احمد شھزاد قاسمی
حالیہ دنوں میں نریندر مودی کی قیادت والی مر کزی سرکار کی طرف سے مسلمانوں کے عائلی قوانین پر شب خون مارنے کی کوششوں کے خلاف مسلمانانِ ہند کی ملی قیادت کے ایک پلیٹ فارم پر آنے سے یہ محسوس ہو نے لگا تھا کہ شاید اب مسلمان انتشار وافتراق کے حصار کو توڑ کر آگے بڑھینگے مسلکی عصبیت کی عمارتوں کو مسمار کر کے کامیابی وکامرانی کی ناگزیر شرط “اتحادِملت” کی نئ تاریخ مرتب کر کے وحدتِ ملی کا عظیم قلعہ تعمیر کرینگے طلاقِ ثلاثہ اور یکساں سول کوڈ کا مسئلہ چھڑا تو “آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ” کی قیادت میں تمام مسالک ومکاتبِ فکر کے نمائندوں نے دہلی میں مشترکہ پریس کانفرنس کر کے اتحا د کا پیغام دیا اشتراک کے اس جوش وخروش کو دیکھ کر لگتا تھا کہ یہ اتحا د تمام مسائل میں نہ سہی مشترکہ مسائل میں اسی طرح کام کرتا رہےگا اور امت کے سیاسی تعلیمی واقتصادی مسائل کے حل کے لئے مشترکہ جد وجہد کا یہ سلسلہ جاری رہےگا اس بات کے بھی قوی امکانات تھے کہ یہ ملی اتحاد امت کی منتشر سیاسی قوت کو یکجا کر کے ملکی سیاست اور اقتدار میں اپنی حصہ داری کی داغ بیل ڈالے گا اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات میں اسکا تجر بہ کیا جا سکتا تھا لیکن؛
ایے بسا آرزو کہ خاک شد !
اپنی سیاسی طاقت کے بل پہ اپنے تعلیمی واقتصادی مسائل کو حل کرانے کی طاقت رکھنے والے یہ مسلمان بر وقت رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے اب اس پوزیشن میں ہیں کہ انتخابی عمل میں حصہ صرف اس لئے لیتے ہیں کہ فرقہ پرستوں کو اقتدار سے دور رکھا جا سکے وہ صرف اس لئے “مایا”ملائم” لالو “اور “نتیش ” کا نام جپتے ہیں کہ انہیں “بی جے پی” کو اقتدار سے دور رکھنا ہے انہیں اپنے مسائل کے حل سے کوئ سروکار ہے اور نہ ہی اس بات سے کو ئی دلچسپی کہ انکے اس نقطہء نظر سے سیکولر پارٹیاں انہیں صرف ووٹ بنک بناکر رکھ دینگی دورانِ الیکشن ان کے دامن وعدوں کے سبز باغوں سے سجادئے جاتے ہیں اور بعد میں طوطا چشمی سے کام لیا جا تا ہے، فرقہ پرستوں کو شکست دینے والے اسی طرزِ فکر نے یہ صورتِ حال پیدا کر دی کہ ہم بلا قید وشرط سپا بسپا کانگریس آر جے ڈی جے ڈی یو اور کا نگریس کے قدموں میں جا کر بیٹھ جا تے ہیں، اگر بی جے پی ہماریے لئے باعثِ ضرر ہے تو ان سیکولر وادیوں کی بھی سیاسی موت کا سبب ہے اس لئے بی جے پی کو روکنا جتنا ہماریے لئے ضروری ہے اتنا ہی ان کے لئے بھی ضروری ہے تو پھر ہمارے ہی سینوں پہ کیوں مونگ دلی جائے، یہ ضروری ہے کہ فر قہ پرستوں کو اقتدار سے دور رکھا جائے لیکن اس کے لئے اس کمتر درجہ کی غلامی کو قبول کر نا کہاں کی عقلمندی ہے کہ ہمارے ووٹوں سے ہی سرکار بنے اور ہمیں ہی تشکر وامتنان کے پھول نچھاور کر نے پڑے کہ صاحب آپ نے فرقہ پرستوں کو روک لیا اب ہمیں کچھ نہیں چاہئے۔
جب تک مسلمان اس احساسِ کمتری کے ساتھ انتخابی عمل میں حصہ لیں گے کہ ہمارا مقصد صرف بی جے پی کو ہرا نا ہے تو سیکو لر پارٹیاں انہیں ووٹ بنک سے زیادہ حیثیت نہیں دیں گی، ان کے مسائل سے چشم پوشی کی جائے گی، ان کے ووٹوں کی اہمیت انکے ذہنوں سے محو کر دی جائے گی، اس کے بر عکس اگر مسلمان زاویۂ نگاہ بدلیں اور فر قہ پرستوں کو کچلنے کے ساتھ ساتھ اقتدار میں حصہ داری کی شرط نیز کسی ایک پارٹی کو فتح دلانے کے عزم وحوصلہ کے ساتھ انتخابی عمل میں حصہ لیں تو نہ صرف ان کے مسائل حل ہو نگے بلکہ ان کی کھوئی ہوئی سیاسی طاقت مجتمع ہوکر اپنی لیڈر شپ کے قیام کی راہ ہموار ہوگی، یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم احساسِ کمتری اور ذہنی غلامی سے نہ نکل جائیں؛ غلامی ذہنی مسلمانوں میں اس درجہ در آئی کہ اپنی سوچ وفکر عقل و دانش سے عاری ہو کر صرف وہی کہتے ہیں جو مفاد پرست سیکولر لیڈران اپنے سیاسی فوائد کے لئے ان کے ذہنوں پہ مسلط کر دیتے ہیں، یہ ذہنی غلامی کی ہی بات ہے کہ ہر مسلم سیاسی جماعت اور اس کے قائد میں ان کو بی جے پی کا ایجنٹ نظر آتا ہے مسلم سیاسی جماعت پر ووٹوں کی تفریق کا الزام ان کی فطرت بن چکی ہے۔
اتر پردیش کے موجودہ اسمبلی انتخابات میں خاص طور سے ” اسدالدین اویسی ” اور انکی جماعت ” مجلس اتحاد المسلمین” پر ووٹوں کی تفریق کا الزام اور ہندوؤں کو متحد کر نے کا ایسا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ مسلم اکثریت والی نشستوں پہ بھی غلام ذہنیت کے لوگ اپنے آقاؤں کی زبان بول رہے ہیں حا لانکہ ہم جس طرح پورے اتر پر دیش میں غیر بی جے پی امیدوار کے حق میں ووٹ کر تے ہیں اسی طرح اگر مسلم اکثریت والے حلقوں میں مسلم سیاسی جماعت کے امیدوار کو کامیاب کردیں تو اس سے سانپ بھی مر جائے گا لاٹھی بھی نہیں ٹوٹےگی فرقہ پرستوں کی شکست سیکولرازم کی فتح اور اپنوں کی بقا ہو جائے گی۔
مجلس و مسلم قائدین پر آگ بگولہ ہو نے والے ذرا سوچیں کہ 2014 کے عام انتخابات میں اتر پردیش کی 80 نشستوں میں سے 73 پر بی جے پی کو کامیابی ملی تھی اس وقت کیا اتر پردیش میں اویسی اور ان کی پارٹی میدان میں تھی ووٹوں کی تقسیم کس نے کی؟ اور کس نے بی جے پی کو کامیاب کیا؟
آسام اور مہاراشٹر میں بی جے پی کی سرکار کس نے بنوائی؟
یہ وہ سوالات ہیں جو سیکولر پارٹیوں کے بندھوا مزدوروں کو اپنے ضمیر سے کر نے چاہئے۔ اویسی صاحب پہ یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ کہ وہ بھڑکاؤ بھاشن (جذناتی تقریر) سے ہندوؤں کو متحد کر کے بی جے پی کو فائدہ پہونچاتے ہیں میرے خیال سے یہ الزام بھی غلط ہے، کیونکہ وہ اعداد و شمار کی روشنی میں حکومتوں کے کردار کی نکتہ چینی کرتے ہیں حالانکہ حکومت کی نکتہ چینی اپنی اپنی زبان میں ہر شخص کرتا ہے اخبارات تو حکومت کی تنقیدوں سے بھرے رہتے ہیں تو پھر اویسی اور ان جیسے دوسرے مسلم لیڈر ہی کیوں عتاب کا شکار ہوتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی تعلیمی وسیاسی بیداری کے خلاف یہ سازش رچی گئی کہ انکے تعلیم یافتی افراد کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر خوف وہراس کاماحال بنا دیا گیا اور سیاسی شعور رکھنے والوں کے خلاف ایسی ذہن سازی کی گئی کہ اپنا لیڈر ہر حال میں بی جے پی کا ایجنٹ نظر آئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کو اس ذہنی غلامی کے حصار سے نکالا جائے ان کو انفرادی طور و اجتماعی طور پہ سمجھا یا جائے ان کی ذہن سازی کی جائے انکو حقائق سے آگاہ کی جائے ، ہر وہ شخص جو سماج میں کچھ اثر ورسوخ رکھتاہے وہ اپنے حلقہء اثر میں یہ خد مت انجام دے سکتا ہے۔ مذہبی قائدین تو صرف بی جے پی کو ہرا نے کا ٹھیکہ لے سکتے ہیں خدا را آپ میدان میں آئئے، مسلمانوں کا نظریہ بدلئے کہ آپ بی جے پی کو ہرانے کے ساتھ ساتھ اپنی قیادت و حصہ داری کے جذبہ سے مغلوب ہوکر انتخابی عمل میں حصہ لیجئے اور اپنے ذہن سے سوچنا شروع کیجئے۔