پروفیسر اخترالواسع
ایک دفعہ پھر مدارسِ اسلامیہ سرکاروں کی عناد کی پالیسی کا شکار ہیں۔ خصوصاً آسام میں وہاں کے وزیر اعلیٰ شری ہیمنت وشوا شرما کو مدارسِ اسلامیہ سے خدا واسطے کا بیر ہے یا پھر انہیں واقعی ہر مدرسہ دہشت گردی کا مرکزنظر آتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض مدرسوں میں اساتذہ وہ لوگ ہیں جو انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دیتے ہیں۔ اگر اس کو تھوڑ ی دیر کے لیے تسلیم بھی کر لیا جائے کہ واقعی کچھ لوگ ایسے ہیں تو بھی یہ کہاں کی منطق ہوگی کہ کسی فرد واحد کے جرائم کی سزا سارے ادارے کو منہدم کرکے دی جائے۔ پھر افراد پر بھی یہ ابھی الزام ہے، کسی عدالت سے ان کی فردِ جرم ثابت نہیں ہوئی ہے کہ آپ انہیں مجرم قرار دے سکیں۔ اس لئے بھی ادارے یا فرد کے ساتھ اس طرح کے نازیبا سلوک کا کیا جواز ہو سکتا ہے؟ ہم شروع سے یہ کہتے آئے ہیں کہ آسام جیسی حساس ریاست میں جہاں بنگالی اور غیر بنگالی کو لے کر نفرت کا پرانا کھیل ایک زمانے سے جاری ہے وہاں پر اگر مدرسوں سے جڑے کسی فرد کے بارے میں ایسی کوئی شکایت ملتی ہے تو اس کی تحقیقات پہلے ایک کمیونٹی کی سطح پر کرائی جائے۔ اس میں ہماری رائے میں مولانا بدرالدین اجمل کو ضرور شامل کیا جائے کیوں کہ وہ مدرسے کے فارغ ہیں، کھلے دماغ کے ہیں، معروضی انداز سے سوچتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ محبِ وطن بھی ہیں اور ہندوستانی پارلیمنٹ کے برسوں سے معزز رکن بھی۔ ایک اور افسوس ناک پہلو آسام میں حکومت کے مدرسوں کے ساتھ رویے کا یہ بھی ہے کہ جب مدرسوں کے خلاف انہدامی کارروائیوں پر کوئی جواب دیے نہیں بن پڑتا ہے تو سرکار فوراً کہتی ہے کہ یہ غیر قانونی طور پر تعمیر کئے گئے تھے۔ اس سلسلے میں تو پہلا سوال یہ ہے کہ یہ غیر قانونی تعمیرات کیسے ہونے دی گئیں، وہ کون سے مقامی افسران تھے جنہوں نے انہیں تعمیر ہونے دیا اور کوئی ضروری کارروائی نہیں کی؟ اس لئے صرف مدارس کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیے بلکہ نوکر شاہی کے ان ذمہ داروں کے خلاف بھی سخت کارروائی ہونی چاہیے جنہوں نے ان کی تعمیر ہونے دی۔
آسام میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جس طرح وہاں کے وزیر اعلیٰ بڑھ چڑھ کر مدرسوں کے خلاف کارروائیوں کو اعلان کر رہے ہیں، اس میں ہر شخص کو یہ معلوم رہنا چاہیے کہ وزیر اعلیٰ بی جے پی کی سیاسی بساط پر بہت دن ہوئے جب نہیں آئے ہیں کیوں کہ اس سے پہلے وہ ہمیشہ کانگریس میں رہے اور اب شاید یہ دکھانے کے لئے کہ اصل بی جے پی والوں سے بڑھ کر وہ بی جے پی والے ہیں۔ اس لئے اس طرح کے اقدامات کر رہے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ:
ہاں بڑی چیز وفاداری ہے
یہ بھی بڑھ جائے تو غدّاری ہے
ابھی آسام میں مدرسوں کے خلاف عناد کا معاملہ ٹھنڈا نہیں پڑا تھا کہ اتر پردیش کی حکومت نے تمام ضلع مجسٹریٹوں کو حکم دیا کہ وہ 10ستمبر تک تمام غیر سرکاری مدارس کا سروے کریں اور اپنی رپورٹ سرکار کو پیش کریں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سرکار مدرسوں کی بابت کس طرح کا سروے کرانا چاہتی ہے؟ کیا وہ بہبودی اطفال کے حوالے سے یہ جاننا چاہتی ہے کہ ان مدرسوں میں مناسب سہولیات وہاں پڑھنے والے بچوں کو حاصل ہیں یا نہیں، مثلاً صحیح پیمائش کے کلاس روم، کھیل کے میدان اور بیت الخلاء وغیرہ ہیں یا نہیں، ان مدرسوں میں پڑھایا جانے والانصاب کیسا ہے؟ اس سے پہلے کہ ہم سرکار کی نجی مدارس پر ہونے اس نظرِ عنایت پر بات کریں، حکومتِ اتر پردیش کو یہ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ جو 600سے زائد مدارس سرکار کے زیرِ اہتمام چلتے ہیں ان کے اساتذہ کو کب سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں؟ خاص طور سے وہ اساتذہ جو مدرسوں میں جدید کاری کے نام پر بھیجے گئے کہ انگریزی، سائنس اور ریاضی کی تعلیم دیں، وہ کب سے اپنے منظور شدہ مشاہرہ کے ملنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ سرکار نجی زمرے میں چلنے والے مدارس میں اگر طلبہ کو ملنے والی سہولتوں میں کچھ کمی پائے گی تو کیا اس کی بھرپائی کے لئے سرکار تیار ہے؟ جہاں تک نجی زمرے کے مدارس کا تعلق ہے اس میں دارالعلوم دیوبند، جامعہ اشرفیہ مبارکپور، دارالعلوم ندوة العلماء لکھنؤ ، مظاہر علوم سہارنپور، مدرسة الاصلاح سرائے میر، جامعۃ الفلاح بلریا گنج، جامعہ سلفیہ بنارس، مدرسۃ الواعظین لکھنؤ اور منصبیہ میرٹھ وغیرہ کو غیر معمولی شہرت اور اہمیت حاصل ہے۔ ان مدارس کا اختصاص یہ ہے کہ انہوں نے عام طور پر ان غریب ماں باپ کے بچوں کو خواندہ بنایا ہے جن کے پاس رہنے کے لیے گھر نہیں، کھانے کے لئے غذائی سامان نہیں، پہننے کے لئے کپڑے نہیں لیکن بوریا نشین علماءنے اپنے گھروں میں چاہے کتنی کم روشنی رکھی ہو لیکن عام طور پر خطِ افلاس سے زندگی گزارنے والے بچوں کی زندگیوں کو علم کے نور سے منور کیا ہے۔ سرکاروں نے 26جنوری 1950کو دستور کے نفاذ کے ساتھ ہر ہندوستانی سے یہ وعدہ کیا تھا کہ 6 سے 14سال تک کے بچوں کو سرکار مفت تعلیم دے گی لیکن ایسا کرنے میں اسے تقریباً 59سال لگ گئے مگر ہمارے ان اکابرین نے جن کی امیدیں قلیل اور مقاصد جلیل تھے، مکاتیب اور مدارس قائم کرکے برسوں سے اس وعدے کا اپنے انداز سے ایفاءکیا۔
30 مئی 1866 کو دیوبند میں چھتے والی مسجد میں انار کے درخت کے نیچے جب ایک استاد ملاّ محمود اور ایک طالب علم محمود حسن سے اس سعی محمود کا آغاز ہوا جسے آج دنیا ازہرِ ہند دارالعلوم دیوبند کے نام سے جانتی ہے تو اس ادارے کے اولین معماروں میں سے ایک حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے اس ادارے کے چلانے کے جو رہنما اصول ”اصولِ ہشت گانہ“ کے طور پر وضع کیے اس میں ایک یہ بھی تھا کہ کسی سرکار، راجا، نواب یا جاگیردار سے ادارے کے لئے کوئی خطیر رقم عطیے کے طور پر قبول نہیں کی جائے گی بلکہ عام مسلمانوں سے ایک مٹھی چاول، ایک مٹھی گیہوں، ایک مٹھی دال کے سہارے اس ادارے کو چلایا جائے گا اور بڑھایا جائے گا اور خدائے بزرگ و برتر نے نہ صرف دیوبند بلکہ تمام دینی مدارس و مکاتب کو اپنے فضل و کرم سے ان کے قائم کرنے والوں اور چلانے والوں کی للہیت اور اخلاص کے بَل پر اس طرح نوازا کہ آج ان میں سے ہر مدرسہ دین کا قلعہ ہے اور اس نے اس ملک کو مسلمانوں کے لئے اسپین بننے سے روک دیا۔ ان مدرسوں کا یہ اعزاز ہے کہ انہوں نے ہمیں امام اور مؤذن ہی نہیں دیے بلکہ مفسر، محدث، فقیہ، متکلم سب کچھ عطا کئے۔ ہمارے یہ مدارس ہی تھے جن کے اکابرین اور فیض یافتگان نے انگریزی استعمار سے ٹکّر لی۔ جس نے مسلم لیگ اور محمد علی جناح کی فرقہ پرستانہ اور مذہبی نوعیت کی جداگانہ سیاست کو مسترد کیا۔ آزادی کے بعد اردو پر جب شمالی ہندوستان میں زمین تنگ کر دی گئی تھی اور اسے دیس نکالا دینے کی کوششیں ہو رہی تھیں، اس وقت یہ مدرسے ہی تھے جنہوں نے ہمیں اردو میں خواندہ افراد، قاری اور اردو صحافت کو کاتب فراہم کئے۔ یہاں ایک اور دلچسپ حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ اس ملک کا پہلا وزیر تعلیم آکسفورڈ اور کیمبرج تو دور کی بات ہے، کلکتے اور الہ آباد کی یونیورسٹیوں کا بھی فارغ نہیں تھا بلکہ مدرسے ہی کے نصاب کی پیداوار تھا اور اس کا نام مولانا ابوالکلام آزاد تھا، جس نے ہمیں آئی آئی ٹی کھڑگپور، آئی سی سی آر، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن، ساہتیہ اکیڈمی، سنگیت ناٹک اکیڈمی اور سی ایس آئی آر جیسے ادارے دیے۔
ان سب باتوں کو چھوڑ بھی دیا جائے کیوں کہ ان میں سے اکثر کو بظاہر شری ہیمنت وشوا شرما جیسے لوگ چاہتے ہوئے بھی ماننے کو تیار نہیں ہوں گے تو انہیں اتنا تو ضرور یاد دلا دیں کہ اس ملک کے دستور میں درج ناقابل تنسیخ بنیادی حقوق کی دفعات 29اور 30 مسلمانوں کو یہ حق عطا کرتی ہیں کہ وہ اپنی پسند کے ادارے قائم کریں اور چلائیں اور اس کے راستے میں جو رکاوٹ بنتا ہے وہ مسلمانوں کی نہیں، ان کے ذریعے قائم کردہ مدارس کی نہیں بلکہ ہندوستان کے دستور کی توہین کا مرتکب ہوتاہے۔ کیا ایسا کیا جانا مناسب ہے؟ اس پر ہم سب کو ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں)