نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کو عدالت عظمی کے کالجیم کی جانب سے سفارش کرنے کے بعد پر عدالت عالیہ کے ججوں کے تبادلے کو منظوری دینے میں تاخیر پر مرکزی حکومت کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کے نتیجہ میں انتظامی اور عدالتی دونوں طرح کی کارروائی کی جا سکتی ہے، جو کہ خوش آئند بات نہیں ہوگی۔جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس ابھے ایس اوکا کی بنچ نے مرکز کی نمائندگی کر رہے جنرل آر ویکنٹ رمانی سے کہا ہمیں کوئی موقف اختیار کرنے پر مجبور نہ کریں کیونکہ وہ بہتر نہیں ہوگا۔ عدالت نے کہا کہ ججوں کے تبادلے کو زیر التوا رکھا جانا ایک سنگین مسئلہ ہے۔جسٹس کول نے کہا کہ تبادلے ایک بہت ہی سنگین مسئلہ ہے، ساتھ ہی انہوں نے اس عمل میں تیسرے فریق کی مداخلت کے خلاف انتباہ دیا۔ انہوں نے اے جی کو بتایا کہ کبھی کبھی حکومت اسے راتوں رات کرتی ہے اور کبھی اس میں وقت لگتا ہی چلا جاتا ہے۔ اس میں یکسانیت نہیں ہوتی ہے۔ عدالت نے کہا کہ چیف جسٹسوں کے تبادلے بھی زیر التوا ہیں۔بنچ نے زبانی طور پر اے جی سے کہا، ہمیں ایک مشکل فیصلہ لینا ہوگا۔ ہمیں سخت موقف اختیار کرنے پر مجبور نہ کریں۔ سپریم کورٹ نے اصرار کیا ایسا ہوتا رہا ہے! لیکن ایسا کب تک چلے گا؟ چیزیں برسوں سے نہیں ہو رہی ہیں۔سماعت کے دوران عرضی گزار کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل امت پائی نے کہا کہ عدالت پر باہر سے حملہ کیا جا رہا ہے۔ جسٹس کول نے کہا، ہم اس کے عادی ہیں۔ یقین رکھیں کہ یہ ہمیں پریشان نہیں کرتا۔ یہ افسران جانتے ہیں کہ کہاں جانا ہے۔ بنچ نے معاملے کی مزید سماعت 13 فروری کو مقرر کی۔