شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اس وقت جن مسائل نے ملت کے رہنماؤں کو تشویش میں ڈال رکھا ہے، ان میں سر فہرست بعض مسلمان لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ نکاح کا مسئلہ ہے، یہ رشتہ اگرچہ شرعی اعتبار سے معتبر نہیں ہے؛ لیکن قانون کی نظر میں اس کا ا عتبار ہے، یوں تو اس طرح کے واقعات ہمیشہ سے پیش آتے رہے ہیں: مسلمان مردوں کا غیر مسلم عورتوں سے اور مسلمان عورتوں کا غیر مسلم مردوں سے نکاح، فلمی دنیا اور سیاست کی دنیا میں اس طرح کے واقعات زیادہ پیش آیا کرتے رہے ہیں؛ لیکن اب اس میں دو ایسی باتیں شامل ہو گئی ہیں، جن کی وجہ سے بجا طور پر زیادہ تشویش پائی جاتی ہے، ایک یہ کہ پہلے اس طرح کے واقعات اتفاقی طور پر پیش آیا کرتے تھے اور زیادہ تر شخصی پیار ومحبت کا نتیجہ ہوتے تھے؛ لیکن اب فرقہ پرست عناصر کی طرف سے منصوبہ بندی کے ساتھ اس کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کا اعلان واظہار بھی کیا جاتا ہے ؛ تاکہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ رسوا کیا جائے، دوسرا سبب یہ ہے کہ بہت سے مسلمان رہنما بھی اس کے عواقب پر غور کئے بغیر بہت بڑھا چڑھا کر مبالغہ کے ساتھ ایسے واقعات کے اعدا دوشمار اپنی تقریروں اور تحریروں میں نقل کر رہے ہیں؛ حالاں کہ اِس بڑی تعداد میں ایسے واقعات کا کوئی معتبر ثبوت موجود نہیں ہے، میرج رجسٹریشن آفس میں ضرور اس کا ریکارڈ ہوتا ہے؛ لیکن وہ اتنا نہیں ہے جو کہا جاتا ہے، اور اس میں دونوں طرح کے واقعات ہیں، جیسے مسلمان لڑکیوں کے غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ رشتۂ ازدواج کے رجسٹریشن ہو رہے ہیں، اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر غیر مسلم لڑکیوں کے بھی مسلمان لڑکوں کے ساتھ نکاح کے واقعات درج ہوتے ہیں۔
یہ سمجھنا بھی درست نہیں ہوگا کہ نعوذ باللہ مسلمان لڑکیوں کی بڑی تعداد مرتد ہو رہی ہے، اور مرتد ہونے کے بعد وہ اپنا جوڑا غیر مسلم سماج میں تلاش کر رہی ہے، جیسا کہ نو مسلم لڑکیاں مسلمان ہونے کے بعد مسلمان لڑکوں سے شادی کی خواہاں ہوتی ہیں؛ بلکہ زیادہ تر وہ صرف اپنی شادی کسی خاص سبب کے تحت غیر مسلم آشنا سے کرنا چاہتی ہیں، یا اس پر آمادہ ہو جاتی ہیں، عام طور پر وہ اپنا مذہب بدلنا نہیں چاہتیں، تعلیمی اداروں میں مغرب کا کلچر تیزی سے آرہا ہے کہ وقتی پیار ومحبت کو نکاح کی شکل دے دی جائے اور دونوں اپنے اپنے مذہب پر قائم رہیں؛ اس لئے ایسے سارے واقعات ارتداد پر مبنی نہیں ہیں؛ بلکہ زیادہ تر بوالہوسی پر مبنی ہیں، دوسرے یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے واقعات کا چرچا کرنے سے ملت میں شکست خوردگی کا احساس بڑھ جاتا ہے اور قوم اجتماعی سطح پر مرعوبیت کا شکار ہو جاتی ہے، یہ احساس کمتری اس میں بزدلی اور سپر اندازی کا مزاج پیدا کر دیتی ہے؛ اس لئے ایسی غیر مصدقہ باتوں کو زیادہ مشتہر کرنا بحیثیت مجموعی امت کے لئے نقصاندہ ہے، اور جب بد قماش لوگ سنتے ہیں کہ اتناے سارے لوگوں نے یہ راہ اپنا لی ہے تو پھر اس کی برائی کا احساس بھی ان کے دل میں کم ہو جاتا ہے؛ اس لئے اصلاحی کوششیں تو ضرور کرنی چاہئے؛ لیکن اس کو ایسا موضوع نہیں بنا دینا چاہئے کہ جو نوجوان اس قسم کی بات سوچ رہے ہوں، گناہ کے ارتکاب میں اُن کی ہمت بڑھ جائے کہ جب قوم کے اتنے سارے لوگ اس میں مبتلا ہیں تو اگر میں بھی اس حمام میں اتر جاؤں تو کیا برا ہے؟
