حجاب کا تنازعہ اور شخصی آزادی

علیزے نجف

گزشتہ دنوں کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پہ پابندی کے معاملے میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے دو مختلف فیصلے دئیے ہیں جسٹس ہمینت گپتا نے حجاب پہ لگنے والی پابندی کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے جب کہ جسٹس سدھانشو دھولیہ نے حجاب پہ پابندی کے کرناٹک ہائی کورٹ اور حکومت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پابندی کو ہٹانے کا حکم جاری کیا ہے۔ یہ دونوں ہی فیصلے ایک دوسرے سے متضاد ہیں کوئی واضح فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ چیف جسٹس کے پاس پہنچ گیا ہے اس وقت عوام کی نظریں چیف جسٹس کے آنے والے فیصلے کی منتظر ہیں صورتحال کیا رخ اختیار کرے گی اس پہ ابھی حتمی طور سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔

یہ مقدمہ چند مہینے پہلے کرناٹک کے ایک تعلیمی ادارے میں فرقہ پرست گروہ نے منظم طریقے سے حجاب کے خلاف آرائی کے بعد کرناٹک حکومت نے کلاس روم میں حجاب پہ پابندی عائد کر دینے کا شاخسانہ ہے لڑکیوں نے اس پہ سمجھوتہ نہیں کیا اور سپریم کورٹ میں اس فیصلے کو چیلنج کیا اور مطالبہ کیا کہ انھیں حجاب پہننے کی آزادی دی جائے۔ اسی مقدمے کے تحت کئے گئے جسٹس سدھانشو دھولیہ کے فیصلے کو مسلم حلقے میں پزیرائی حاصل ہوئی ان کے فیصلے کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے اس قضیے کا فیصلہ کرتے ہوئے سارے پہلوؤں کو مدنظر رکھا انھوں نے حجاب کے صرف آئینی و قانونی پہلو پہ بحث کے بجائے ان سارے پہلوؤں پہ بھی بحث کی جو کہ حجاب کو باوقار بناتا ہے جنسی حساسیت شخصی آزادی اور تہذیب و ثقافت کی بھی انھوں نے بات کی انھوں نے یہ فیصلہ دے کر اقلیتی طبقے کے اعتماد کو ایک بنیاد فراہم کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ جمہوری ہندوستان کے دستور کے تقدس کو بھی بحال رکھا ہے اگر چہ دو رکنی بنچ کا یہ فیصلہ کسی بھی نتیجے پہ نہیں پہنچا لیکن جسٹس دھولیہ کا کرناٹک حکومت کے فیصلے کے متضاد فیصلہ دینا بڑی بنچ کو سوچنے کے لئے ایک الگ راہ ہموار کر تا ہے۔

ایک طرف ہندوستان میں حجاب کے لئے لڑائی لڑی جا رہی ہے دوسری طرف ایران میں چل رہے احتجاج میں حجاب کے خلاف نعرے بلند ہو رہے ہیں ایرانی خواتین حجاب کی لازمیت سے نجات پانا چاہتی ہیں مہسا امینی کی موت نے اس احتجاج کی آگ کو ملک گیر سطح پہ بھڑکا دیا ہے وہاں کی عورتیں احتجاج کے طور پہ سرعام حجاب نکال رہی اور بال کاٹ رہی ہیں اور ایران کی حکومت کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ ہم ان کے اس خودساختہ ضابطہء اخلاق کو نہیں مانتے ۔

ان دونوں واقعات میں خواتین کا مطالبہ ایک دوسرے سے متضاد ہے لیکن ایک چیز ہے جو ان دونوں کے درمیان یکساں طور پہ دکھائی دیتی ہے وہ ہے آزادی کا مطالبہ۔

ہندوستان کے دستور میں ہر انسان کی شخصی آزادی کا لحاظ رکھا گیا ہے وہ اس معاملے میں پوری طرح آزاد ہوتا ہے جیسا کہ جسٹس دھولیا نے بھی کہا ہمارے آئین میں بہت سے پہلوؤں میں سے ایک اعتماد ہے ہمارا آئین بھی اعتماد کا ایک دستاویز ہے یہ وہ اعتماد ہے جو اقلیتوں نے اکثریتوں پہ کیا ہے بےشک یہ سچ ہے کہ اگر ملک کے دستور پہ سے اقلیتی طبقے کا اعتماد اٹھ جائے تو یہ اس ملک کی جمہوریت پہ سب سے بڑا داغ ہے کسی بھی تعلیمی ادارے میں ڈریس کوڈ کا نفاذ ان میں مساوات پیدا کرنے کے لئے کیا جاتا ہے نا کہ ان کی ذاتی اور مذہبی شناخت کو ختم کرنے کے لئے ڈریس کوڈ نافذ کیا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں نظم و ضبط کا ہونا ضروری ہے لیکن اس کے لئے کسی کی جمہوری شخصی آزادی کو سلب نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ان کے وقار پہ شکنجہ کسا جا سکتا ہے جسٹس دھولیا کا فیصلہ یہ ثابت کرتا ہے کہ مسلم فریق کا یہ مطالبہ ان کا بنیادی حق ہے انھوں نے یہ بھی کہا کہ سیکولرزم، آئینی آزادیوں، اور لڑکیوں کی تعلیم کو فعال بنانے پہ زور دیا جائے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایک بچی کو اپنے گھر میں اور گھر سے باہر حجاب پہننے کا حق ہے اور یہ حق اسکول کے دروازہ پہ جا کر رک نہیں جاتا وہ بچی اپنے اسکول کے دروازہ پہ اور یہاں تک کہ کلاس روم تک اپنا وقار اپنی پرائیویسی ساتھ لے جاتی ہے وہ اپنے بنیادی حقوق محفوظ رکھتی ہے یہ کہنا کہ یہ بنیادی حقوق کلاس روم کے اندر فروعی بن جاتے ہیں پوری طرح غلط ہے جسٹس دھولیہ نے نہ صرف کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا بلکہ حکومت کے اس حکمنامے کو منسوخ کردیا جس کے تحت اسکول و کالج کے ڈویلپمنٹ کمیٹیوں کو اس کا اختیار دے دیا گیا تھا کہ وہ جو چاہیں یونیفارم ترتیب دیں۔ جسٹس سدھانشو دھولیہ نے شخصی آزادی کو کسی قانون کا پابند کرنے کی کوشش کو مسترد کر دیا ہے۔

جس طرح سے حجاب کے مسئلے کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی ہے اس کے تناظر میں یہ بات یقینی طور پہ کہی جا رہی ہے کہ درحقیقت یہ تنازعہ سیاسی مہرہ ہے اس کے ذریعے اعلی طبقے کو یہ پیغام دینے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ اگر ہم حکومت میں رہے تو سب کچھ ممکن ہے۔

بےشک سیاسی جنگ اور اقتدار کسی بھی پارٹی کی شان کا مسئلہ ہوتا ہے لیکن ایسی سیاست کس کام کی جو ملک کے جمہوری نظام اور دستور پہ بھی سوالیہ نشان لگا دے سیاست میں اتنی اخلاقیات تو ہونی چاہئے کہ وہ ایسے تنازعات سے گریز کرے جس کی زد میں آکر ملک کا آئین اپنی شناخت کھونے لگے۔

رہی بات ایران کی وہاں پہ حد سے زیادہ پابندیوں نے عوام کو باغی کر دیا ہے وہاں پہ بھی شخصی آزادی کو پامال کرنے کی کوشش کی گئی۔ کسی بھی ملک کا سیاسی نظام اگر عوام کی شخصی آزادی میں خلل پیدا کرتا ہے تو اس سے ملک میں انارکیت کو فروغ ملتا ہے جلد یا بدیر عوام اس کے خلاف سراپا احتجاج ہو کر اس کو چیلنج کرتے ہیں اور ختم کر کے ہی چین سے بیٹھتے ہیں دنیا نے آمریت کے بدترین نتائج بھگتے ہیں اس نے اپنے تجربوں سے سیکھ کر اس سے نجات بھی کافی حد تک حاصل کر لی ہے جمہوری نظام میں اس طرح کی تسلط پسندی کو کوئی حیثیت نہیں حاصل ہے۔

رہی بات اس کی کہ حجاب اسلام کا لازمی حصہ ہے یا نہیں تو میرے خیال میں ہر بات کو مذہب کے نقطۂ نظر سے بحث کرنے سے پہلے اس پہلو پہ بھی تو سوچنا چاہئے کہ ایک فرد کی شخصی آزادی کا بھی ایک دائرہ ہے جس میں کسی کو بھی کوئی قانون بنانے کا حق حاصل نہیں کسی بھی معاشرے کے ہر فرد کی سوچ ایک جیسی تو ہرگز نہیں ہو سکتی کوئی چاہے تو برائے نام مذہب اختیار کرے اور کوئی چاہے تو مکمل طور پر اس کے حدود و قیود کا لحاظ کرے یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے ایسے میں اگر کوئی ایک قانون بنا دیا جائے تو بہتوں کے لئے پریشانی پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے اس لئے اس معاملے میں اب تک جو آزادی ایک فرد کو حاصل رہی ہے اس میں دخل اندازی کرنا کہیں نہ کہیں بہت سارے مسائل کو پیدا کرنے کا سبب بنے گا کسی بھی مذہب کا شدت پسند رویہ ملک میں بدامنی پیدا کرنے کی وجہ بن سکتا ہے۔ ایک لڑکی تعلیمی ادارے میں حجاب کا اہتمام کرتی ہے تو اس سے تعلیمی نظام میں کس طرح کا خلل پیدا ہو سکتا ہے اگر کوئی بھی انسان مذہب کی عینک سے دیکھنے کے بجائے عام اخلاقی نقطہء نظر سے دیکھے تو اسے یہ بات بالکل بےبنیاد معلوم ہو گی اس کے بجائے وہ تعلیمی نظام اور اس کے معیار پہ بات کرنے کو ترجیح دے گا جس پہ کہ ہم بات کرنے سے کتراتے ہیں حالاں کہ ہمارا تعلیمی نظام ہماری توجہ کا سب سے زیادہ مستحق ہے کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کے تعلیمی نظام پہ ہی ہوتا ہے ملک کے سارے ڈاکٹر وکیل جج انجینئر ماہر معاشیات وغیرہ تعلیمی نظام سے ہی گذر کے قوم کی خدمت کے لئے آتے ہیں اگر ان کو اعلی معیاری تعلیم ملی ہوگی تو ملک کا نظام خود بخود بہتر ہونا شروع ہو جائے گا لیکن اگر یہی ادارہ اپنے معیار پہ سمجھوتہ کرنے لگے تو ملک کے سارے محکموں میں کرپشن ظلم و زیادتی کو فروغ ملنا ہی ہے۔ جتنی بحث آج حجاب پہ ہو رہی ہے اگر اتنی بحث تعلیم کے معیار پہ کی جاتی تو شاید ملک کا کچھ بھلا ہو جاتا۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com