ایک بار پھر مساجد میں لاؤڈاسپیکر سے تیز آواز میں اذان دینے پر تنازعہ شروع ہو گیا ہے۔ اس بار معاملہ اتراکھنڈ کے ہریدوار کا ہے جہاں کی انتظامیہ نے 7 مساجد پر صوتی آلودگی کے لیے جرمانہ عائد کیا ہے۔ اس فیصلے پر جمعیۃ علماء اتراکھنڈ کے صدر مولانا محمد عارف نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور اسے پولرائزیشن کو فروغ دینے والا عمل قرار دیا ہے۔ حالانکہ انتظامیہ کا واضح الفاظ میں کہنا ہے کہ لاؤڈاسپیکر پر آواز بہت تیز تھی اسی لیے کارروائی کی گئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ہریدوار کے پاتھری پولیس اسٹیشن کے قریب والے کچھ علاقوں کی مساجد سے کہا گیا تھا کہ وہ لاؤڈاسپیکر پر کم آواز کے ساتھ اذان دیں۔ ایس ڈی ایم پورن سنگھ نے بتایا کہ مساجد کی انتظامیہ کو متنبہ کیا گیا تھا، لیکن اس پر توجہ نہیں دی گئی، نتیجہ کار مساجد پر 5 ہزار روپے کا جرمانہ لگایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 2 دیگر مساجد کو تنبیہ بھی دی گئی ہے کہ اگر وہاں بھی اذان کی آواز کم نہیں کی گئی تو ایسی ہی کارروائی ہوگی۔
اس معاملے میں مساجد سے جڑے علماء کا رد عمل بھی سامنے آیا ہے۔ کئی لوگوں نے اس جرمانہ کی شدید مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ مسلم طبقہ پر اس طرح سختی نہیں کی جانی چاہیے۔ مولانا محمد عارف کا کہنا ہے کہ ہر پولیس اسٹیشن میں میٹنگ کی گئی اور یہ فیصلہ ہوا کہ لاؤڈاسپیکر میں آواز کتنی کم ہوگی۔ ہم نے وعدہ کیا تھا کہ صوتی آلودگی نہیں ہوگی، پھر بھی پیسے مانگے جا رہے ہیں۔ مولانا عارف نے کہا کہ حال ہی میں ہوئی کانوڑ یاترا میں حکومت نے ڈی جے اور لاؤڈاسپیکر کی آواز بڑھانے کی منظوری دی تھی۔ یہ آواز نصف کلومیٹر دور سے بھی صاف سنائی دیتی تھی، لیکن انتظامیہ کو کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ اذان تو صرف 2 منٹ کی ہوتی ہے، پھر بھی جرمانہ لگایا جا رہا ہے۔
مولانا عارف کا کہنا ہے کہ انتظامیہ صرف ایک طبقہ کو ہدف بنا رہی ہے اور مساجد پر عائد کردہ جرمانہ سیاست سے متاثر ہے۔ ایسے کئی مقامات ہیں جہاں تیز آواز میں لاؤڈاسپیکر بج رہے ہیں لیکن جرمانہ صرف مسجدوں پر ہی لگایا جا رہا ہے۔ حالانکہ ایس ڈی ایم پورن سنگھ کا کہنا ہے کہ شکایت ملنے کے بعد جانچ کی گئی اور پھر جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ اگر دی گئی ہدایات پر عمل نہیں ہوتا تو جرمانہ کی رقم مزید بڑھائی جائے گی۔ پورن سنگھ نے جرمانہ کے پیچھے ہائی کورٹ کے حکم کا بھی حوالہ پیش کیا ہے۔