وسیع کردار کے باوجود مسلم میڈیا عدم توجہی و مالی بحران کا شکار

نئی دہلی: (ملت ٹائمز) ہندستان میں مسلم میڈیا کو اس لحاظ سے ممتاز مقام حاصل ہے کہ اس نے برصغیر کو کسی ہندستانی کے ذریعہ سب سے پہلے ۱۹ویں صدی کے اوائل میں کوئی اخبار دیا، تحریک آزادی کا بگل بجایا اور اپنے وجود نیز اپنے ایک ایڈیٹر کی جان کی قربانی دے کر اس کی قیمت چکائی، اتنا ہی نہیں زندگی کے ہر ایک شعبہ و زبان اور ہر ایک خطہ میں اپنی موجودگی درج کرائی اور ملک و ملت کی تعمیر نو میں حصہ لیا ؛ لیکن اس کریڈٹ کے باوجود آج یہ بحیثیت مجموعی وہ اثر و رسوخ قائم نہیں کرپایا جو کہ اسے کرنا چاہئے تھا ، ایک دبے، کچلے اور مالی بحران کے شکار میڈیا کے طور پر دکھائی دیتا ہے۔ مذکورہ بالا خیالات کا اظہارکل مورخہ ۳؍ دسمبر ۲۰۲۲ء کو اسلامک فقہ اکیڈمی کے سمینار ہال میں ’’ہندستان کی مسلم صحافت: آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد‘‘ کے موضوع پر منعقدہ محاضرہ میں سہ لسانی سینئر صحافی اور مصنف جناب اے یو آصف نے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس جانب توجہ دی جائے کیونکہ کسی بھی ملک و ملت کی ترقی اور امپاورمنٹ کا دارومدار اس پر ہوتا ہے کہ اس کا میڈیا کتنا بیدار، چوکنا، معروضی اور بامقصد ہے۔

اے یو آصف نے غدر 1857 سے قبل اُس صدی کے اوائل میں شروع ہوئے مسلم میڈیا کی تفصیلی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے میرٹھ سے اٹھی تحریک آزادی میں اس کے سب سے نمایاں کردار کو سراہا اور بعد ازاں اردو کے علاوہ ملک کی تمام اہم زبانوں میں اس کی موجودگی کا ذکر کیا، انہوں نے کہا کہ مذہبی امور ہو یا سیاست ،معاشرت ہو یا تعلیم، تجارت ہو یا صنعت، صحت اور کھیل کود ہو یا فلم انڈسٹری، زندگی کے ہر شعبہ میں یہ موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک زمانہ میں سیاست میں عثمان اسد کے ہفتہ وار ’نشیمن‘ اور غلام سرور کے روزنامہ ’سنگم‘ نے تہلکہ مچایا، حتی کہ 1967ء میں ریاست بہار میں کے بی سہائے کی کانگریس حکومت کا تختہ پلٹنے میں روزنامہ سنگم نے کلیدی کردار ادا کیا اور ’جگر کے ٹکڑے کی کال دینے والے مہامایہ پرساد اور کرپوری ٹھاکر کو برسراقتدار کردیا۔ اسی طرح علمی و تحقیقی طورپر 20ویں صدی کے اوائل میں محمد علی جوہر کے ’کامریڈ‘ ، ’ہمدرد‘، اور ابو الکلام آزاد کے ’الہلال‘ و ’البلاغ‘ نے اپنا لوہا منواتے ہوئے تحریک خلافت اور تحریک عدم تعاون کے علاوہ آزادی کی تحریک میں زبردست رول ادا کیا۔

اے یو آصف نے کہا کہ تحریک احیائے دین میں بھی مسلم میڈیا نے محمد علی جوہر اور ابو الکلام آزاد کے اخبارات کے علاوہ ’مدینہ‘ بجنور، ’مسلم‘، ’الجمعیۃ‘، ’ترجمان القرآن‘، ’الانصاف‘، سہ روزہ و ہفتہ روزہ ’دعوت‘،’ انگریزی ریڈیئنس ویوز ویکلی‘، ہفتہ وار ’کانتی‘، ملیالم روزنامہ ’مادھیمم‘ اور ہفتہ وار ’پربودھنم‘، کنڑ ہفتہ وار ’سنمارگہ‘، تیلگو ہفتہ وار ’گیتورائی‘، بنگلہ روزنامہ ’قلم‘ اور ہفتہ وار ’میزان‘، گجراتی ہفتہ وار ’شاہین‘ اور ہفتہ وار ’مجاہد‘ اور دیگر نے نمایاں کردار ادا کیا اور آج بھی کر رہے ہیں، انہوں نے بااثر جریدوں و ہفتہ واروں میں ’برہان‘، ’معارف‘، ’زندگی‘ مجلہ ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی کے علاوہ ندوہ سے 20ویں صدی کے اوائل میں مولانا سید سلیمان ندوی کی تحریک پر مولانا مسعود عالم ندوی کے ذریعہ عربی جریدہ اور پھر آزادی کے بعد ’الدعوۃ‘ ، ’البعث الاسلامی‘ اور ’’الداعی‘‘ کا بھی خصوصی طور پر حوالہ دیا، مولانا عبد الماجد دریابادی کے ’صدق جدید‘ اور عامر عثمانی کی ’تجلی‘ کا ذکرکیا اور اس کے حلقہ اثر پر روشنی ڈالی،علاوہ ازیں انہوں نے ۱۹۹۱ میں اقتصادی اصلاحات کے بعد اردو میں مسلم میڈیا میںکارپوریٹ کے آنے کو بڑی اور انقلابی تبدیلی بتایا، جس سے اردو صحافیوں کی بدحالی کوختم کرنے اور کم کرنے میں بڑی مدد ملی، ویسے یہ کمی بہت بڑی کمی ہے کہ مسلم میڈیا میںکوئی خبر رساں ایجنسی نہیں پائی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلمی دنیا میں بھی حافظ یوسف دہلوی کے ماہنامہ ’شمع‘، و ’سشما‘ نے اپنے زمانے میں دھوم مچائی۔ نیز خالد انصاری کے ’اسپارٹس ویک‘ نے انگریزی و اردو میں اپنا لوہا منوایا۔ نیز سید شہاب الدین کے ’مسلم انڈیا‘ ‘ نے انگریزی، اردو ، ہندی اور ’نیشن ان دی ورلڈنے سید حامد اور سید ضیاء الحق کی سرپرستی میں ڈاکیومینٹشن کے لحاظ سے معتبریت قائم کی۔ عارف اقبال کے ’اردو بک ریویو‘ نے کتابوں کی دنیا کی صحافت پیش کی جو کہ ایک نادر تجربہ ہے۔

اے یو آصف نے کہا کہ پرنٹ میڈیا کے علاوہ الیکٹرانک اور ویب میڈیا میں بھی مسلم میڈیا نے اپنا اثر دکھانا شروع کردیا ہے، ویب پورٹلس اور یوٹیوب چینلس میں ’ٹوسرکلس ڈاٹ نیٹ‘ اور زبیر احمد کے ’مسلم میرر‘ ، خلیق احمد کی ادارت میں ’انڈیا ٹو مارو‘ قاسم سید کا ’روزنامہ خبریں‘ ، شمس تبریز قاسمی کے ’ملت ٹائمز‘ سلیم خان اورکمال حسن کے ’این وی این‘ قابل ذکر ہیں، معاشرتی اصلاح میں ابن صفی کے جاسوسی ناول، اور خوشتر گرامی کی ’بیسوی صدی‘ کے دور رس اثرات کا بھی تذکرہ ہوا۔

پروگرام کے آغاز میں اے یو آصف کا بھرپور تعارف پیش کیا گیا۔ صدارتی ریمارکس میں ڈاکٹر عبد القادر خان صاحب نے فاضل مقرر و صحافی اے یو آصف کی اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ملک کے مختلف خطوں اور زبانوں میں پھیلے ہوئے مسلم میڈیا کے حلقۂ اثر کو مزید مؤثر اور مستحکم بنانے کے لئے مختلف زبانوں میں اپنے اپنے روزنامے کی ضرورت ہے ،جبکہ فی الوقت صرف ملیالم، گجراتی اور بنگلہ میں ایک ایک روزنامہ پایا جاتا ہے جو کہ مقبول عام بھی ہے،اور ان کا الگ الگ سرکولیشن لاکھوں میں ہے، دوسری زبانوں بشمول اردو، ہندی اور انگریزی میں بھی ملک گیر سطح کے بااثر اخبارات کی ضرورت ہے، یہ المیہ ہے کہ انگریزی کے اخبار کی متعدد کوششیں ہوئیں، لیکن روزنامہ سے مسلم میڈیا محروم رہا، اسی طرح اپنا کوئی ٹی وی چینل بھی ہنوز خواب ہی بنا ہوا ہے۔ ’فلک‘ اور ’الہند‘ نیز سابق رکن پارلمنٹ محمد ادیب کے ذریعے چینل کی کوشش نے اب تک ناکامی کا منہ دیکھا ہے؛ البتہ یوٹیوب چینل کے ابھار کے بعد اب یہ ممکن نظر آتا ہے کہ اس سلسلے میں کم لاگت کے ساتھ سنجیدہ کوشش ہو، مسلم صنعت کاروں، تنظیموں، اداروں و دیگر شخصیتوں کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے، یہ ذمہ داری سماج کے سنجیدہ طبقے کی ہے۔

محاضرہ کا آغاز مولانا توصیف قاسمی کی تلاوت کلام اللہ سے ہوا،پروگرام کی صدارت مولانا عبد القادر خان صاحب نے کی جبکہ نظامت کے فرائض مولانا امتیاز احمد قاسمی نے انجام دیئے۔ پروگرام میں زبیر احمد، قاسم سید، خالد قاسمی ،مولانا صفدر علی ندوی، صفی اختر اور شمس تبریز قاسمی کے علاوہ دیگر معزز نامہ نگار وکالم نویس اور مؤقر علماء کرام نے شرکت فرمائی۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com