شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
ادھر ملک میں معصوم اور کمسن لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کثرت سے پیش آرہے ہیں، ہر دن کے اخبار میں ایسی شرمناک اور تکلیف دہ خبریں موجود ہوتی ہیں ، اخبار کے ایک حصہ میں گزشتہ واقعات پر ملامت ہوتی ہے اور دوسرے حصے میں اسی نوعیت کا تازہ واقعہ ہوتا ہے ، افسوسناک بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے واقعات کو بھی تعصب کی عینک سے دیکھتے ہیں ، اور مذہب و خاندان کی بنیاد پر ان واقعات کی برائی کو ناپتے ہیں ، اس پس منظر میں جگہ جگہ احتجاج ہو رہے ہیں ، مذمتی بیانات آرہے ہیں ، اور ایسے واقعات کے سد باب کے لئے تجویزیں پیش کی جارہی ہیں ؛ لیکن ان سارے بیانات اور احتجاجات کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہم جڑ اور بنیاد تک پہنچنے کی بجائے صرف اوپر کی سطح پر مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں ، اگر کیڑا درخت کی جڑوں کو کھا رہا ہو اور یہ دیکھ کر کہ درخت کے پتے سوکھ رہے ہیں ، پتوں پر دوا کا چھڑکاؤ کیا جائے تو کیا اس سے پتوں کو سوکھنے سے روکا جا سکے گا اور درخت کی حفاظت ہوسکے گی ؛ اس لئے ان بنیادی اسباب ومحرکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے ، جو سماج میں ایسے حادثات کو جنم دیتے ہیں ۔
جنسی جرائم پر جو چیز نوجوانوں کو ورغلاتی ہے ، ان میں سب سے اہم لباس کا مسئلہ ہے ، نیم برہنہ لباس جس میں بازو کھلے ہوں ، پنڈلیاں کھلی ہوں ، سینہ اور پشت کو خاص کر کھلا رکھا گیا ہو ، ایک طرح سے بگڑے ہوئے لوگوں کے لئے گناہ کی دعوت ہے ، پھر اس کے ساتھ ساتھ چست لباس جس سے سر سے پاؤں تک جسم کا ایک ایک نشیب و فراز نمایاں ہو اور اس نمائش کو دو آتشہ کرنے کیے لئے اونچی ایڑیوں کی چپلیں آگ پر تیل ڈالنے کا کام کرتی ہیں ، اور یہ قانون فطرت ہے ، آپ مٹھائی کو چھپائیں نہیں اور مکھیوں سے شکایت کریں کہ وہ کیوں ان پر ٹوٹ پڑتی ہیں ؟ گوشت کا ٹکڑا سر راہ پھینک دیں اور پھر کتوں سے اُمید رکھیں کہ وہ ان کو منھ نہ لگائیں گے ، اس سے بڑھ کر بے وقوفی اور کیا ہوگی ؟ اس لئے حکومت کو ایسا قانون بنانا چاہئے کہ اسکول میں پڑھنے والی لڑکیاں ، آفسوں میں جاب کرنے والی خواتین اور مارکیٹ میں نکلنے والی عورتیں خاص طور پر ایسا لباس پہنیں جو ڈھیلا ڈھالا اور ساتر ہو ، مذہب سے قطع نظر انسانی بنیادوں پر اس طرح کا قانون بنانا چا ہئے ۔
بعض بزعم خود دانشور خواتین کہتی ہیں کہ ہم اپنے جسم کے آپ مالک ہیں ، کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ ہمیں جسم کی نمائش سے منع کرے ، کچھ عرصہ پہلے پڑوسی ملک پاکستان میں بھی عورتوں نے اس قسم کے نعرے لگائے ، اور اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ لے کر سخت احتجاج کیا ، انھیں یہ بات سمجھنی چاہئے کہ آپ زیادہ سے زیادہ کمرے کی تنہائی میں اپنے جسم کی مالک ہیں ؛ کیوں کہ آپ کے جسم کی نمائش سے دوسروں کے اخلاق یا جذبات متأثر نہیں ہوتے ؛ لیکن جب آپ اپنے گھر سے باہر نکلتی ہیں ، تو آپ کے اس عمل سے دوسروں کے جذبات بھی متعلق ہو جاتے ہیں ؛ اس لئے وہاں صرف آپ اپنی مرضی پرعمل نہیں کر سکتیں ، نربھیا واقعہ کے بعد اس حقیر کو ایک موضوع پر منعقد ہونے والے ایک بین مذہبی پروگرام میں شرکت کا موقع ملا ، جس میں بڑی تعداد میں خواتین بھی موجود تھیں ، میں نے اپنی گفتگو میں واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک مشورہ اپنی بہنوں کو دینا چاہتا ہوں کہ وہ ڈھکا چھپا ڈھیلا ڈھالا لباس پہنیں ؛ تاکہ آوارہ مزاج قسم کے لوگوں کے لئے ان کا لباس جرم کا محرک نہ بن سکے تو کچھ خواتین بہت ناراض ہو کر کھڑی ہو گئیں ، اور کہنے لگیں : آپ ملاؤوں کی یہی سوچ ہے کہ مرد تو اپنے جسم کے بارے میں آزاد ہوں اور عورتوں کو پابند کیا جائے ، میں نے عرض کیا : ہماری سوچ تو یہ ہے کہ مردوں کو بھی اپنے لحاظ سے ساتر لباس پہننا چاہئے ، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں آج کل عموماً لڑکوں کا لباس لڑکیوں کے مقابلہ میں ڈھیلا ڈھالا ہوتا ہے ، اور پورا جسم ڈھکا ہوا ہوتا ہے ، زیادہ تر خواتین ہی کے لباس میں اس کی کمی ہوتی ہے ، دوسرے : مرد خود اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، وہ عورتوں سے مطالبہ نہیں کرتے کہ وہ ان کا تحفظ کریں ، اگر آپ اپنے آپ کو مکمل طور پر اس معاملہ میں برابر سمجھتی ہیں تو آپ دوسروں سے اپنے تحفظ کا مطالبہ کیوں کرتی ہیں ، اور کیوں مردوں کی زیادتی کا رونا روتی ہیں ؟ ہر مرد کی ماں ، بیوی ، بیٹی اور بہن عورت ہی ہوتی ہے ؛ اس لئے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ جو لوگ اس طرح کا مشورہ دیتے ہیں ، وہ عورتوں کے مخالف ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ وہی آپ کے خیر خواہ ہیں ۔
شریعت میں اسی لئے ساتر لباس پر زور دیا گیا ہے ، خواہ مرد ہو یا عورت ، قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام وحوا علیہا السلام جنت سے نکالے گئے اور جنت کا لباس ان کے جسم سے اتر گیا تو وہ اپنے جسم کو ڈھکنے لگے ؛ حالاںکہ وہاں ان دونوں حضرات کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا، اس سے معلوم ہوا کہ برہنگی فطرت انسانی کے خلاف ہے ، اور ستر پوشی انسان کی فطرت میں داخل ہے ، لباس کا مقصد ہی یہی ہے کہ وہ جسم کے چھپانے کے لائق حصوں کو چھپا کر رکھے: یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِیْشًا (اعراف: ۲۵)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بہت سی عورتیں یوں تو لباس میں ہوں گی ؛ لیکن وہ بےلباس ہونے کے درجہ میں ہوں گی ، جو خود دوسروں سے آشنائی کریں گی ، اور دوسروں کو اپنا آشنا بنانے کی کوشش کریں گی ، وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی ؛ بلکہ اس کی خوشبو بھی نہیں پاسکیں گی ؛ حالاں کہ اس کی خوشبو پانچ سو سال کے فاصلہ سے سونگھی جا سکتی ہے : نساء کاسیات عاریات مائلات ممیلات (بیہقی ، حدیث نمبر: ۷۴۱۳)
عورتوں کی طرف مردوں کا میلان عورتوں کا عیب نہیں ہے ؛ بلکہ یہ وہ غیر معمولی کشش ہے ، جو اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر رکھی ہے ، مردوں میں ایسی کشش نہیں رکھی گئی ہے ؛ اس لئے عورتوں کا لباس زیادہ ڈھکا چھپا اور محتاط ہونا چاہئے ؛ تاکہ وہ آوارہ طبیعت مردوں کے شرور سے محفوظ رہ سکیں ، جو لوگ عورتوں کے لئے ساتر لباس کی بات کرتے ہیں ، وہی ان کے حقیقی خیر خواہ ہیں، اور جو لوگ عورتوں کی عریانیت کی وکالت کرتے ہیں، وہ حقیقت میں عورتوں کے دشمن ہیں، اور چاہتے ہیں کہ عورتیں مردوں کا کھلونا اور ان کی ہوس کی تکمیل کا ذریعہ بنتی رہیں ۔
دوسری ضروری چیز مردوں اور عورتوں کے اختلاط کو روکنا ہے ، آج کل آزادیٔ نسواں کے نام پر مخلوط ماحول کو ترقی کی علامت سمجھ لیا گیا ہے ، اسکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں میں شروع سے لے کر آخر تک تمام تعلیمی مراحل میں مخلوط نظام رکھا جاتا ہے ؛ حالاں کہ میڈل اسکول کے بعد سے لے کر یونیورسٹیوں کے مرحلہ تک طلبہ وطالبات کی جو عمر ہوتی ہے ، وہی عنفوان شباب کی عمر ہے ، جس میں بہکنے اور بگڑنے کے کافی اندیشے ہوتے ہیں ، پھر کاروباری اور سرکاری اداروں کے دفاتر میں بھی یہی مخلوط ماحول ہوتا ہے ، حد تو یہ ہے کہ پہلے خواتین کو نائٹ ڈیوٹی سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا ؛ لیکن اب یہ پابندی بھی ختم کردی گئی ، رات گئے جو کال سینٹر مغربی ملکوں کے اوقات کے لحاظ سے چلتے ہیں ، ان میں بھی لڑکوں اور لڑکیوں کی مشترک ڈیوٹی ہوتی ہے ، ملازمین کو آفس تک لانے اور لے جانے کے لئے جو گاڑیاں ہوتی ہیں ، ان میں بھی مردو عورت ملازمین ایک ساتھ جاتے ہیں، ہر ہر مرحلہ پر مردوں اور عورتوں کا یہ اختلاط اخلاقی اقدار کے لئے سمِ قاتل ہے ، اور اس صورت حال کو برقرار کھتے ہوئے پاکیزہ ماحول کی اُمید رکھنا فطرت کے خلاف ہے ، اگر آپ ایک ہی جگہ پٹرول بھی رکھیں اور آگ بھی اور اُمید رکھیں کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے بے تعلق رہیں گے تو اس سے بڑی بھول اور کیا ہوگی ؟ افسوس کہ جو لوگ مادی معاملات میں ایسے مواقع سے بچتے ہیں اور پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں ، وہی دینی اور اخلاقی معاملات میں اس اُصول کو خاطر میں نہیں لاتے ۔
اسلام نے قدم قدم پر جو اِن غیر محرم مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط کو روکنے کا نظام رکھا ہے، رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات تمام اُمت کی مائیں تھیں ، ان سے متعلق دل میں کوئی نازیبا خیال لانا بھی ناقابل تصور تھا ، پھر بھی قرآن مجید نے صحابہ کو تاکید کی کہ اگر تم کو ان سے کوئی سامان مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو: وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ (احزاب: ۵۳) مسجد عبادت کی جگہ ہے جہاں لوگوں کے دل ودماغ میں پاکیزگی کا غلبہ ہوتا ہے، اور رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں خواتین مسجد میں نماز ادا کیا کرتی تھیں ؛ تاکہ اللہ کی طرف سے جو نئے احکام آئیں ، اسے وہ بھی وہ سن سکیں ، نیز وہ اخلاقی بلندی کے اوج کمال کا زمانہ تھا، پھر بھی رسول اللہ ﷺ نے اختلاط کے مواقع کو روکنے کی پوری رعایت فرمائی ، خواتین کے لئے مسجد میں داخل ہونے کا دروازہ متعین کر دیا اور اس دروازہ سے مردوں کی آمدو رفت کو منع کر دیا گیا؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے ایک دروازہ کے بارے میں فرمایا کہ ہم اسے عورتوں کے لئے چھوڑ دیں ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے شاگرد نافعؒ کہتے ہیں کہ اس کے بعد اپنی وفات تک حضرت عبداللہ بن عمرؓ کبھی اس دروازے سے داخل نہیں ہوئے : لو ترکنا ھذا الباب للنساء (ابو داؤد، حدیث نمبر: ۴۸۴)
اسی طرح مردوں کی صف آگے رکھی گئی اور خواتین کی پیچھے ؛ بلکہ عورتوں کے لئے آخری صف کو سب سے بہتر صف قرار دیاگیا: خیر صفوف النساء آخرھا (مسلم، حدیث نمبر: ۶۶۴) اُم المؤمنین حضرت اُم سلمہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سلام پھیرتے تو آپ ﷺ اُٹھنے سے پہلے تھوڑی دیر ٹھہر جاتے، اس وقفہ میں خواتین اُٹھ جاتیں ، حدیث کے راوی ابن شہاب زہریؒ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں حضور ﷺ کا اس طرح ٹھہرنا اس لئے ہوتا تھا کہ مردوں کے نکلنے سے پہلے خواتین نکل جائیں ، (بخاری، حدیث نمبر: ۷۹۳) ایک بار ایسا ہوا کہ راستے میں گزرنے والے مردوں اور عورتوں کا مجمع خلط ملط ہو گیا تو آپ نے خواتین سے فرمایا کہ وہ ٹھہر جائیں اور بیچ راستہ سے چلنے کے بجائے کنارے کنارے چلیں : استأخرن …علیکن بحافات الطریق (ابو داؤد، حدیث نمبر: ۵۲۷۲)
فقہاء نے بھی قدم قدم پر اس کا خیال رکھا ہے ، مشہور حنفی فقیہ علامہ سرخسیؒ نے لکھا ہے کہ قاضی کو چاہئے کہ عورتوں کے لئے الگ پیشی رکھے اور مردوں کے لئے الگ؛ تاکہ مردوں اورعورتوں کے اختلاط کی نوبت نہ آئے :وینبغي للقاضي أن یقدم النساء علی حدۃ والرجال علی حدۃ الخ (مبسوط:۱۶؍۸) فقہ مالکی کی کتاب ’’الفواکہ الدوانی‘‘ میں ہے کہ
ولیمہ میں شرکت اسی وقت جائز ہے جب کہ وہاں کھلے طور پر خلاف شرع عمل جیسے مردوں اورعورتوں کا اختلاط نہ ہو :
ولا منکرین أي : مشھور ظاھر کاختلاط الرجال بالنساء ۔ (رسالۃ القیروانی مع شرحہ: ۲؍۳۲۲)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عورتوں پر جمعہ نہیں ہے ، امام ابو اسحاق شیرازی شافعیؒ نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ اگر عورتیں جمعہ میں شریک ہوں تو مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہوجائے گا : ولأنھا تختلط بالرجل وذلک لا یجوز (المہذب مع المجموع: ۴؍ ۳۵۰) اسی لئے خواتین کو نماز جنازہ میں شرکت سے روکا گیا کہ اگر وہ جلوس جنازہ میں شریک ہوں تو اختلاط کی نوبت آئے گی : فلو حملھا النساء لکان ذلک ذریعۃ إلیٰ اختلاطھن بالرجال (فتح الباری:۳؍۱۸۲) مشہور حنبلی فقیہ علامہ ابن قیمؒ نے لکھا ہے کہ حکمراں پر یہ بات ضروری ہے کہ وہ بازاروں میں، راستوں میں اور مجمعوں میں مردوں اور عورتوں کے اختلاط کو روکے :
وليّ الأمر یجب علیہ أن یمنع اختلاط الرجال بالنساء فی الأسواق والطرق ومجامع الرجال الخ ۔ (الطرق الحکمیۃ: ۲۳۷)
اس لئے حکومت کو چاہئے کہ جیسے ہاسپٹل میں مردوں اور عورتوں کے الگ الگ وارڈ ہیں ، ریلوے اسٹیشنوں پر الگ الگ ویٹنگ روم ہیں ، اسی طرح مڈل اسکول کے بعد تعلیم کے تمام مراحل میں طلبہ اور طالبات کے لئے جداگانہ نظام تعلیم ہو، مردوں اور عورتوں کے مشترکہ کاموں جیسے بینک وغیرہ میں مردوں اور عورتوں کے لئے الگ الگ کاؤنٹر رکھے جائیں، بسوں میں عورتوں کے لئے محفوظ سیٹیں ہوں، خواتین کو نائٹ ڈیوٹی سے منع کیا جائے، اگر اس طرح تعلیم، ملازمت، مارکیٹ وغیرہ کے لئے غیر مخلوط نظام قائم کر دیا جائے تو یہ نہ صرف عورتوں کے تحفظ کے لئے مفید ہوگا؛ بلکہ ان کے لئے ملازمت کے کثیر مواقع بھی مہیا ہوں گے، اور وہ دباؤ اور ذہنی تناؤ سے بچتے ہوئے اپنے فرائض انجام دے سک یں گی ۔ (جاری)