نئی دہلی: صدیق کپن ڈھائی سال بعد لکھنؤ جیل سے ضمانت پر رہا ہونے کے بعد مختلف چینلوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی جیل کے اندر کی کہانی بھی بتائی ،انہوں نے جیلر کی اس وارنگ کا تذکرہ کیا کہ میڈیا سے بات نہ کرنا وہیں دی کوئنٹ سے بات کرتے ہوئے، 43 سالہ کپن، جن کا تعلق کیرالہ کے ملاپورم ضلع سے ہے، نے کہا، “جو بھی حکومت کے خلاف ہوگا وہ دہشت گرد ہوگا۔” متھرا جیل میں ان پر بہت تشدد کیا گیا، بوتل میں پیشاب کرنا پڑا۔کپن نے کہا، ’’ہمیں اپنا موقف پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ میرا اکاؤنٹ اب بھی عوامی ڈومین میں دستیاب ہے۔”کپن پر کیا الزام ہے؟ اکتوبر 2020 میں اتر پردیش کے ہاتھرس میں 19 سالہ دلت لڑکی کے ساتھ ریپ کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ صدیق کپن اس خبر کی کوریج کے لیے ہاتھرس جا رہےتھےکہ 5 اکتوبر 2020 کو راستے میں 3 افراد سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ امن و امان کو خراب کرنے کے ارادے سے ہاتھرس جارہے تھے۔کپن کے جیل جانے کے بعد، ان کے خلاف UAPA اور بغاوت کی دفعات کے تحت دوسری ایف آئی آر درج کی گئی۔ ابتدائی تحقیقات کی بنیاد پر، پولیس نے پہلی ایف آئی آر میں کہا کہ ہاتھرس میں “امن و قانون اور نظم و ضبط کو خراب کرنے” کے لیے مجرمانہ سازش رچی جا رہی تھی۔