قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان میں نوجوان شاعر جمیل اختر شفیق کے شعری مجموعے’ رقصِ سفر‘ کا اجرا

جمیل اختر شفیق کی شاعری انسانی زندگی کے حقائق کی ترجمان ہے: پروفیسر شیخ عقیل احمد

نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے صدر دفتر میں نوجوان شاعر جمیل اختر شفیق کے شعری مجموعہ’رقص سفر‘ کے اجرا کی تقریب منعقد ہوئی،جس کی صدارت کونسل کے ڈائریکٹر پروفیسر شیخ عقیل احمد نے کی۔ انھوں نے اپنے صدارتی خطاب میں جمیل اختر شفیق کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ جمیل اختر نوعمری میں ہی بہترین شاعری کر رہے ہیں۔ ان کی شاعری حقیقت سے بہت قریب ہے اور وہ گرد و پیش کے واقعات و احوال کو بہت خوبصورتی سے شعری پیکر میں ڈھالتے ہیں۔ ان کے یہاں نغمگی کی بھی کمی نہیں ہے،فنی اعتبار سے بھی ان کے اشعار میں پختگی ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا شعری و ادبی مستقبل تابناک ہوگا۔

پروفیسر ابن کنول نے خصوصاً جمیل اختر کی شاعری کی سادگی اور بے تکلفانہ اندازِ اظہار کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان کی شاعری سہلِ ممتنع کی شاعری ہے،جو آسان نہیں ہوتی، اس کے لیے غیر معمولی فنی قدرت اور مسلسل ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جمیل اختر جس بے تکلفی سے اپنے جذبات کا اشعار کے ذریعے اظہار کرتے ہیں،اس سے ان کی فنکارانہ ہنرمندی کا پتا چلتا ہے۔

پروفیسر صفدر امام قادری نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جمیل اختر شفیق نئی نسل کے ایسے خوش نصیب شاعر ہیں جن کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جاتا ہے اور انھوں نے جہاں روایتی مشاعروں میں مقبولیت حاصل کی ہے،وہیں ان کے شعری مجموعوں نے ادب و شعر کے سنجیدہ قارئین کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے شاعری کے لیے مشکل ترکیبات اور عربی و فارسی الفاظ کے بجائے بہت سادہ اور بے تکلف ترکیبات و تعبیرات کا استعمال کیا ہے اور سادہ لفظوں میں بھی بڑی باوزن اور بامعنی شاعری کر رہے ہیں۔ احتجاج کی لے اور نغمگی بھی ان کی شاعری کے اہم عناصر ہیں، جو انھیں سامعین و قارئین سے بہت آسانی کے ساتھ مربوط کردیتے ہیں۔

حقانی القاسمی نے منفرد انداز میں اس تقریب کی نظامت کرتے ہوئے کہا کہ جمیل اختر نئی عمر کے پختہ ذہن شاعر ہیں،ان کے بہت سے اشعار ہمیں چونکاتے ہیں اور فکر و خیال کے نئے دریچے روشن کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ عموماً نئی نسل کے تخلیق کاروں اور فن کاروں کے تئیں منفی رویے کا اظہار کیا جاتا ہے،جو درست نہیں ہے، جمیل اختر شفیق جیسے فنکاروں کو دیکھ اور سن کر محسوس ہوتا ہے کہ نئی نسل بہت غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل ہے اور اگر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تو یہی مستقبل میں ادب و تخلیق کے بڑے کارنامے انجام دیں گے۔

ان کے علاوہ جمیل اختر شفیق کی شاعری کے مختلف پہلووں پر دہلی یونیورسٹی شعبۂ عربی کے گیسٹ فیکلٹی ڈاکٹر جسیم الدین،ڈاکٹر آفتاب منیری اور دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ سکالر اشرف یاسین نے بھی اظہار خیال کیا اور ان کے شعری اوصاف و امتیازات پر روشنی ڈالی۔ آخر میں جمیل اختر شفیق نے اس خوب صورت تقریب کے انعقاد کے لیے قومی اردو کونسل خصوصاً ڈائریکٹر پروفیسر شیخ عقیل احمد اور دیگر معاونین کا شکریہ ادا کیا اور حاضرین کی فرمائش پر اپنی غزلوں کے منتخب اشعار بھی سنائے۔ اس تقریب میں کونسل کے عملے کے علاوہ دیگر اہل علم و دانش نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com