کے جہانگیرپوری علاقہ میں ایک مسجد کے آس پاس ہوئی انہدامی کارروائی کا انتقام لینے کے لیے کیا ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مندر کا انہدام جہانگیرپوری واقعہ سے پہلے ہوا تھا اور اس میں بی جے پی کے اقتدار والی مقامی میونسپل کارپوریشن کا ہاتھ تھا، جو غیرقانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی کررہی تھی۔ امن چوپڑا کے اس سفید جھوٹ کے خلاف راجستھان پولیس نے ایف آئی آر درج کی اور وہ اسے گرفتار کرنے نوئیڈا پہنچی، لیکن نوئیڈا پولیس نے چوپڑا کی گرفتاری میں رخنہ اندازی کی۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ملزم کے خلاف وافر ثبوت ہونے کے باوجود عدلیہ نے بھی اسے گرفتاری سے بچایا جبکہ امن چوپڑا کی اس دانستہ شرانگیزی سے امن وامان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خطرہ لاحق تھا۔

گودی میڈیا کی طرف سے چلائے جارہے نفرت اور جھوٹ کے منافع بخش کاروبار کے یہ چند تازہ واقعات ہیں، ورنہ گودی میڈیا اس قسم کی حرکتوں میں سرتاپا ملوث ہے جس سے ملک کے امن امان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو شدید خطرات لاحق ہیں، لیکن جب کبھی ان شرپسندوں کے خلاف قانون اپنا کام کرتا ہے تو حکمراں جماعت ان کے دفاع میں سامنے آجاتی ہے۔ اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ گودی میڈیا جھوٹ، مکروفریب اور منافرت کا جو کاروبار دھڑلے سے چلارہا ہے، اسے حکمراں جماعت کا ’آشیرواد‘ حاصل ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس سے حکمراں جماعت کواپنا سیاسی سیاسی ایجنڈا پورا کرنے میں مددمل رہی ہے۔ اسی لیے وہ چاہتی ہے کہ جھوٹ اور نفرت کا یہ گھناؤنا کاروبار یونہی پھلتاپھولتا رہے۔

 آپ اس کے دوسرے پہلو پر نظرڈالیں گے تو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ متبادل میڈیا میں جو لوگ جھوٹ کے اس گھناؤنے کاروبار کا پردہ چاک کررہے ہیں، انھیں سرکاری مشنری سبق سکھانے کی روش پر گامزن ہے۔ اس کا ثبوت ’آلٹرنیوز‘ کے صحافی محمدزبیر کے ساتھ سرکاری مشنری کاظالمانہ سلوک ہے، جسے مسلسل ہراساں کیا جارہا ہے۔زبیر دراصل اپنی ویب سائٹ پر گودی میڈیا پر چلنے والی جھوٹی اور من گھڑت خبروں کا پوسٹ مارٹم کرکے لوگوں کو حقیقت سے روشناس کراتے ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ نوپور شرما کے معاملے کو بھی محمدزبیر نے ہی اجاگر کیا تھا۔اس واقعہ کے بعد تمام فسطائی عناصر محمدزبیر کے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نوپورشرما کے خلاف درج ہوئی درجنوں ایف آئی آر کے باوجود ابھی تک اس کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے بلکہ اس کو باضابطہ سیکورٹی فراہم کی گئی ہے جبکہ محمد زبیر کو 2018 میں کئے گئے ایک ایسے ٹویٹ کی بنیاد پر گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا، جو برسوں پرانی ایک فلم کا تھا اور جسے باقاعدہ سینسر بورڈ نے منطوری دی تھی۔اس سے قبل محمدزبیر کے خلاف یوپی میں ان کے ایک ایسے ٹویٹ کی بنیاد پر مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں انھوں نے بدنام زمانہ فرقہ پرست عناصرکو ’نفرت پھیلانے والا‘ لکھا تھا۔ ان کے اس ٹوئٹ کی بنیاد پر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی ایف آئی آر درج کروائی گئی اور زبیر کو گرفتار کرلیا گیا۔ حالانکہ زبیر نے جن لوگوں کو ’ نفرت پھیلانے والا‘ کہا تھا ان کے خلاف سپریم کورٹ میں ہریدوار اشتعال انگیزی کے لیے مقدمہ چل رہا ہے اور انھیں اس معاملے میں گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ فی الحال دہلی ہائی کورٹ نے محمد زبیر کو ضمانت دے دی ہے۔ مگر یوپی کی عدالت انھیں ضمانت نہیں دے رہی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ زبیر کو جھوٹ کا پردہ چاک کرنے کی سزا مل رہی ہے جبکہ جھوٹ پھیلانے والے سرکاری سرپرستی میں آزاد گھوم رہے ہیں۔ یہی موجودہ نظام کی سب سے بڑی پہچان ہے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com