خانہ آبادی یا خانہ بربادی؟

شمع فروزاں : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

 اللہ تعالیٰ نے انسان کو صلاحیت دی ہے کہ وہ ترقی کرتے ہوئے اخلاق وشرافت کی اوج کمال پر پہنچ جائے، اور اگر اس نے اپنے لئے پستی کا انتخاب کر لیا تو وہ درندوں کو بھی شرمندہ کر دے، پچھلے دنوں بعض ایسے ہی واقعات پیش آئے، چند جوڑوں نے سرپرستوں کو اعتماد میں لیے بغیر عشق کے اندھے جذبہ کے تحت شادی کر لی، یا بغیر شادی کے ساتھ رہنے لگے؛ لیکن جلد ہی ہوس کا بخار اتر گیا اور کچھ اس طرح اترا کہ علاحدگی ہی نہیں ہوئی؛ بلکہ جینے کا حق بھی چھین لیا گیا اور لڑکی کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے گئے، یہ واقعات بین مذہبی شادی کا نتیجہ ہیں، دونوں نے اپنی پسند سے شادی کی، نہ والدین کی تائید اس میں شامل تھی، نہ دونوں کے سماج نے اس رشتہ کا استقبال کیا اور نہ خود اُن دونوں نے مستقبل کو سمجھنے کی کوشش کی؛ بلکہ وقتی جذبہ کے تحت شادی رچالی، جتنی عجلت کے ساتھ شادی یا پارٹنر شپ کی گئی، اتنی ہی جلدی نام نہاد محبت کا یہ طوفان تھم گیا اور حرص وہوس کی آگ بجھ گئی، یہاں تک کہ اس کا انجام انسانیت سوز اور دردناک قتل کی شکل میں سامنے آیا۔

 مردو عورت کا باہمی تعلق انسانی زندگی کا سب سے بڑا واقعہ ہے، انسانی زندگی میں جتنے رشتے پائے جاتے ہیں، ان کو انسان وجود میں نہیں لاتا، وہ فطری طور پر ان رشتوں میں بندھ جاتا ہے، ماں باپ اور اولاد کا رشتہ، بھائیوں اور بہنوں کا رشتہ ، دادا دادی، نانا نانی، اولاد کی اولاد، بھائیوں بہنوں کی اولاد، ان رشتوں کو انسان اپنے ارادہ وپسند سے وجود میں نہیں لاتا؛ بلکہ اللہ کی طرف سے رشتہ داریاں پیدا ہوتی ہیں؛ مگر شوہر وبیوی کا رشتہ دونوں کی پسند اور مرضی سے وجود میں آتا ہے، یہ رشتہ انسان کو سکون، اولاد اور بہت سی نعمتوں سے نوازتا ہے، وہ صرف ایک دوسرے کے لئے جنسی تسکین کا ہی ذریعہ نہیں بنتے؛ بلکہ زندگی کے تمام مراحل میں وہ ایک دوسرے کے لئے سکون کا ذریعہ بن جاتے ہیں، خیال کیجئے کہ ایک شخص کسب معاش کے لئے کسی دوسرے شہر یا ملک کو جائے، جہاں اس کو ایک مدت تک رہنا ہے، اس کے گھر میں بچے ہیں، اگر ان بچوں کی نگہداشت کے لئے بیوی وہاں موجود نہ ہو تو کیا اس کو سکون میسر آسکتا ہے؟ وہ تو ہر لمحہ ہر آن فکر مند رہے گا کہ اس کے بچے کس حالت میں ہیں، انھوں نے کھایا پیا یا نہیں، پڑھنے گئے یا نہیں گئے، پڑوس کے لوگ کہیں ان کو تکلیف تو نہیں پہنچا رہے ہیں، اگر بچوں کی ماں گھر پر موجود ہو تو انسان کا ذہن ان سارے افکار سے فارغ ہوتا ہے، تصور کیجئے کہ میاں بیوی بوڑھے ہو چکے ہیں، اب ان کے درمیان جسمانی تعلق نہیں رہا؛ لیکن پھر بھی دونوں کو ایک دوسرے سے کس طرح سہارا ملتا ہے، یہ بوڑھے شوہر وبیوی جتنا ایک دوسرے کا لحاظ کرتے ہیں، اور ان کی ضرورتوں پر نظر رکھتے ہیں، کوئی اور رشتہ دار اس درجہ ایک دوسرے کا خیال نہیں رکھتا، دونوں کا وجود ایک دوسرے کے لئے سکون کا باعث ہوتا ہے اور ایک دوسرے کی فرقت دل کو بے چین کر کے رکھ دیتی ہے، اس رشتہ کے بقا سے شوہر وبیوی ہی نہیں؛ بلکہ بچے اور دونوں خاندانوں کا مفاد بھی متعلق ہے۔

 لیکن یہ رشتہ کیسے باقی رہ سکتا ہے؟ اس وقت جب اس کے پیچھےسنجیدہ فیصلہ اور مستقبل کی منصوبہ بندی ہو،دونوں دیکھیں کہ ان کے درمیان کس حد تک مزاج میں موافقت ہے، معاشی معیار کے اعتبار سے ہم آہنگی ہے، خاندانی طور طریقوں میں یکسانیت ہے، ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی صلاحیت ہے، خوش اخلاقی اور خوش اطواری ہے، بزرگوں کے احترام کا، چھوٹوں کے ساتھ شفقت کا اور رشتوں کو نبھانے کا جذبہ ہے ، صرف رنگ وروپ کو دیکھ کر وقتی ملاقات کی بنیاد پر مذہبی ہم آہنگی کی رعایت اور خاندان کے مزاج کو خاطر میں لائے بغیر جو شادی کی جاتی ہے، وہ خانہ آبادی کے بجائے خانہ بربادی کا پیش خیمہ ہوتی ہے، اکثر یہ رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، لوگ اس کو محبت وپیار کا نام دیتے ہیں؛ لیکن یہ سچی اور پکی محبت نہیں ہوتی ، یہ ہوس کی آگ اور وقتی جذبات کی حرارت ہوتی ہے، ایسے رشتوں میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور اپنے پارٹنر کی خلاف ِمزاج باتوں کو سہنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، اس کا مقصد صرف جسمانی سکون کا حاصل کرنا ہوتا ہے، نہ قلبی سکون مطلوب ہوتا ہے نہ اولاد کی پیدائش اور اس کی پرورش کا جذبہ پایا جاتا ہے، نہ جوانی کی طرح بڑھاپے تک محبت کی حرارت کو باقی رکھنے کا خیال ہوتا ہے؛ اسی لئے یہ رشتے بہت جلد ٹوٹ جاتے ہیں اور اکثر بہت ہی تکلیف دہ انداز پر ختم ہوتے ہیں، جذبات کی آگ سرد ہو تے ہی یہ نام نہاد محبت جل کر خاک ہو جاتی ہے۔

 حلال طریقے پر جو رشتہ وجود میں آتا ہے، اس میں تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے، اس میں دونوں خاندانوں کی بھرپور شرکت ہوتی ہے، طرفین کے سرپرست فرحت وشادمانی کے ساتھ رشتہ طے کرتے اور آگے بڑھاتے ہیں، فکر وعقیدہ اور مزاج ومذاق کی ہم آہنگی ہوتی ہے، گھر میں ایک ہی طرح کا ماحول بنتا ہے، مثلاََ رمضان المبارک کا مہینہ ہے تو شوہر وبیوی دونوں نماز روزہ، ذکر وتلاوت، صدقہ وخیرات، سحری وافطار کا انتظام کرتے ہیں، عید ہے تو بھرپور جذباتِ مسرت کے ساتھ دونوں ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں، پورا خاندان خوشی کے ماحول میں ایک دوسرے سے ملتا ہے، اگر ان میں ایک فریق مسلمان ہو اور دوسرا غیر مسلم یا ایک دیندار ہو اور دوسرا بددین، تو کیسے ایسے دو خاندانوں میں موافقت پیدا ہوگی؟ اس لئے رشتہ نکاح کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نکاح کی وجہ سے دو افراد کے درمیان جو محبت پیدا ہوجاتی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے: لم یر للمتحابین مثل النکاح (ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۱۸۴۷)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ نکاح چار اسباب کے تحت کئے جاتے ہیں: عورت کی دولت کی وجہ سے ، اس کی خاندانی وجاہت کی وجہ سے، اس کے حسن وجمال کی وجہ سے اور اس کی دین داری کی وجہ سے، تو دیندار لڑکی کا انتخاب کر کے اپنی زندگی کو خوشگوار کامیاب بناؤ: فاظفر بذات الدین تربت یداک (بخاری ، حدیث نمبر: ۵۰۹۰) جائز وحلال اور دین واخلاق پر مبنی رشتہ میں ٹھہراؤ ہوتا ہے، ایک دوسرے کی رعایت ہوتی ہے، دیر تک محبت قائم رہتی ہے اور جب میاں بیوی صاحب اولاد ہوتے ہیں تو اولاد اس محبت کو صدا بہار بنادیتی ہے۔

 گزشتہ دنوں عارضی محبت کے نام پر جیسے دلسوز واقعات پیش آئے، یہاں تک کہ ایک شوہر نے اپنی بیوی کو قتل کر کے اس کے جسم کے ۳۵؍ ٹکڑے کر دئیے، یہ نتیجہ ہے ایسے ہی وقتی جذبات کا، جس کو لوگ پیارومحبت کا جھوٹا نام دے دیتے ہیں ، ان واقعات سے سبق ملتا ہے کہ:

 (۱) لڑکے ہوں یا لڑکیاں، ان کو اپنے رشتہ کے سلسلے میں والدین کو اعتماد میں لینا چاہئے، یقیناََ ماں باپ پر واجب ہے کہ وہ بچوں کی پسند کا خیال رکھیں؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ماں باپ رشتوں کے انتخاب میں مختلف پہلوؤں کو ملحوظ رکھتے ہیں، اس وجہ سے وہ رشتہ کامیاب ہوتا ہے؛ اس لئے بچوں کا کام ہے کہ وہ اپنے سرپرستوں کی رائے کو اہمیت دیں۔

 (۲) رشتۂ نکاح کو طے کرنے میں خاندان کے بزرگوں کی شرکت کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر کبھی آپس میں ہلکی پھلکی ناچاقی ہو جاتی ہے تو خاندان کے بڑے اس کو دور کر دیتے ہیں، اور حسب ضرورت سمجھا کر اور تنبیہ کر کے دوریوں کو پاٹ دیتے ہیں۔

 (۳) اگر مسلمان لڑکی کا رشتہ غیر مسلم لڑکے سے ہو تو یہ اس کے لئے بہت ہی سوہان روح ہوتا ہے، خاندان کے لوگوں میں رسوائی کا احساس پیدا ہو جاتا ہے، لڑکی اپنے آپ کو نئے گھر میں تنہا محسوس کرتی ہے، آپس میں کچھ اختلاف ہو تو کوئی اس اختلاف کو دور کرنے والا نہیں ہوتا، پھر اولاد ہونے کے بعد ان کے بارے میں نزاع پیدا ہوتی ہے، وقتی جذبات کے تحت وہ تعلق استوار کر لیتے ہیں؛ لیکن جب جذبات کی آگ ٹھنڈی ہو جاتی ہے تو وہ سخت نفسیاتی کشمکش کا شکار رہتی ہے، گھریلو روایات اور رسوم ورواجات کا فرق بھی ذہن کو بے چین کرتا ہے اور وہ مسلسل اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتی ہے، غم واندوہ کے موقع پر کوئی دلاسہ دینے والا نہیں ہوتا اور خوشی کے موقع پر خوشیاں ادھوری رہ جاتی ہیں۔

 (۴) مسلمان لڑکا اگر غیر مسلم لڑکی کو اپنے گھر لائے تو قریب قریب یہ سارے مسائل اس وقت بھی پیدا ہو جاتے ہیں، دونوں کی زندگی تناؤ کی حالت میں گزرتی ہے، پھر جب بچے پیدا ہوتے ہیں تو کشمکش پیدا ہوتی ہے کہ ان کا نام کیا ہوگا، پھر آگے تعلیم ،اُن کی شادی اور تربیت دادیہال اور نانیہال سے ربط ہر جگہ ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے۔

 (۵) ہر دو صورت میں وہ مستقبل میں بھی اپنے آپ کو خاندان سے محروم محسوس کرتے ہیں، ان کے لئے رشتوں کا ملنا بھی دشوار ہو جاتا ہے، دادیہال والے ان کو اس لئے قبول نہیں کرتے کہ ان بچوں کی ماں کا مذہب الگ ہے، اور نانیہال والے اس لئے قبول نہیں کرتے کہ ان کے باپ کا مذہب الگ ہے، یہاں تک کہ خاندانی نسبت ان بچوں کے لئے عار بن جاتی ہے۔

 (۶) بیشتر دفعہ وقتی جذبات کے ٹھنڈے ہونے کے بعد نوبت تشدد تک پہنچتی ہے اور کبھی شوہر کا قتل ہوتا ہے اور کبھی بیوی کا، کبھی خود اپنے خاندان والوں کے ذریعہ اور کبھی دوسرے فریق کے لوگوں کے ذریعہ۔

 کیا ایسی نامبارک اور نام نہاد شادی کسی فریق کے لئے نفع کا سودا ہو سکتا ہے، ضرورت ہے کہ نوجوان پوری سنجیدگی کے ساتھ اس صورت حال پر غور کریں اور اپنے آپ کو ناکامیوں اور نامرادیوں کے گڑھے میں نہ ڈالیں۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com