بھارتی میڈیا کس کی نمائندگی کرتا ہے؟

افتخار گیلانی

کسی بھی ملک کا میڈیا اسکے سماج کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اسی لئے سفارت کار جب بیرون ملک پوسٹنگ پر جاتے ہیں، تو عام طور پر وہاں کا میڈیاہی ان کی انفارمیشن کا بنیادی ذریعہ ہوتا ہے اور اسکی بنیاد پر وہ رائے بناکر اپنے ملک سفارتی تجزیے ارسال کرتے ہیں۔ کسی شہر یا ملک کو کور کرنے کیلئے آئے بیرونی میڈیا کا نمائندہ بھی مقامی اخباروں و چینلز کو اپنی کوریج کیلئے ایشوز کو جاننے اور پرکھنے کیلئے استعمال کرتا ہے۔ میڈیا ایک ایسا میدان ہے، جس میں صحیح عکاسی کرنے کیلئے سماج کے سبھی طبقات کی نمائندگی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ مگر اگرآپ بھارت میں ڈیوٹی دینے والے سفارت کار یا بیرون ملک میڈیا کے نمائندے ہیں اور آپ قومی میڈیا پر تکیہ کرکے اپنی رائے بناتے ہیں، تو سو فیصد یہ رائے یا تجزیہ غلط ہوگا۔ کیونکہ ابھی حال ہی میں مؤقرادارے آکسفیم انڈیا نے مختلف میڈیا کے اداروں کا سروے کرنے کے بعد اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ان میں سے صد فیصد کے مالکان یا ایڈیٹرز اونچی ذات کے ہندو ہیں، نیز یہ ادارے ملک کی اکثریتی آبادی کے مسائل کی اصل صورت حال کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ جنوبی بھارت کے دکن ہیرالڈ میڈیا گروپ کے علاوہ بقیہ سبھی میڈیا کے گروپ ، چاہے وہ ٹائمز آف انڈیا ہو یا انڈین ایکسپریس یا زی یا آج گروپ، سبھی ویشیہ یا بنیا ذات کے افراد کی ملکیت ہیں۔

برہمن، چھتری (راجپوت) ویشیہ (بنیا) اونچی ذات کے زمرے میں آتے ہیں، جن کا کل آبادی میں حصہ بالترتیب 3.5فیصد، 5.5فیصد اور 6فیصد ہے۔ یعنی یہ کل آبادی کا محض 15فیصد ہیں۔ جبکہ بقیہ 85فیصد آبادی دلت، قبائلی (آدی واسی) ، دیگر پسماندہ طبقات (مڈل کاسٹ) اور اقلیتوں پر مشتمل ہے۔ آکسفیم کے بقول سال 2022 میں مختلف نیوز رومز میں 121 اونچے ادارتی عہدوں پر فائز افراد جن میں ایڈیٹر انچیف، مینیجنگ ایڈیٹر، ایگزیکٹو ایڈیٹر، بیورو چیف، ان پٹ/آؤٹ پٹ ایڈیٹر وغیرہ شامل ہیں کا جب انہوں نے جائزہ لیا، تو پتہ چلا کہ ان میں سے 106اونچی ذات کے اور پانچ افراد مڈل کاسٹ یا دیگر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتے تھے۔ ہندی ٹی وی چینلوں کے سبھی 40اینکرز اور انگریزی کے سبھی 47اینکرز اونچی ذات کے تھے۔ ان میں دلت یا آدی واسی کوئی نہیں تھا۔ یعنی بھارت کی اکثریتی آبادی کا قومی میڈیا کی اداراتی لیڈرشپ میں کہیں وجود ہی نہیں ہے۔ مزید یہ کہ پرائم ٹائم شو میں بحث و مباحثہ کیلئے جن افراد کو بلایا گیا تھا ، ان میں سے 70فیصد اونچی ذات کے تھے۔

انگریزی اخبارو ں کے جائزے میں بتایا گیا کہ ایک سال میں ادارتی صفحات کے بس پانچ فیصد حصہ میں دلت مصنفین کو جگہ دی گئی۔ہندی اخبارات میں یہ شرح کچھ بہتر یعنی 10 فیصد تھی۔ بارہ میگزینوں میں شائع 972کور اسٹوریز میں صرف دس ہی نچلی ذاتوں کے ایشوز پر لکھے گئے تھے۔ ادارتی ملازمین میں انگریزی اخباروں میں نچلی ذات کا کوئی فرد نہیں تھا۔ ہندی اخباروں میں دلت برادری کا تناسب 3.23فیصد، انگریزی کے نیوز چینلوں میں 1.64فیصد، ہندی نیوز چینلوں میں 1.61 فیصد، میگزینوں میں 3.57فیصد اور ڈیجیٹل میڈیا میں 11.1فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق بھارت کی اکثریتی آبادی نیوز میڈیا میں غیر حاضر ہیں۔ میڈیا کے مالکان یا مدیروں نے نیوز رومز میں پسماندہ طبقات کو شامل کرنے اور نیوز رومز میں مساوی نمائندگی پیدا کرنے کے لیے دیانتدارانہ کوششیں نہیں کیں۔ یہ دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے کہ میڈیا، دلتوں، آدیواسیوں اور دیگر پسماندہ گروہوں کو نہ صرف نیوز رومز میں نوکریاں دینے بلکہ انکے ایشوز کو بھی جگہ دینے میں ناکام رہا ہے۔

