شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اب سوال یہ ہے کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہے؟ اس سلسلہ میں چند نکات عرض کئے جاتے ہیں:
(۱) نوجوان فضلاء کو سوچ سمجھ کر دینی خدمت کے میدان میں قدم رکھنا چاہئے، ان کے سامنے اپنے معاصرین اور بزرگوں کے تجربات ہیں، اگر وہ اس کو برداشت کر سکتے ہیں، تب تو دینی خدمت کے راستہ میں آئیں، نہیں تو معاش کے لئے کوئی اور راستہ اختیار کر لیں اور حسب سہولت اپنے علم وعمل کے ذریعہ لوگوں کو فائدہ پہنچائیں، دینی خدمت کی حیثیت ان کے لئے ایک ضمنی کام کی ہو، اصل کام کی نہ ہو، اپنی مرضی سے اس راہ میں آنا اور پھر دوسروں سے شکوہ سنج ہونا کوئی معقول بات نہیں ہے، اور اس سے طبقۂ علماء کا وقار مجروح ہوتا ہے۔
(۲) دینی خدمت کرتے ہوئے الگ سے کوئی چھوٹی موٹی تجارت یا صنعت کو اختیار کرلیں، اس سے ان شاء اللہ معاشی تنگ حالی کا تدارک ہو سکتا ہے، سلف صالحین کے یہاں اس کی ڈھیر ساری مثالیں موجود ہیں، امام قدوریؒ جیسے فقیہ ہانڈی بنانے کا کام کرتے تھے، امام ابو بکر جصاصؒکو تو چونے کا کام کرنے کی وجہ سے ہی جصّاص کہا جاتا ہے، زیّات کا معنی تیل نکالنے والے یا فروخت کرنے والے کے ہیں، اسی نسبت سے امام زیات معروف ہیں، جو بڑے عالم تھے، امام ابو حنیفہؒ ریشمی کپڑوں کے تاجر تھے، اس سے اوپر جائیں تو حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا شمار بڑے تاجروں میں تھا، حضرت عمرؓ بھی تجارت کرتے تھے ، اس سے اور اوپر جائیں تو بہت سے انبیاء کے بارے میں بھی منقول ہے کہ وہ صنعت وحرفت سے فائدہ اٹھاتے تھے، حضرت آدم علیہ السلام زراعت کرتے تھے، حضرت ادریس علیہ السلام خیاطی کرتے تھے، حضرت داؤد علیہ السلام زِرہیں بنایا کرتے تھے اور مویشی پالن کا کام ارشاد نبوی کے مطابق تقریباََ تمام ہی انبیاء کرام نے کیا ہے، آپ علیہ السلام نے ہنر جاننے والے مسلمان کی تعریف فرمائی ہے: ان اللہ یحب المؤمن المحترف(الترغیب والترہیب، حدیث نمبر: ۲۳۳۵، بحوالہ طبرانی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: طاقت ور مومن کمزور مومن سے بہتر ہے: المؤمن القوي خیر من المؤمن الضعیف(مسلم، حدیث نمبر: ۲۶۶۴) طاقت صرف جسمانی ہی نہیں ہوتی ہے، علم وفضل اور ہنر کی بھی ہوتی ہے، گویا آپ کے اس ارشاد میں ہنر مند مسلمان کی بھی تعریف کی گئی ہے۔
موجودہ دور میں بہت سے پیشہ وارانہ کورسس شروع ہوئے ہیں، جن کو مدارس کے اساتذہ اور مساجد کے خدام گھنٹے دو گھنٹے لگا کر انجام دے سکتے ہیں، جن علماء کے لئے اپنی خدمت کا مقررہ معاوضہ کافی نہیں ہے، وہ ایسے ہنر سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، ہم لوگوں نے اپنی طالب علمی میں دیکھا ہے کہ بعض اساتذہ عصر کے بعد اپنے کتب خانہ میں بیٹھ کر کتابیں فروخت کرتے تھے اور بعض کتابت کرتے تھے، بعض جلد سازی کرتے تھے، بعض دیسی علاج سے لوگوں کی خدمت کرتے تھے؛ ٹکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے اب تو ہنر کا میدان اور وسیع ہو گیا ہے، جس کے ذریعہ کوئی بھی آدمی اپنی آمدنی میں مناسب اضافہ کر سکتا ہے، بڑھاپے کی عمر میں کسی نئی چیز کا سیکھنا بہت مشکل ہوتا ہے؛ لیکن جوانی کی عمر میں سیکھنا مشکل نہیں ہوتا، اب یہی دیکھئے کہ کتابت کی جگہ کمپوزنگ نے