اسلام کا تصور یہ ہے کہ رشتۂ نکاح میں دونوں فریق کے درمیان زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی ہونی چاہئے ، یہ ہم آہنگی رشتوں کو پائیدار بناتی ہے ، جو لوگ وقتی طورپر کسی پر دل پھینک دیتے ہیں اور اس بنیاد پر ازدواجی رشتہ سے بندھتے ہیں ، عموماً ان کے درمیان تعلق میں استحکام باقی نہیں رہتا ، ہم آہنگی کے لئے ایک ضروری شرط فکر و عقیدہ کی موافقت بھی ہے ، سوچئے کہ اگر ایک شخص اللہ کو ایک مانتا ہو اور اللہ کے سوا کسی کے سامنے اپنی پیشانی رکھنے کو سب سے بڑا جرم تصور کرتا ہو ، اس کی اس شخص کے ساتھ ۲۴؍گھنٹے کی زندگی میں کیسے موافقت ہوسکتی ہے ، جو سینکڑوں مخلوقات کا پجاری ہو ، جب دونوں کے مذہبی تہوار آئیں گے تو اگر وہ اپنے نظریہ میں سنجیدہ اورسچا ہوتو کیا ان کے درمیان نزاع پیدا نہیں ہوگی ؟ جب اولاد کی تعلیم و تربیت اور ان کی مذہبی وابستگی کا مسئلہ آئے گا تو کیا آپس میں کھینچ تان کی نوبت نہیں آئے گی ؟ یقیناً آئے گی ؛ اسی لئے اسلام میں جو چیزیں نکاح میں رکاوٹ مانی گئی ہیں ، جن کو فقہ کی اصطلاح میں’’ موانع نکاح‘‘ کہا جاتا ہے ، ان میں ایک اختلاف دین بھی ہے ۔
اگر گہرائی کے ساتھ غور کیا جائے تو غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی کے واقعات کے بظاہر چار بنیادی اسباب ہیں ، اول : شادی کی فضول خرچیاں ، دوسرے : مسلمان لڑکوں کی تعلیمی پسماندگی ، تیسرے : مخلوط تعلیم، چوتھے : مخلوط ماحول کی ملازمت — شادی میں فضول خرچی اس درجہ بڑھ گئی ہے کہ اب عام لوگوں کی شادیاں پرانے نوابوں اور راجاؤں کی شادیوں میں ہونے والے تزک و احتشام کو بھی مات کررہی ہیں ، دولت مند طبقوں نے اس کو اپنی مالی فراوانی کے مظاہرہ کا ذریعہ بنالیا ہے ، درمیانی طبقہ اس کی وجہ سے بعض اوقات در ودیوار تک بیچنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور کمزور طبقہ اگر دین سے بے بہرہ ہو تو چاہتا ہے کہ کسی طرح اپنے جگر گوشہ کے بوجھ سے نجات پاجائے ، خواہ وہ کسی مسلمان کے گھر میں جائے یا غیر مسلم کے ، جب تک معاشرہ کے دولت مند لوگ سادگی کو اختیار نہ کریں گے ، اس صورت حال میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں ، اس کے لئے ضروری ہے کہ جیسے قدرتی آفات کے مواقع پر مدد اور بچاؤ کی مہم شروع کی جاتی ہے ، اسی طرح نکاح میں سادگی پیدا کرنے کے لئے علماء و مشائخ ، سماجی وسیاسی رہنما ، صحافی اور اہل علم و دانش ، مذہبی تنظیموں اور جماعتوں کے کارکنان ایک مہم چلائیں اور گھر گھر دستک دے کر انھیں سادہ طریقہ پر تقریب نکاح انجام دینے کی دعوت دیں ۔
تعلیمی صورت حال یہ ہے کہ لڑکیاں تعلیم میں آگے بڑھتی جاتی ہیں اور لگتا ہے کہ لڑکوں نے پیچھے کی طرف اپنا سفر شروع کررکھا ہے ، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تعلیم یافتہ لڑکیوں کو ان کے جوڑ کے لڑکے میسر نہیں ہوتے ، موجودہ حالات میں لڑکیوں کو اس پر مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ تعلیم کو ترک کردیں ، بالخصوص ان حالات میں کہ زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کے لئے ۵۰ فیصد حصہ داری کی کوشش کی جارہی ہے ، ان حالات میں اگر مسلمان لڑکیاں تعلیم ترک کردیں تو ۵۰ سیٹیں بغیر کسی جد وجہد کے دوسروں کے ہاتھ میں چلی جائیںگی ، اور پھر حصول تعلیم میں جو مسابقت جاری ہے ، خاص کر لڑکیوں کو جو سہولت دی جارہی ہے، اس کے بعد اس سلسلہ میں آپ کی نصیحت نتیجہ خیز بھی نہیں ہوسکتی ؛ اس لئے لڑکوں میں یہ مزاج