نئی دہلی: (پریس ریلیز) بلقیس بانوں کے گنہہ گاروں کو معافی دینا شرمناک اور افسوسناک ہے اور گجرات سرکار کا یہ فیصلہ مجرموں کی حوصلہ افزائی کرنے والا ہے ۔ سرکار کے ایسے ہی اقدامات کی وجہ سے مجرموں کے دلوں سے خوف ودہشت ختم ہوجاتی ہے اور وہ سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد منظو رعالم نے کیا ۔
انہوں نے اخبارات کو جاری پریس ریلیز میں کہاکہ2002 کے گجرات فساد کے دوران بلقیس بانوں جب پانچ ماہ کی حاملہ تھی اس وقت ان کے ساتھ ایک گروپ نے اجتماعی عصمت دری کی اور خاندان کے سات لوگوں کا قتل بھی کردیا ۔ یہ انتہائی سنگین جرم ہے ، اس سے گھٹیااور گھناﺅنا جرم کوئی اور نہیں ہوسکتاہے ، ایسے مجرموں کو عموماپھانسی کی سزادی جاتی ہے تاہم ان مجرموں کو سی بی آئی کی عدالت نے عمر قید کی سز ا سنائی تھی ،لیکن پندرہ سال پوراہونے پر ہی گجرات سرکار نے معافی پالیسی کے تحت ان سب کوآزاد کردیاہے اور اس سے زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ ایسے گھناﺅنے مجرموں کا باہر آنے کے بعد پھول اور مالا پہنا کر استقبال کیا جارہاہے ، ریپ کے مجرموں کو مٹھائی کھلائی جارہی ہے ۔یہ عمل بتاتاہے کہ سماج کا ایک طبقہ ریپ اور قتل جیسے سنگین جرائم کے ارتکاب کو بھی اپنی بہادری اور کامیابی سمجھتاہے ۔ یہ تصویر معاشرہ اور ملک کو شرمسار کردینے والی ہے ۔
ڈاکٹر منظور عالم نے مزید کہاکہ گجرات سرکار کو معافی کے فیصلہ پر نظر ثانی کرنا چاہیے اورریپ کے مجرموں کو دوبارہ جیل میں بھیجنا چاہیے تاکہ عدلیہ کا وقار بحال رہے اور انصاف کے ساتھ ناانصافی ختم ہوسکے ورنہ ایک غلط نظیر قائم ہوجائے گی اور آئندہ لوگ اسی کو بنیاد بناکر سنگین مجرموں کو معافی دینے کا مطالبہ شروع کردیں گے ۔عدلیہ کے سامنے بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا ایسے مجرموں کو کیا کیا جائے ، ملک کی صدر بھی ایک خاتون ہیں ، ملک میں ہزاروں خواتین آرگنائزیشن موجود ہیں جو خواتین کے حقوق کیلئے کام کرتی ہیں ، خواتین کے مفاد کیلئے متعدد شعبہ قائم ہیں ، آخر کیوں یہ سبھی خاموش ہیں ، ایک خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کے مجرموں کو جیل سے آزادی دی جارہی ہے؟ کیا خواتین تنظیموں اور ذمہ داروں کو سامنے نہیں آنا چاہیے ،اس مسئلہ پر آواز نہیں اٹھانا چاہیے ، خاتون کا درد بھی مذہب بدل سے مختلف ہوجاتاہے پھر خاتون کا درد ایک جیسا ہی ہوتاہے خواہ اس کاتعلق کسی بھی مذہب سے ہو ۔






