آہ ! عامر سلیم خان صاحب

مجھ جیسے صحافت کے طالب علم کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ ایک 

سرخی ان جیسی لگا پاتا

اشرف علی بستوی

عامر بھائی سے میرا پہلی بار رابطہ 25 مئی 2006 کو دریا گنج واقع روزنامہ ہندوستان ایکسپریس کے دفترمیں ہوا تھا جب اخبار کے بانی ایڈیٹر خالد انور نے میرا بطور رپورٹرسلیکشن کرنے کے بعد عامر سلیم خان صاحب سے یہ کہتے ملوایا تھا ” یہ عامر سلیم خان آپ کے چیف رپورٹر ہیں جائیے ان کے ساتھ ملکر کام کیجیے” اس روز سے جو تعلق بنا وہ اسی طرح برقرار رہا اورآخری بار رابطہ ایک خبرکی اشاعت کے سلسلے میں 9 دسمبر 2022 کی شام 6 بجے بذریعہ واٹس ایپ چیٹ ہوا،انہوں نے مجھے لکھا ‘ اوکے بھائی ‘۔ اگلی صبح اخبارات کی آن لائن مانیٹرنگ کے لیے بیٹھا ہی تھا کہ تبھی فیس بک پر نظر پڑی کہ عامربھائی کو رات دیرگئے دل کا دوسرا دورہ پڑا اورانہیں جی بی پنت میں انتہائی نگہداشت والی یونٹ میں داخل کرایا گیا ہے ۔ اسی لمحے سے عامر بھائی کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد ان کی صحتیابی کی دعائیں کررہی تھی، لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ عامر بھائی کا تعلق سدھارتھ نگر سے تھا۔ پسماندگان میں اہلیہ اور تین بیٹے ہیں ۔ ابھی ایک ماہ قبل مرحوم کے والد محترم کا بھی دوران علاج دہلی میں انتقال ہوگیا تھا ۔

عامربھائی کے ساتھ کام کرنے کی مدت تو بہت کم رہی کیونکہ تین ماہ ہی گزرے تھے کہ میرا سلیکشن سہ روزہ دعوت میں ہوگیا اور میں جامعہ نگر شفٹ ہوگیا تھا لیکن ان سے سیکھنے کا عمل آخرتک جاری رہا ۔ البتہ اب ملاقاتیں کم ہوتیں لیکن جب ہوتیں بھر پور ہوتیں اور میری کسی نا کسی تحریر یا ویڈیو رپورٹ کے حوالے سے بات شروع کرتے دل کھول کرحوصلہ افزائی کرتے ۔ آج بھی مجھے پیارسے بستی والا کہہ کر پکارتے ، ہندوستان ایکسپریس میں میرا قلمی نام اشرف بستی والا تھا جو انہیں بہت پسند تھا ۔

ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے جو تجربات ہوئے اس میں سے ایک واقعہ اس وقت ذہن میں آرہا ۔ جولائی 2006 کی کوئی شام تھی، میں دوپہرکی رپورٹرس میٹنگ میں شریک ہوا اور شاپم ہوتے ہوتے دیے گئے ڈے پلان کے مطابق اپنے حصے کی دو خبریں ڈیسک کو دیکر تیسری خبر کی کوریج کے لیے شام سات بجے آ ئی ٹی او واقع پیارے لال بھون پہونچا وہاں ایک کلچرل پروگرام تھا جس میں قوالی بھی تھی ۔ محفل کچھ اس طرح جمی کہ کافی دیرہوگئی اور ذہن میں آیا کہ کیا ہوا دو خبریں تو دے ہی دیا ہے اب اس کی رپورٹ کل دے دوں گا ۔ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی ” پیج جانے کا وقت ہوگیا ہے بھائی خبر کہاں ہے” ؟ میں نے کہا سر، یہاں قوالی ہورہی ہے ، دوسری طرف سے عامر بھائی بولے یہاں خالد صاحب مجھے قوالی سنا رہے ہیں، جلدی کریں ۔ خیر گھبراہٹ میں کسی طرح دفتر پہونچا اور جلدی جلدی رپورٹ فائل کیا اتنے میں پیچھے سے آئے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بڑے ہی نرم لہجے میں بولے ” بھائی بستی والا ایسا نہ کریں آپ کوآج تین رپورٹ دینی تھی رپورٹنگ کرتے وقت اپنا اور اپنے وقت کا خیال رکھیں ” ۔ ابھی ایک ماہ قبل ایک موقع پر ملاقات ہوئی تھی ہمارا سماج کے نئے نئے یوٹیوب چینل کے بارے چرچا کی اسے مزید فعال کیسے بنایا جائے اس پر بات ہوئی ۔ کہنے لگے بھائی قارئین اب ناظرین میں جس تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں اس تبدیلی کو ہمیں سمجھنا ہوگا ۔

عامر بھائی پریس کلب آف انڈیا کے رکن تھے ، ورکنگ جرنلسٹ کلب کے صدر تھے ملی ایشوز پرلکھنے کا ملکہ رکھتے تھے ، ذرائع کا خوب استعمال کرتے لیکن مکمل رازداری رکھتے ۔ کبھی کبھار جب کوئی اہم اسپیشل رپورٹ لکھ رہے ہوں تو فون کرکے ضروری معلومات اپڈیٹ کرتے ،خاص طور سے ملی ایشوزپرلکھتے وقت ضرور یاد کرتے ۔ ہندوستان ایکسپریس نےاولین دنوں میں کئی ایسی خبریں دیں جو صرف اسی اخبارمیں دیکھی گئیں ۔ عامرسلیم خان اپنی رپورٹوں کی دلچسپ سرخییوں اور خبر وں کی ترتیب و پیشکش کے لیے ہمیشہ یاد کیے جائیں گئے ۔ مجھ جیسے صحافت کے طالب علم کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ ایک سرخی ان جیسی لگا پاتا ۔ اللہ تعا لیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور پسماندگان کو صر جمیل عطا فرمائے۔ آمین

نوٹ : مضمون نگار ایشیا ٹائمز نئی دہلی کے چیف ایڈیٹر ہیں 

رابطہ : 9891568632

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com