پیدا کرنا ہوگا کہ وہ تعلیمی جدوجہد میں اپنے قدم آگے بڑھائیں ، اگر ہر مسلمان گھر میں یہ فکر جاگ جائے تو اس کی نوبت نہیں آئے گی کہ تعلیم یافتہ نوجوان لڑکیوں کو ان کے جوڑ کا رشتہ نہیں مل پائے ، دوسری طرف تعلیم یافتہ لڑکیوں کی ذہنی اور فکری تربیت کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک مسلمان کے لئے اصل وجہ افتخار اس کا صاحب ایمان ہونا ہے ، نہ کہ اس کا زیادہ تعلیم یافتہ اور اونچے ذریعہ معاش کا حامل ہونا ؛ کیوںکہ تعلیم اور دولت کی کوئی نہایت نہیں ، ایمان اس سے بھی قیمتی جوہر ہے ، کسی مسلمان لڑکی کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی عار کی بات نہیں ہوسکتی کہ اس نے ایمان سے محروم شخص کو اپنا رفیق زندگی بنا رکھا ہو ۔
ان واقعات کا تیسرا سبب ’’مخلوط تعلیم‘‘ ہے ، لڑکوں اور لڑکیوں کا اختلاط نہ صرف اخلاقی اعتبار سے نقصاندہ ہے ؛ بلکہ تدریسی نفسیات کے اعتبار سے بھی مضر ہے ، مگر افسوس کہ مسلمانوں کے زیر انتظام جو درسگاہیں قائم ہیں ، ان میں بھی بڑے فخر کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ یہاں ’’کو ایجوکیشن‘‘ (مخلوط تعلیم) ہے ، مخلوط تعلیم کا یہ نظام نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ پورے ہندوستانی سماج کو غیر معمولی اخلاقی نقصان پہنچارہا ہے ؛ اس لئے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے کم سے کم جونیئر کالج کی سطح تک زیادہ سے زیادہ الگ الگ درسگاہیں قائم کریں اور پیشہ وارانہ تعلیم کے کالجوں میں اگر جداگانہ درسگاہوں کا قیام دشوار ہو تو کم سے کم کلاس روم میں ایسی عارضی دیواریں رکھی جائیں ، جو لڑکوں اور لڑکیوں کی نشست گاہوں کو الگ رکھتی ہوں ، نیز مسلم علاقوں میں گورنمنٹ سے گرلس اسکول اور گرلس کالج قائم کرانے کی کوششیں کی جائیں ، اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت ملک کے اکثر چھوٹے بڑے شہروں میں مسلمان تعلیمی ادارے قائم کررہے ہیں ، اگر تمام مسلمان طے کرلیں کہ وہ پرائمری اسکول کی سطح سے اوپر لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے الگ الگ درسگاہوں کا نظم کریںگے تو اندازہ ہے کہ ۵۰ فیصد مسلمان طلبۂ و طالبات انشاء اللہ مخلوط تعلیم کی برائیوں سے بچ جائیں گے ۔
ایسے ناخوشگوار واقعہ کا چوتھا سبب مسلمان لڑکیوں کا مخلوط ماحول میں بالخصوص کال سینٹروں میں ملازمت کرنا ہے ، جو لڑکے اور لڑکیاں کال سینٹروں میں ملازمت کرتے ہیں ، اکثر وہ رات کے وقت ایک ہی ٹیکسی میں سفر کر کے اپنے دفتر پہنچتے ہیں، ان کی رات ایک دوسرے کے ساتھ تنہائی میں گزرتی ہے ، آپس میں مستقل طور پر گفتگو کی اور ساتھ کھانے پینے کی نوبت آتی ہے ، اس طرح جو ان لڑکوں اور لڑکیوں کا ایک ساتھ مل کر کام کرنا آگ اور پٹرول کو ایک جگہ جمع کرنا ہے ؛ اس لئے ماں باپ اور گارجین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملہ میں پوری احتیاط سے کام لیں ، لڑکیوں کو ایسی ملازمت کی اجازت نہیں دیں اور اپنے بچوں کی تربیت کریں ۔
گو ایسے ناخوشگوار حالات کے لئے اور بھی اسباب ہیں ؛ لیکن وہ اِکا دُکا واقعات کا سبب بنتے ہیں ، یہ چار اسباب زیادہ اہم ہیں ، اور ضروری ہے کہ مسلمان اس پر توجہ دیں اوراُمت کے ارباب حل و عقد پوری سنجیدگی کے ساتھ اس ناگفتہ صورت حال پر غور کریں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آج کی غفلت کل کے سیلاب کا پیش خیمہ بن جائے اور پھر اس پر بند باندھنا ممکن نہ رہے !!