دیکھ کہ زمانہ چال قیامت کی چل گیا

حماد غزالی 

دور حاضر میں دنیا کے ہرخطے میں تیز رفتار اور وسیع الحرکت ذرائع ابلاغ وترسیل نےترقی پالی ہے،یہ نظام ہر قریہ اور بستی میں قائم ہے، ہرجگہ ہرذہن میں موجود ہے،اس نےاپنی طاقت تسلیم کروالی ہےکہ کسی بھی امرمیں لوگ اس کاسہارالیے بغیرنہیں چوک رہےہیں، وہ جس وقت جس طرح سے چاہےکسی واقعہ کو اپنے اندازمیں پیش کرسکتاہے،کسی بھی اہم واقعہ کو ہلکااور غیراہم بناکرلوگوں کےسامنے پیش کرسکتاہے،اسی طرح کسی بھی غیراہم کواہم بناکربھی ـ جیسے وطن عزیز میں مستقل یہ سب کچھ دیکھنےکومل رہاہے، کہ بےسروپا وبےحقیقت مبحث کوایک رخ مل جاتاہے اور قابل توجہ معاملات اندرکی اندرہی رہ جاتے ہیں۔
ابھی یوپی الیکشن ہونےکوہے، تیاریاں، ریلیاں، ملاقاتیں، رات دن چل رہی ہیں، ایک پارٹی دوسرے کےخلاف دست وگریباں ہے ہرایک کی یہ خواہش وکوشش ہےکہ کرسی اسے ہی ملے، وہی حقدار ہے، عوام کی پریشانی اور ان کی ضرورتوں سےکوئی سروکار نہیں ہےـ بس اپناکام بنناچاہیےخواہ اس کےلیےکوئی بھی روپ دھارنےکی ضرورت پیش آئے، لیڈران عوامی معاملات کوتہ تیغ کرکےاپنی انا کی فکر میں محو ہیں ،آج کل سیاسی انارکی کی بنا پر بعض منافق اور غیرمخلص پارٹیاں بعض مذہبی معاملات سے چھیڑ چھاڑ کر رہی ہیں، رام مندر بنانےکاناکام ارادہ بتاکر آپسی خلفشار مچانےمیں لگی ہیں، یہ تمام ترکارستانیاں میڈیاکی ہوتی ہیں کہ وہ کسی کوہائی لائٹ اورکسی کومدھم بنادیتی ہے،موجودہ دورکی میڈیاکےپاس مسلمانوں کےخلاف تمام ذرائع اوروسائل موجودہیں، آج کل ملحد غدار امن “طارق فتح” کوملک کی میڈیا چمپین بناکراسلام مخالف ماحول پیداکرنےکی ناکام کوشش کررہی ہے، اسلام اورمسلمانوں کےخلاف پروپیگنڈا کرنےاوران کےمابین انتشارکوجنم دینےکی جتنی بھی حربے ہوسکتے ہیں وم تمام ترحربے مغربی میڈیاکی راہ چلتےہوے دیسی میڈیا بھی استعمال کررہی ہے ؛جوکہ لائق مذمت ہے، حقیقت واقعہ کواس طرح سےتوڑمروڑ کرپیش کرتی ہےکہ عوام؛ بلکہ اسلامی ذہن رکھنے والےیہ سمجھنےلگتےہیں کہ “یہی درست ہے “ایسی صورت میں اسلام اورمسلمانوں سےبدظن ہونےکےلیے کیاچیز مانع ہوسکتی ہے؟ ذیل میں کچھ واقعات دیکھیے ـ
کئی مہینہ پہلےبھوپال انکاؤنٹر رونماہواجوکہ اندوہناک واقعہ سےکم نہیں تھا، ملک دشمن طاقتوں نےسازش رچ کر انکاؤنٹر کاعمل انجام دیا، اس میں اکثروہ ملزمین تھے جن کی بےگناہی ثابت ہوچکی تھی، چند ہی دن رہ گئے تھےکہ وہ بری ہوتے؛ لیکن معاملہ شرپسندوں نے بگاڑا جو ناقابل برداشت ہے؛حکومت بھی منصفانہ کارروائی سےآنکھیں چراتی رہی، تمام تررپورٹوں اور حجتوں سے یہی ثابت ہوا کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش اور مسلمانون کوبدنام کرنےکےلیے ایک حربہ تھا، جس کا خلاصہ ایک دیانت دار صحافی رویش کمارنے کیا اور ساری پول کھول دی؛ لیکن کرتے کیا ؟ حکومت توفاشسٹوں کےہی ہاتھ میں ہےـ اس وقت ہندوستان کی پوری میڈیا برادری اس واقعہ کو منصفانہ کارروائی اور ہندستان کی ترقی شمارکرنے میں جٹ کر اپنی دوغلی پالیسی کابین ثبوت فراہم کررہی تھی ـ
اس کےکچھ دن بعد ہی ہندوستان کی عظیم ترین یونیورسٹی “جےاین یو “کےممتازترین طالب علم کاواقعہ پیش آیا، ایک ماں سےاس کی ممتاچھین لی گئی، باپ کوبیٹے سےمحروم کردیا گیا، بہن کوبھائی سے الگ کردیاگیا؛لیکن حق کے متوالوں کا اس واقعہ پرسانپ سونگھا ہواتھا کسی نےبھی زبان حق گوئی سے کام نہ لیا؛ جوکہ ایک المیہ ہے، معاملہ وہیں پہنچا جہاں نہیں پہنچنا چاہیےتھا اسے بھی مسلم رنگ دےکر مخالفین یوں ہی ماحول میں کشیدگی پیداکرتے رہے اور میڈیانےپھروہی حرکت کی جواس دور کے غیردیانت دار میڈیاسےتوقع کی جاتی ہے، عجیب بات ہے کہ حملےمساجد پرہورہےہیں اورگرفتاریاں بھی مسلمانوں کی ہی ہورہی ہے؛ تاکہ لوگوں کےذہن ودماغ میں یہ رچ بس جائےکہ ظالم مسلمان ہی ہیں اورپرتشددمسلمان ہی ہوتےہیں کوئی اور نہیں،دنیاکاواحدنشریاتی ادارہ ہے “بی بی سی ” جو بہت ہی تحقیق وتفتیش اورناپ تول کرخبریں پیش کرتاہے، لوگوکوں اس پراعتماد بھی ہے، اس کامشاہدہ گاؤں میں ہوتاہے جب عمررسیدہ بزرگوں کے پاس اوقات گزارے جائیں ، اگرکوئی معاملہ ہوتوفوراہی ریڈیو آن کرکے” بی بی سی “کاچینل کنکٹ کرتےہیں پھر ممطئن ہوتےہیں؛ لیکن جب اسلام اورمسلمانوں سےجڑی کوئی بات پیش آتی ہے تویہ ادارہ بھی اپنااعتماد کھوتاہوانظرآتاہے، تحقیقات کوپس پشت ڈال کر عام میڈیاکی روش پرقایم ہوجاتاہے ـ قرآن وسنت اورتاریخ اسلامی کوہدف بناکر بےسروپام الزام عائد کیےجاتےہیں؛ جبکہ دوسرے سماج کی عورتوں اورنچلےطبقوں کےافراد پرناروا ظلم وزیادتی کی جاتی ہے وطن عزیز میں آئےدن کرائم وجرائم پرمشتمل ہزاروں واقعات پیش آتےہیں جومختلف النوع ہوتے ہیں، بہت سےمعاملات ناقابل معافی ہوتےہیں؛ لیکن اس وقت ضمیرفروش میڈیا کی آنکھیں بند اورزبان گنگ ہوجاتی ہیں؛ مگرجہاں کہیں مسلم سماج اورزوجین کےمابین مسائل ہوں توفورا ہی میدان میں کودپڑتے ہیں،اور ان واقعات کو ہوادیتےہیں اور غیراسلامی اہل قلم حضرات ان کی تائید مین اپنی قلمی صلاحیت رائیگاں کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں اوربغیرکسی رعایت وپاسداری کے مسلمانوں کےمقدسات پران کے قلموں کی نوک کھل جاتی ہے ـ مشرق ومغرب کی ساری ظلم وناہمواری خوبیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں،عورتوں کےساتھ نازیباسلوک اور زوجین کی کش مکش کوخیالی تصورکرتےہیں، یک طرفہ ومعاندانہ اقدامات سےمسلمانوں کےجذبات کومجروح کیاجاتاہےـ اگرمسلمان اپنےحقوق کی لڑائی لڑتاہے تو اس پرسختی برتی جاتی ہے اوردہشت گردکےالقابات سےنوازاجاتاہے ـ عرصہ ءحیات تنگ کیاجاتاہے، آزادی سلب کرنےکےلیے ہرممکن کوشش کی جاتی ہے ـ اورجب کوئی بےضمیر شخص اپنی شہرت یامفادات کی خاطر کوئی ایسامعاملہ اٹھاتا ہے جواسلام کےخلاف اور شرپسندوں کےلیےتسکین کاسامان ہوتاہے، تواسے بےانتہااہمیت دی جاتی ہے ـ اس کی بہترین مثال فی الوقت غدارامن “طارق فتح “ہے جسے خوب اہمیت دےکر میڈیا زہر ہلاہل کو قندبناکر ظاہر کررہی ہے،اورمسلمانوں کو اس پرخاموشی کی تلقین کی جاتی ہے ـ ان سےاتفاق کرنےوالےکوہی دیش بھگتی کی سرٹیفکٹ فراہم کرتےہیں بقیہ کوباغی قرار دیدیا جاتا ہے ـ
حالات حاضرہ کے تناظر میں یقینی طورپر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ موجودہ دور کے جتنے بھی نشریاتی ادارے ہیں ان میں شایدہی کوئی ایسا چینل ہو جہاں نسلی عداوت نہ ہواورمسلمانوں کامذاق نہ اڑایاجاتاہو ـ اسلام کےمقابلےمیں عام لوگوں کی رائےیہ ہونےلگی ہےکہ جوچیزیں انہیں ناپسندہیں وہ اسلامی ہیں؛ اس لیےضرورت اس بات کی ہےکہ ہمارے قائدین اپنی مشغولیات کوجاری رکھتے ہوئے اس پربھی توجہ دیں ؛تاکہ معاملہ کوتنکےکی صورت میں بآسانی حل کیاجاسکے نہیں توپہاڑکی صورت اختیارکرجانےکےبعد سوائے افسوس وندامت کےکچھ ہاتھ آئے نہیں گا، ایک منصف، اور مستحکم اسلامی نشریاتی ادارہ کا قیام ضروری معلوم ہوتا ہے؛ تاکہ اسکی حقیقت بیانی پر اعتماد کرکے کم ازکم بھولے بھالے مسلمان دشمنان اسلام کے جال میں پھنسنے سے بچیں اور باطل کے جملہ حربے ناکام ہو جائیں ـ

(مضمون نگار ماہنامہ نقوشِ حبیب ممبئی کے مدیر تحریر ہیں)