لے لی اور کمپیوٹر کے ذریعہ کتنے سارے کام کئے جا سکتے ہیں، کتابت کے، ڈیزائننگ کے، بحث وتحقیق کے، ترجمہ کے وغیرہ وغیرہ، اسی طرح آن لائن تدریس اور آن لائن تجارت کا راستہ کھل گیا ہے، جس سے بہت سے نوجوان علماء وابستہ ہیں، اور میں نے سنا کہ یہ کام بہت کم پیسوں میں اور بہت کم وقت میں ہو جاتا ہے، اللہ کا شکر ہے کہ اس طرح کے بہت سارے کام موجودہ دور میں پیدا ہو گئے ہیں جو خادمین دین کے لئے تقویت کا باعث ہو سکتے ہیں۔
(۳) اس سلسلہ میں سب سے اہم ذمہ داری اولیاء اور سرپرستوں کی ہے، جو شخص اپنے بچوں کو دینی تعلیم میں لگاتا ہے تو یقیناََ اس پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مستقبل میں اس کی یہ اولاد معاشی اعتبار سے کمزور ہوگی تو اس کو چاہئے کہ وہ اگر تجارت یا کاروبار میں ہے تو یا تو اپنی اس اولاد کو آئندہ عملی طور پر کاروبار میں شریک کرلے، یا اپنی طرف سے ایک حصہ جیسے پندرہ فیصد ، دس فیصد اس کو ہبہ کر دے اور نفع کا اتنا حصہ اس اولاد کو دے، اور دوسرے بچوں کو سمجھادے کہ چوں کہ تمہارا یہ بھائی آئندہ دین کی خدمت کرے گا اور اس کا ثواب ہم سبھوں کو پہنچے گا؛ اس لئے تم اس کا برا نہیں مانوگے ؛ تاکہ وہ اپنے تمام بھائی بہنوں کے ساتھ سر اُٹھا کر زندگی گزار سکے، جہاں ہم دینی تعلیم دلانے کی ترغیب دلاتے ہیں، وہیں سرپرستوں کو اس کی ترغیب بھی دیں اور اگر کوئی شخص اپنی جائیداد میں سے کچھ حصہ کسی خاص مصلحت کی وجہ سے اولاد میں سے کسی ایک کو ہبہ کر دے تو اس کی گنجائش ہے۔
(۴) ان سب کے علاوہ مدارس کی انتظامی کمیٹیوں کو بھی خوشنما اور پُر شکوہ تعمیرات اور عظیم الشان جلسوں کی بھیڑ کے مقابلہ اساتذہ کی ضروریات پر زیادہ توجہ دینی چاہئے، ان کی تنخواہیں بڑھائی جائیں، ان کے لئے فیملی کے ساتھ رہائش کا انتظام کیا جائے؛ تاکہ وہ کرایہ کے بوجھ سے بچ سکیں، زیادہ خرچ طلب بیماریوں میں ان کا تعاون کیا جائے، چھوٹی موٹی بیماریوں کے علاج کے لئے یا تو مدرسہ میں کلینک کھولی جائے یا کسی پرائیویٹ کلینک سے رابطہ رکھا جائے، جہاں سے ان کو سستی دوا فراہم ہو سکے، جہاں غلہ کی وصولی طلبہ کی خوراک سے بڑھ کر ہوتی ہو، وہاں رعایتی نرخ پر اساتذہ کو غلہ فراہم کیا جائے، اسی طرح ایسا فنڈ مقرر کرنے کی کوشش کی جائے جس سے اساتذہ چھوٹے موٹے کاروبار کے لئے قرض حاصل کر سکیں اور اس کو آسان قسطوں میں ادا کر سکیں۔
(۵) مساجد کا تعلق چوں کہ براہ راست عوام میں صاحب ثروت شخصیتوں سے ہوتا ہے؛ اس لئے ان کو اور زیادہ توجہ کی ضرورت ہے، وہ جزوی طور پر ائمہ کو تجارت کے لئے سہولتیں مہیا کر سکتے ہیں، مثلاََ مسجدوں میں اکثر ملگیاں بنائی جاتی ہیں، کوشش کی جائے کہ وہاں دو ملگیاں خدام مسجد کو دی جائیں، اس کی کرایہ داری ان کے نام منتقل نہ کی جائے؛ کیوں کہ آج کل مساجد کی املاک کو لوگ اپنی ملکیت سمجھنے لگتے ہیں، اگر کرایہ داری ان کے نام کر دی جائے اور خادمین مسجد وہاں سے استعفاء دے دیں تو واپس لینا دشوار ہو جائے گا، اور جن دیگر حضرات سے یہ خدمت متعلق ہوگی پھر وہ اس سہولت سے محروم ہو جائیں گے؛ اس لئے امام ومؤذن کو زبانی طور پر کرایہ دار بنا دیا جائے اور ان سے رعایتی کرایہ لیا جائے۔