 آکسفیم انڈیا کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر امیتابھ بہار کا کہنا ہے کہ تنوع کے بغیر جمہوریت کے کوئی معنی نہیں ، اسلئے صرف چند ذاتوں کے غلبہ والا میڈیا اس کی روح کو متاثر کرتا ہے۔ یہ بھارتی جمہوریت کے معیار پر ایک خوفناک تبصرہ ہے۔ ذات پات کی بنیاد پر ہونے والے مظالم اور آدی واسی آبادی کے استحصال پر ہونے والی کوریج و بحث و مباحثوں کا جائزہ لیتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انگریزی چینل NDTV نے ان ایشوز پرسب سے زیادہ (3.6%) مباحثے دکھائے، نیوز 18 اور ریپبلک بھارت نے کوئی نہیں دکھایا۔ ABP نیوز کا حصہ 2.4% تھا، اس کے بعد آج تک کا 1.8%، سنسد یعنی بھارتی پارلیمان کے اپنے ٹی وی چینل کا 1.3%، زی نیوز کا 1.3% اور انڈیا ٹی وی کا صرف 0.8% حصہ تھا۔ تحقیقی ٹیم نے سات انگریزی اخبارات کی بائی لائنز کا جائزہ لیا ۔ معلوم ہوا کہ دی ہندو اور دی انڈین ایکسپریس کے علاوہ تقریباً تمام انگریزی اخبارات میں اونچی ذاتوں کے رپورٹروں کی بائی لائنز 60 فیصد سے زائد تھیں۔ تقریباً تمام اخبارات میںدلت صحافیوں کی تعداد 4 فیصد سے بھی کم پائی گئی ۔ادارتی صفحات میں،دیگر پسماندہ طبقات یعنی مڈل کاسٹ کے صحافیوں کی نمائندگی 9-12 فیصد تھی۔

ڈیجیٹل نیوز پورٹلز میں بھی بائی لائنز پر اونچی ذات کے صحافیوں کا غلبہ تھا ۔ سروے میں شامل 10 ڈیجیٹل میڈیا آؤٹ لیٹس میں سے چھ میں کوئی دلت مصنف نہیں تھا، سات ڈیجیٹل پلیٹ فارمز میں آدی واسی کمیونٹی سے کوئی صحافی نہیں تھا۔ پسماندہ برادریوں کو درپیش چیلنجوں کو سمجھنے کے لیے، آکسفیم انڈیا کے محقیقین نے 22 دلت اور آدی واسی صحافیوں سے ملاقاتیں کی۔ معلوم ہوا کہ قلیل تعداد ہونے کے علاوہ ان کو نیوز رومز میں امتیازی سلوک کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، جو ان کے لئے ایذا رسانی سے کم نہیں ہوتا ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ اونچی ذات کے افراد بڑے میڈیا ہاؤسز کے گیٹ کیپر کے طور پر کام کرتے ہیں اور وہ دیگر طبقات کیلئے رسائی مشکل بناتے ہیں۔

 ایک صحافی نے معروف چینل این ڈی ٹی وی کی مثال دی، جو لبرل تصور کیا جاتا ہے اور نچلے طبقات پر پروگرام بھی کرتا ہے، مگر اپنے نیوز رومز میں ان طبقات کے صحافیوں کو جگہ نہیں دیتا ہے۔جس کا مجھے خود بھی تجربہ ہوچکا ہے۔ میں نے ایک بار اس چینل کیلئے ٹیسٹ وغیرہ پاس تو کیا تھا، مگر بعد میں انٹرویو کے وقت بتایا گیا ، کہ میں جموں و کشمیر کے اسوقت کے وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ سے چینل کے مالک کو فون کرواکے یا اس کے نام سفارش لکھوا لوں، جو میرے بس سے باہر تھا۔ اس چینل کیلئے مشہور تھا کہ اس میں بس اعلیٰ سرکاری افسران یا سیاستدانوں کے بچوں کو ہی ادارتی ذمہ داریوں کیلئے نوکریاں ملتی ہیں۔ ایک دلت صحافی نے بتایا کہ ایک معروف یوٹیوب چینل نے ان کو ایک بار نیوز ریڈر کیلئے منتخب کیا،مگر جب معلوم ہوا کہ وہ دلت ہیں تو پھر ان کوتربیت کیلئے نہیں بلایا۔

 دی وائس میڈیا کی بانی اور ایڈیٹر ببیتا گوتم نے اس رپورٹ کے خالقوں کو بتایا کہ پسماندہ طبقات کے صحافی جو پہلے ہی سماجی، اقتصادی اور ثقافتی صدمے سے دوچار ہوتے ہیں ، اس طرح رویہ ان کی خود اعتمادی کو بری طرح متاثر کرتے ہیں ۔ ایک اور دلت صحافی نے بتایا کہ ان کو بریکنگ یا بڑی اسٹوریز کرنے نہیں دیا جاتا ہے ۔ ان صحافیوں نے کہا کہ امتیازی سلوک نے ان کے کام اور دماغی صحت دونوں کو متاثر کیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر صبح ان کو نیوز روم کے زہریلے ماحول کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ایک خاتون دلت صحافی نے یہ تک کہا کہ بسا اوقات اس کے دماغ میں خودکشی کے خیالات آتے ہیں اور کوئی بصیرت یا مدد فراہم کرنے والا نہیں ہے ۔ اس کے علاہ پیشہ ورانہ کیریئر میں ہر وقت اپنی ساکھ ثابت کرنا پڑتی ہے ۔

اب آپ اندازہ کریں کہ اس میڈیا کے اداریوں، خبروں اور بین السطور کا مطالعہ کرکے اگر اپ بھارت کے حالات کا ادراک کرکے اس ملک کے ماہر کی حثیت سے اپنے آپ کو متعارف کروایں ، تو اس مہارت کا کیا حال ہوگا ۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com