شکیل رشید
(ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز)
بار بار قرآن پاک کی توہین کا مطلب کیا ہے ؟ سویڈن میں قرآن پاک کو (نعوذ باللہ) جلانے کی ناپاک جسارت کوئی پہلی دفعہ نہیں کی گئی ہے ، سویڈن کی راجدھانی اسٹاک ہوم میں قرآن سوزی کی جسارت کرنے والے نسل پرست اور مسلم دشمن عناصر پہلے بھی یہ مذموم حرکت کر چکے ہیں ۔ لوگوں کو یاد ہوگا کہ 2020 سے ، سویڈن کے پڑوسی ملک ڈنمارک کی پارٹی ’ سٹرام کرس ‘ نے سویڈن کے متعدد شہروں میں قرآن جلانے کی ناپاک جسارت کرتی آ رہی ہے ۔ اپریل 2022 میں ’ سٹرام کرس ‘ کے لیڈر راسموس پالوڈن نے قرآن پاک کے متعدد نسخے جلانے کا اعلان کیا تھا ، اس کے نتیجے میں سویڈن کے شہروں میں قرآن پاک کی منصوبہ بند بے حرمتی کی گئی اور اس توہین کے خلاف جگہ جگہ فسادات پھوٹ پڑے تھے ، خاص طور پر 2020 اور 2022 کے سویڈن کے فسادات ۔ ڈنمارک میں قرآن پاک کی بےحرمتی کو قانوناناً جائز قرار دیا گیا ہے ، وہاں کی سخت گیر سیاسی پارٹی ’ سٹرام کرس ‘ کے کارکنان قرآن سوزی کی ناپاک حرکتیں کرتے رہتے ہیں ، بلکہ اس پارٹی کا سربراہ راسموس اپنی ریلیوں اور اپنے اجلاس میں قرآن پاک ، اسلام اور نبیٔ اکرم ﷺ کے خلاف مغلظات بھی بکتا رہتا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ ڈنمارک سے اسلام کا نام و نشان مٹا دیں گے ۔ سویڈن اور ڈنمارک سے لگے چھوٹے سے ملک ناروے میں بھی یہی صورت حال ہے ۔ جب سے سخت گیر لیڈر لارس تھورسن 2019 میں ’ اسٹاپ اسلامائزیشن آف ناروے ‘ گروپ کا سربراہ بنا ہے ، اس گروپ نے ناروے میں اپنی ریلیوں میں قرآن کو بار بار جلانا شروع کر دیا ہے ۔ یہ گروپ قرآن کے نسخوں کو پھاڑنے اور ان پر نعوذ باللہ تھوکنے کا بھی مجرم ہے ۔ یہ صورتِ حال صرف اسکنڈنیاوی ممالک میں ہی نہیں ہے ، یورپ اور امریکہ میں بھی ایسے نسل پرست ہیں جو قرآن پاک کی بے حرمتی اور اسلام و پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں گستاخی کو ’ آزادیٔ اظہار رائے ‘ قرار دیتے ہیں ۔ یاد رہے کہ 2010 میں امریکہ میں فلوریڈا کے ایک عیسائی پادری ٹیری جونس نے 11/9 کی مذمت میں قرآن پاک کو نذر تش کرنے کا اعلان کیا تھا ، بعد میں اس نے اپنا اعلان واپس لے لیا تھا لیکن 20 ، مارچ 2010 کے روز اپنے چر چ کے اندر اس نے قرآن پاک جلانے کی ناپاک جسارت کی ، جس کے نتیجے میں افغانستان میں تشدد پھوٹ پڑا تھا اور بارہ لوگ مارے گیے تھے ۔ ایک سال بعد 2011 میں میگن فہیلپس نام کے ایک باپٹسٹ پادری نے ایک ڈاکیومینٹری میں یہ اعتراف کیا تھا کہ اس نے لوگوں کے سامنے قرآن کو جلایا تھا ۔ افغانستان میں امریکی فوج کے اڈے ’ بگرام ایئر بیس ‘ پر 2012 میں قرآن پاک کی بےحرمتی کے واقعہ کے بعد زبردسست احتجاج ہوا تھا ، اور تشدد میں امریکی فوجیوں سمیت تیس سے زائد لوگ مارے گیے تھے ۔ گونتانامو بے میں ، جہاں عراق و افغانستان کے قیدیوں کو رکھا گیا تھا ، قرآن پاک کی توہین کے ناپاک واقعات سامنے آئے ہیں ۔ امریکی ہفت روزہ ’ نیوز ویک ‘ نے ایک تفتیشی رپورٹ شائع کی تھی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ قیدیوں سے پوچھ گچھ کرنے والے امریکی فوجی افسران نے ، تفتیش کے دوران قرآن پاک کی بےحرمتی کی تھی ۔ یہ ناپاک حرکت جلد رکنے والی نہیں ہے کیونکہ اس ’ ناپاک حرکت ‘ کو نام نہاد جمہوری و سیکولر ممالک نے ’ آزادیٔ اظہار رائے ‘ کا نام دے رکھا ہے ۔ یہ خود کو روشن خیال اور ماڈرن سمجھتے ہیں ، لیکن بنیادی طور پر یہ نسل پرست بھی ہیں اور اسلام دشمن بھی ۔ ان کا کہنا ہے کہ بھلے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس لگے ، اس ’ ناپاک آزادی ‘ پر پابندی نہیں لگنے والی ۔ سوال یہ ہے کہ یہ بار بار قرآن پاک کو جلا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب کئی طرح سے دیا جا سکتا ہے ، یہ کہ قرآن پاک جلا کر یہ مسلمانوں کو احساس دلانا چاہتے ہیں کہ تمہاری کوئی اوقات نہیں ہے ، یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مسلمان ساری دنیا میں کمتر حیثیت کے ہیں ، اور ان کی مقدس کتاب اور مقدس شخصیات ’ بےحیثیت ‘ ہیں ۔ اس طرح وہ یہ چاہتے ہیں کہ ایک ایسی فضا طاری ہو کہ مسلمان اپنی کتابِ مقدس و پیغمبر اسلامﷺ کی ناپاک توہین کے خلاف ردعمل کرنا چھوڑ دیں ۔ بالفاظ دیگر وہ توہین کی ان حرکتوں کو نظرانداز کرنے لگیں ، اس طرح ان کے دلوں سے ’ کتاب ‘ اور صاحبِ کتابﷺ کی عظمت نکل جائے ۔ جب قرآن اور رسول ﷺ کی عظمت دلوں سے نکل جائے گی تو اسلام کہاں بچے گا ! لہٰذا مسلمان یہ کریں کہ احتجاج تو کریں ہی ساتھ ہی ردعمل میں قرآن کو اور مضبوطی سے پکڑ لیں ، اور سنتِ رسولﷺ کو اپنی زندگی میں داخل کر لیں ۔ مسلم تنظیمیں احتجاج کے ساتھ لوگوں کو قرآن کی طرف بلائیں اور قرآن کی تلاوت کی تاکید کریں ۔ جس قدر زیادہ قرآن کی تلاوت ہو گی اسی قدر قرآن دشمنوں کی سازشیں اور منصوبے خاک میں ملیں گے ۔مسلم ممالک کو چاہیے ، جیسا کہ رضا اکیڈمی نے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سویڈن ، ڈنمارک اور ناروے سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیں اور قرآ ن سوزی کے مجرم کے خلاف سخت ترین کارروائی کے لیے عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں ۔