(۶) مدارس کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ وہ تعلیم کو مختلف مراحل میں تقسیم کریں اور ہر مرحلہ کے لئے الگ الگ سند جاری کریں، جیسا کہ بعض درسگاہوں میں ہے، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جو ذہنی صلاحیت اور مالی استطاعت کے لحاظ سے فضیلت تک پڑھنے کے لائق نہیں ہوں گے، وہ نیچے کے مرحلہ کو مکمل کر کے دین کی ایسی خدمت میں مصروف ہو جائیں گے، جس کے لئے ان کی یہ استعداد کافی ہو جائے، یہ بات قابل غور ہے کہ نورانی قاعدہ اور عربی وفارسی کی ابتدائی کتاب پڑھانے والوں کو تفسیر وحدیث کی اعلیٰ کتابوں کے پڑھنے کا مکلف کیوں بنایا جائے؟ وہ کوئی ہنر سیکھ کر بے تکلف اس کو اپنا ذریعۂ معاش بھی بنا سکیں گے، ایسی صورت میں ان کو اپنی نسبتاََ کم تنخواہ پر قناعت کرنا آسان ہو جائے گا، اور حالاں کہ پیشہ وارانہ کاموں کو انجام دینے میں کوئی بے عزتی نہیں ہے؛ لیکن رواج اور ماحول کے لحاظ سے وہ جو شرمندگی محسوس کرتے ہیں، وہ بھی نہیں ہوگی۔
(۷) اب ضرورت ہے کہ مدارس میں بھی فنی تعلیم دی جائے، دارالعلوم دیوبند میں اس کے لئے پہلے دارالصنائع قائم تھا، جس کے تحت مختلف قسم کی فنی تعلیم فراہم کی جاتی تھی، طبیہ کالج بھی تھا، جس سے بہت سے فضلاء نے طب یونانی کی تعلیم حاصل کی، اب نہ صرف ان شعبوں کو واپس لانے کی ضرورت ہے؛ بلکہ فنی ماہرین کے مشورہ سے اضافہ کی ضرورت بھی ہے ؛ تاکہ جب طلبہ فارغ ہوں، ان کو کہیں ایسی جگہ کام کرنے کی ضرورت پیش آئے، جہاں تنخواہ کم ہو تو ان صلاحیتوں سے کچھ زائد آمدنی کا انتظام ہو سکے اور وہ استغناء کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکیں۔
حاصل یہ ہے کہ:
(الف) دینی مدارس ہمارے ملک میں اسلام کے بقا کا ذریعہ ہیں اور اساتذہ اس کی روح ہیں؛ اس لئے ہر قیمت پر ہمیں مدارس کو تقویت پہنچانی چاہئے۔
(ب) مدارس کی انتظامیہ کو چاہئے کہ طلبہ واساتذہ کی ضروریات کو اپنی توجہات کا اولین ہدف بنائیں۔
(ج) فضلاء کو چاہئے کہ وہ تعلیمی ودینی ضرورت کے لئے مدارس اس طرح قائم نہ کریں کہ لوگوں کو خیال ہو کہ بطور ذریعہ معاش یہ ادارے قائم کئے جارہے ہیں۔
(د) جن لوگوں میں اس راہ کی دشواریوں کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہے، وہ اس راستہ کا انتخاب نہیں کریں؛ بلکہ دوسرا ذریعۂ معاش اختیار کر کے ضمنی طور پر حسب موقع اور حسب صلاحیت دینی خدمت انجام دیں۔
(ہ) اخبارات میں یا سوشل میڈیا پر اپنی معاشی تنگ دستی کا ذکر کر کے اپنے وقار کو ٹھیس نہ پہنچائیں، اس کی وجہ سے کوئی مدد کے لئے ہاتھ تو نہیں بڑھائے گا؛ لیکن خود اپنی رسوائی ہوگی اور علماء کی قدرومنزلت عوام کے دل میں کم ہو جائے گی۔
(و) خاندان کے لوگ بھی اپنی صف سے اٹھنے والے عالم دین کے ساتھ خصوصی ہمدردانہ سلوک کریں اور ان کو معاشی اعتبار سے تقویت پہنچائیں۔
(ز) موجودہ حالات میں مدارس کے وسائل آمدنی کو متأثر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، چرم قربانی کی آمدنی تقریباََ ختم ہوگئی، مدارس کی اصل آمدنی تجار حضرات سے ہوتی ہے، ان کا کاروبار بھی متأثر ہے اور وہ دینی کاموں کی مدد کرنے میں قانونی دشواریاں بھی محسوس کرتے ہیں؛ اس لئے اصحاب خیر کا فریضہ ہے کہ وہ پہلے اداروں کے بارے میں اچھی طرح تحقیق کر لیں ، اگر ممکن ہو تو خود جا کر دیکھ لیں،اور مطمئن ہونے کے بعد پھر زیادہ سے زیادہ اُن کا تعاون کریں۔