پروفیسر اختر الواسع
ہم ایک عرصے سے سرکار اور مسلمانوں دونوں پر یہ زور دیتے آئے ہیں کہ ان کے بیچ میں ایک مو¿ثر اور مثبت مکالمے کا آغاز ہونا چاہیے۔ اسی طرح ہم برابر اس بات پر بھی زور دیتے آئے ہیں کہ مسلمانوں اور برادرانِ وطن کے درمیان بھی ایک خوشگوار ماحول میں گفتگو ہو تاکہ غلط فہمیاں دور ہوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دوریاں کم ہو سکیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ اس سلسلے میں سب سے پہلے جمعیة علماءہند کے صدر حضرت مولانا ارشد مدنی سامنے آئے اور انہوں نے آر ایس ایس کے سربراہ سے دہلی میں بات چیت کی۔ اس کے بعد غازی آباد میں ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد کی کتاب کی رسمِ رونمائی شری موہن بھاگوت نے انجام دی اور اس میں بعض اہم باتوں کا اظہار کرتے ہوئے آپسی بات چیت کی ضرورت پر زور دیا۔ اب خبر آئی ہے کہ اس مہینے کے اوائل میں پانچ اہم مسلم دانشوروں سابق الیکشن کمشنر ایس۔ وائی۔ قریشی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر لیفٹنٹ جنرل ضمیرالدین شاہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر اور دہلی کے سابق لیفٹنٹ گورنر نجیب جنگ، سینئر صحافی اور سابق ممبر پارلیمنٹ شاہد صدیقی اور سماجی اور ملّی بنیاد گزار سعید شیروانی نے شری موہن بھاگوت سے ملاقات کی۔ خبروں کے مطابق اس میں ان حضرات نے شری موہن بھاگوت پر صحیح طور پر یہ واضح کیا کہ مسلمانوں کے خلاف جس طرح کی صورت حال پیدا کی جا رہی ہے اس سے ملک کی ترقی کے راستے مسدود ہو جائیں گے اس لئے بہتر ہے کہ نہ صرف مکالمے کو فروغ دیا جائے بلکہ اگر کسی طرح کی کہیں غلط فہمی موجود ہے تو اس کا بھی ازالہ کیا جائے۔
اگرچہ یہ ملاقات گستاخِ رسول نپور شرما کے بیانات کے بعد ملک میں پیدا شدہ پراگندہ صورت حال کے پس منظر میں ہوئی تھی لیکن اس ملاقات کے بارے میں جو کچھ ممتاز صحافی اور وفد میں شریک سابق ممبر پارلیمنٹ شاہد صدیقی نے کہا وہ بالکل صحیح ہے کہ ”آر ایس ایس کا نہ صرف حکومت میں بڑا عمل دخل ہے بلکہ اس کی ہم نظریہ دیگر تنظیمیں بھی اس کے زیر اثر کام کرتی ہیں۔“ کہا جاتا ہے کہ اس وفد سے آر ایس ایس سربراہ نے کہا کہ وہ مسلمانوں کو اس ملک کا حصہ سمجھتے ہیں اور انہیں مسلمانوں کے مذہبی ارکان سے کوئی مسئلہ نہیں، تاہم انہوں نے کافر کہے جانے اور جہاد کے تعلق سے اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ وفد کے ارکان نے بھی شری موہن بھاگوت سے کہا کہ ” مسلمانوں کو جس طرح پاکستانی کہہ کر ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھایا جاتا ہے اور انہیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے وہ ناقابل قبول ہے۔“
مسلم دانشوروں نے شری موہن بھاگوت سے اپنی ملاقات میں یہ بھی واضح کر دیا کہ وہ ان سے اپنی کمیونٹی کے نمائندوں کے طور پر نہیں بلکہ ذمہ دار اور فکرمندی شہری کے طور پر ملاقات کر رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اگر کسی طرح کی کوئی غلط فہمی ہے تو اس کا مل جل کر ازالہ کیا جائے۔ وفد کی اس موقف سے اتفاق کرتے ہوئے آر ایس ایس کے سربراہ نے مزید گفت و شنید اور مکالمے کو فروغ دینے پر اپنی طرف سے چار افراد کو بھی نامزد کیا ہے اور ابھی گفتگو کا کوئی دوسرا دور شروع نہیں ہوا ہے لیکن یہ ایک اچھی پہل ہے جس کا سب کو خیرمقدم کرنا چاہیے۔
ملک میں جس طرح کے حالات ہیں اور کچھ لوگ جس طرح سے اقتدار میں سَنگھ حامی سیاسی لوگوں کی شرکت کا غلط فائدہ اٹھا کر مسلمانوں، عیسائیوں اور دلتوں کو اپنی فسطائیت کا نشانہ بنارہے ہیں، ہر طرح کی ہرزہ سرائی کر رہے ہیں، اس میں اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں کہ ہم برادرانِ وطن کے ساتھ بات چیت کا ماحول استوار کریں جو کہ اس صورت حال پر قابو پا سکتے ہیں۔ ویسے بھی ہم سیاسی اور نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن اختلاف اور دشمنی میں فرق کو واضح رہنا چاہیے۔ یہ اختلاف کسی کو اس بات کا پرمِٹ بالک نہیں کہ وہ اقلیتوں اور کمزور طبقات کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنائے۔ داڑھی، ٹوپی، نماز، مدرسے، مسجدیں اور درگاہیں کسی بھی طور پر سب و شتم کا نشانہ بنیں۔ اس لئے اس کے کوئی نہ کوئی حکمت عملی تو وضع کرنی ہوگی اور حکمت و دانائی سے ہی کام لینا ہوگا۔ ہم بار بار اس بات کا اعادہ کرتے رہے ہیں کہ یہ زمانہ نہ مجادلے کا ہے ، نہ مناظرے کا۔اگر ہے تو صرف اور صرف مکالمے کا۔
مسلمانوں کو یہ مکالمہ دوہری سطح پر کرنا ہوگا۔ پہلے یہ مکالمہ خود امّت کے بیچ بین المسالک ہوگا جس میں ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم جو ایک اللہ، ایک رسول، ایک کتاب اور ایک حرم کے ماننے والے ہیں، اپنے فقہی عمل کو اپنے تک محدود رکھیں گے اور ہر امّت کے ہر شخص کو یہ آزادی ہوگی کہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق فروعی معاملات میں جس طرح چاہے عمل کرے اور سب کو اس بات کا احترام کرنا ہوگا کہ جس طرح انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے عقیدے اور پسند کے مطابق دین پر عمل کریں اسی طرح طرح دوسروں کو بھی یہ حق انہیں کی طرح حاصل ہے۔ آج ہندوستان ہی نہیں دنیا بھر میں مسلمانوں کی گھیرا بندی جس طرح کسی فرق اور امتیاز کے بغیر ہو رہی ہے اس میں ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم ایک ساتھ رہ کر ہی تیریں گے اور اگر ایسا نہیں ہوا تو ڈوب جانا ہمارا مقدر ہے۔
دوسرا مرحلہ مکالمے کا یہ ہے کہ گاو¿ں گاو¿ں، قصبے قصبے اور شہر شہر میں برادرانِ وطن سے ہمارا تعلق خدمت اور محبت کی بنیاد پر ہونا چاہئیں۔ مذہبی تکثیریت کے بارے میں ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ وہ ہندوستان سمیت اس دنیا میں ہماری وجہ سے نہیں ہیں بلکہ خدائے بزرگ و برتر کی مرضی اور منشا کا نتیجہ ہے، ورنہ وہ قادرِ مطلق جس پر ہمارایہ پختہ ایمان ہے کہ ”ان اللہ علی کل شی ئٍ قدیر“ سب کو ایک مذہبی سانچے میں ڈھال سکتا تھا مگر اس نے سب کو یہ آزادی دی کہ وہ اپنے ذہن و ضمیر کی آزادی کے ساتھ جس مذہب کا چاہے انتخاب کرے۔ تو پھر ہمیں بھی اس پر راضی ہونا چاہیے جس پر ہمارا رب راضی ہے۔ اسی پختہ سوچ کے ساتھ اگر ہم اپنے غیرمسلم بھائیوں سے مکالمہ کریں تو بہت سی پریشانیاںدور ہو سکتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ ہمیں ہندو مذہب اور ہندوستانی تہذیب دونوںمیںجو واضح فرق ہے اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہم یقینی طور پر کسی کی پوجا ارچنا کا حصہ نہیں بن سکتے لیکن دوسروں کے دکھ اور خوشی میں شامل ہونے میں ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔
جو پہل شری موہن بھاگوت سے ملاقات کی شکل میں ابھی سامنے آئی ہے، ہم اس کی پوری طرح سے تائید کرتے ہیں اور ہمیںخوشی ہے کہ مولانا سید محمود اسعد مدنی کی قیادت میں مذہبی خیرسگالی کے لئے سرو دھرم سنسدوں کا جگہ جگہ پروگرام منعقد کیا، ان کا اب اور ہمہ گیر طریقے سے ہماری تمام مذہبی جماعتوں کو مشترکہ طور پر اہتمام کرنا چاہیے۔ کیا وجہ ہے کہ حضرت مولانا سید رابع حسنی ندوی، حضرت مولانا ارشد مدنی، حضرت مولانا محمود مدنی، حضرت مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، حضرت سعادت اللہ حسینی، حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، حضرت مولانا توقیر رضا خاں، حضرت مولانا کلب جواد، پروفیسر سید علی محمد نقوی اور ان جیسے تمام مسالک کے علماءو اکابر مل کر اس سلسلے کو قائم نہیں کر سکتے اور جاری نہیں رکھ سکتے؟ جو پانچ دانشور شری موہن بھاگوت سے ملے انہیں بھی اس سلسلے میں ایک کوشش یہ کرنی چاہیے کہ اس مکالمے کا دائرہ بڑا ہو تاکہ ہندو اور مسلمانوں کی طرف سے بہتر نمائندگی بھی ہو، مو¿ثر اور معنی خیز گفتگو بھی۔
ابھی یہ کالم لکھا ہی جا رہا تھا کہ خبر آئی کہ آر ایس ایس کے سربراہ آل انڈیا امام آرگنائزیشن کے صدر مولانا عمیر الیاسی سے ملنے کے لئے جمعرات کو پہنچے اور انہوں نے مولانا جمیل الیاسی کے مزار پر حاضری بھی دی۔ یہ یقینی طور پر ایک مثبت قدم ہے جس کی ستائش ہونی چاہیے لیکن اور اچھا ہو اگر شری موہن بھاگوت آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کے صدر سید رابع حسنی ندوی جو دارالعلوم ندوة العلماءکے ناظم بھی ہیں اور دیگر مسلم علماءاور عمائدین جن کا اوپر تذکرہ بھی کیا گیا ہے ان سے ملاقات کریں تو ہو اور زیادہ بہتر نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔ راقم الحروف کی رائے میں اس سلسلے میں ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد ایک اہم رول انجام دے سکتے ہیں اور وہ آر ایس ایس کے سربراہ اور مسلمان قائدین کے بیچ میں رابطے کی ایک اہم کڑی ثابت ہو سکتے ہیں۔ہمیں امید کرنی چاہیے کہ جو برف پگھلنی شروع ہوئی ہے اور سردمہری کے رویے میں جو کمی دیکھنے کو مل رہی ہے اس کے اچھے نتائج برآمد ہونے چاہیے اور ایک دفعہ پھر ہمارے وطن عزیز میں ماضی کی غلطیوں کو نظراندا ز کرکے ایک نئے ہندوستان کی، جس میں مذہبی خیرسگالی ہو، باہمی میل جول ہو اور جہاں کثرت میں وحدت پر یقین رکھتے ہوئے سیکولر جمہوری اقدار کے فروغ میں دیانت داری سے سب حصہ لیں۔ کیا ایسا ہو پائے گا؟ اسی کا انتظار ہے کہ:
دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں)