واشنگٹن(ملت ٹائمز؍ایجنسیاں)
امریکی مسلمانوں میں صدر ٹرمپ کی جانب سے بعض مسلمان ممالک کے شہریوں کی امریکا آمد پر عارضی پابندی کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ تاہم جہاں امریکا میں مقیم تمام قومیتوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد صدارتی حکم کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں، وہاں امریکی مسلمان ہوائی اڈوں پر اجتماعی عبادت کرتے بھی دکھائی دیے ہیں۔ اس عمل کو بعض حلقے مسلمان مہاجرین کے ساتھ یک جہتی کے طور پر دیکھ رہے ہیں تو بعض، بالخصوص صدر ٹرمپ کے حامی، اسلامی انتہا پسندی کا ایک مظہر بھی قرار دے رے ہیں۔
مسلمانوں کی جانب سے جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ پر نماز ادا کرنے کے دوران غیر مسلم امریکیوں نے نمازیوں کو اپنی پناہ میں لے کر بین المذاہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے ایک مثالی قدم بھی اٹھایا۔اس مظاہرے کا انعقاد ’مسلم پیس کولیشن‘ یا مسلم امن اتحاد نے کیا تھا۔صدر ٹرمپ کی جانب سے سفری پابندیوں کے فیصلے نے امریکی اسٹیبلشمنٹ کو بھی منقسم کر دیا ہے۔ جہاں ڈیموکریٹک پارٹی صدر کے فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج ہے وہاں ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کے بہت سے عہدے دار بھی اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہی۔ اب واشنگٹن سے ہفتے کے روز ملنے والی اطلاعات کے مطابق سیاٹل کی ایک فیڈرل کورٹ کے جج جیمز رابرٹ نے صدارتی حکم نامے کو عارضی طور پر غیر مؤثر قرار دیتے ہوئے اس پر پورے ملک میں عمل درآمد روک دیا گیا ہے، جس پر صدر ٹرمپ نے قریب ایک ہفتہ قبل ستائیس جنوری کو دستخط کیے تھے۔روئٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق یہ عدالتی فیصلہ ایک عبوری فیصلہ ہے، لیکن یہ صدر ٹرمپ کے امیگریشن سے متعلق صدارتی حکم نامے اور خود صدر کے اقدامات کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے