جامعہ محمودیہ اشرف العلوم کے کتب خانہ میں حلقہ جاجمؤ کے علمائے کرام و ائمہ مساجد کی نشست کا انعقاد
کانپور: جاجمؤ واقع مشرقی اتر پردیش کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ محمودیہ اشرف العلوم کے کتب خانہ میں حلقہ حاجمؤ کے علمائے کرام و ائمہ مساجد کی ایک اہم نشست محکمہ شرعیہ و دارالقضاء کانپور کے صدر مفتی عبد الرشید قاسمی کی صدارت و جمعیۃ علماء اترپردیش کے نائب صدر مولانا امین الحق عبد اللہ قاسمی کی نگرانی میں منعقد ہوئی۔ جس میں جمعیۃ علماء شہر و مجلس تحفظ ختم نبوت کانپور کے زیراہتمام 6/نومبر بروز اتوار بعد عشاء قلب شہر میں منعقد ہونے والی تحفظ ختم نبوت ؐ و تحفظ حدیث کانفرنس کی تیاریوں کے ساتھ ساتھ عوام کو کانفرنس تک پہنچانے کے نظام، عمومی کانفرنس سے قبل جامع مسجد اشرف آباد میں صبح سے ہونے والی علمائے کرام، ائمہ مساجد و دانشوران کی خصوصی نشست میں شرکت کے طریقہ اور کانفرنس سمیت اس کی تیاریوں سے جڑی تمام نشستوں کی اہمیت و ضرورت پر تفصیل سے گفتگو کرکے آگے کا لائحہ عمل تیار کیا گیا۔
نشست کی صدارت فرما رہے مفتی عبد الرشید قاسمی نے موجود تمام علمائے کرام و ائمہ کے سامنے ختم نبوت ؐ کے مسئلہ کی حساسیت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی یہ مانتا ہے کہ اب کوئی نیا نبی نہیں آ سکتا پھر بھی اس کو کوئی بتائے کہ نہیں حضور کے بعد اب کوئی نیا نبی آسکتا ہے اور صحیح العقیدہ شخص دلیل بھی مانگ لے کہ تمہاری بات صحیح لیکن اگر آئے گا تو کیسے آ ئے گا، یہ پوچھنے اور دلیل مانگنے پر بھی کفر تک کا فتویٰ موجود ہے۔ کیونکہ ایک ایسی چیز جو ممکن ہی نہ ہو اس کیلئے دلیل مانگنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ جس طرح سے بنیادی عقائد میں اللہ کا ایک ہونا، حضورؐ کا اللہ کا نبی اور رسول ہونا ہے اسی طرح ختم نبوت کا عقیدہ بھی بنیادی عقائد میں سے ہے۔ اگر ختم نبوت کے عقیدہ کو ختم کر دیا گیا تو دین اسلام بھی ختم ہو جائے گا، اس کا کوئی مطلب نہیں رہ جائے۔ اسی لئے اللہ کے تکمیل نظام کے تحت حضورؐ کے زمانے میں ہی کچھ ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا تو حضورؐ نے اس کی سرکوبی کیلئے لشکر بھیجا، پھر بعد میں حضرت صدیق اکبرؓ نے اس کی مکمل سرکوبی کی۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ تمام جنگوں میں شاید اتنے صحابہ کرام شہید نہ ہوئے ہوں جتنے ختم نبوتؐ کے تعلق سے شہید ہوئے ہیں۔
مفتی صاحب نے حضورؐ کے ایک خواب کی تعبیر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ فتنے پیسے یعنی مال و دولت اور طاقت کے دم پر آئیں گے، اسی لئے آپ دیکھیں گے کہ باطل فتنہ پرور لوگ غریبوں کو لبھانے پر خوب محنت کرتے ہیں۔ دوسری جانب حضورؐ کا یہ بھی فرمان ہے کہ یہ فتنے بہت آسانی سے دفع بھی ہو جائیں گے، ان کیلئے بہت زیادہ مشقت اور جدوجہدکی ضرورت نہیں پڑے گی۔ انہوں نے بتایا کہ ختم نبوت ؐ کا انکار بھی ویسا ہی مسئلہ ہے جیسے کفر اور شرک کا ہوتا ہے۔ نبوتؐ کاختم نبوت ہونا ہی رحمت ہے کیونکہ پچھلی امتوں میں سب سے زیادہ پریشانی یہی ہوتی تھی کب کون نیا نبی آ جائے، اس میں دقت یہ آتی تھی کہ کچھ لوگ اس نبی پر ایمان لاتے تھے، کچھ نہیں لاتے تھے۔ دوسری بات یہ بھی تھی فطری طور پر انسان جس مذہب میں پیدا ہوتا ہے اس سے اس کو لگاؤ اور محبت ہوتی ہے، نئے نبی کی آمد پر لوگ شبہ میں پڑ جاتے تھے کہ اس پر ایمان لائیں کہ نہیں اور لوگ ذہنی عذاب میں مبتلا رہتے تھے کہ اس کو جانچنا پرکھنا کہ صحیح معنوں میں نبی ہے بھی یا نہیں کیونکہ اس پر ایمان لائے تو مومن ورنہ کافر کہلائیں گے۔ اس کی وجہ سے گھروں میں بھی انتشار ہو جاتا تھا۔ اس لئے نبوت رحمت ہے لیکن ہر چیز کا اجراء رحمت نہیں ہوتی، باطل عقائد پھیلانے والے یہیں پر بات کو گھما دیتے ہیں کہ نبوت تو رحمت ہے اور رحمت جاری رہنی چاہئے لہٰذا ابھی کوئی نیا نبی آئے گا اور پھر بعد میں اپنے غلط عقائد کی طرف اچھے خاصے صحیح العقیدہ انسان کو لے جاتے ہیں۔ اس طرح کے فتنے کانپور اور اطراف میں پھیل رہے ہیں، اس کی سرکوبی ہماری آپ کی ذمہ داری ہے۔ تحفظ ختم نبوت کانفرنس اور اس سے جڑے تمام پروگرام اسی لئے کئے جاتے ہیں کہ باطل عقائد پھیلانے والوں کو معلوم ہو کہ ہم ابھی بیدار ہیں اور ہمیں لوگوں کے عقائد کی فکر ہے۔ اس کے علاوہ مفتی صاحب نے فکری ارتداد، اس کے نقصانات اور اس سے لوگوں کو بچانے کے طریقہ کار پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
مولانا امین الحق عبد اللہ قاسمی نے کہا کہ ویسے تو ہم انسان، مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ عالم، حافظ، قاری، امام، مؤذن یا جو کچھ بھی ہیں لیکن عوام کی نظر میں ہم سب ان کے دینی معاملات کے ذمہ دار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لئے ہم اپنی دیگر مصروفیات کے ساتھ اپنی فکروں کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اپنے حلقہ سے جڑے ہوئے تمام لوگوں کے عقائد کی فکر بھی اسی طرح کریں جس طرح اعمال کی فکر کرتے ہیں۔ مولانا نے فتنہ قادیانیت، شکیلیت، پرویزیت سمیت دیگر فتنوں کے باطل عقائد اور ان کے کام کرنے طریقوں سے علمائے کرام و ائمہ مساجد کو واقف کراتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے زیر اثر حلقہ اس کا جائزہ لیتے رہیں کہ کوئی باطل عقائد پھیلانے والا ہمارے مصلیان،مسجد سے جڑے ذمہ داران اور عوام کا ذہن تو نہیں خراب کر رہا ہے۔ لوگوں کے دلوں میں عقائد کی اہمیت کو بیٹھانے کیلئے جو بھی طریقہ کار اپنائے جا سکتے ہیں اسے اپنائیں۔ اسی ضمن میں جمعیۃ علماء و مجلس تحفظ ختم نبوت کانپور کے زیر اہتمام 6/نومبر کو قلب شہر میں تحفظ ختم نبوت کانفرنس منعقد کی جا رہی ہے، جس میں دیوبندی، دہلی، ممبئی، لکھنؤ، ہردوئی سمیت ملک کے مختلف حصوں سے اکابر علمائے کرام تشریف لا رہے ہیں۔ اس میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پہنچانے اور اس کی کامیابی کیلئے اسباب کے طور جن وسائل کو اختیار کر نا ہے اسے اختیار کریں اور لوگوں میں ختم نبوت کی کانفرنس میں شرکت کیلئے آمادہ کرنے کرنے کے ساتھ ساتھ عقائد کے تعلق بیداری پیدا کرنے کے کام کو اپنا مشن بنائیں۔
نشست میں کثیر تعداد میں حلقہ جاجمؤ کے علمائے کرام، ائمہ مساجد، ذمہ داران مدارس و مکاتب موجود رہے۔