امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی
رام لیلا میدان میں استادِ محترم حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے ایک تاریخی بیان دیا، بغیر کسی لائ لپٹائ کے نعرہ توحید بلند کیا، بے باکی کے ساتھ پوری دنیا میں اسلام کے توحیدی پیغام کو پہنچایا، نہ صرف یہ کہ پہنچایا بلکہ اسلام کے نغمہ توحید کو سننے، ماننے اور اس کے تقاضے کو پورا کرنے کی دعوت بھی دی۔
اسلام ایک دائمی، عالمی اور آخری مذہب ہے اور ہم سب اس کے پیروکار ہیں؛ بحیثیت مسلمان ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ اسلام کے عالمی پیغام کو اقوام عالم کے سامنے پیش کریں؛ حضرت الاستاذ نے ایک بڑے منچ سے تمام مذاہب کے رہنماؤں اور تمام قومی میڈیا کے سامنے جرأت و ہمت کے ساتھ مسلمانوں کی مشترکہ ذمہ داری کی نمائندگی کرتے ہوئے بالخصوص امت مسلمہ ہندیہ کی ترجمانی کرتے ہوئے احقاقِ حق کا حق ادا کر دیا اور توحید کا نغمہ مستانہ سناکر فریضئہ دعوتِ حق ادا کر دیا؛ اس پر حضرت والا پوری قوم کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں۔
حضرت والا کی تقریر پر کل سے ہی فنی، علمی اور تاریخی حیثیت سے گفتگو جاری ہے، اپنوں اور غیروں کی طرف سے حمایت و مخالفت کا سیلاب ہے اور یہ سب سلسلہ چلتا رہے گا مگر ان سب کی بیچ حضرت والا کے بیان سے مجھ حقیر کو سب سے زیادہ خوشی اور سکون اس بات کی ہوئی کہ ہمارے ذمہ جو پیغام حق کی دعوت کا فریضہ تھا جس کی ادائیگی کے لئے ہم ہمت جٹا نہیں پا رہے تھے، حضرت والا نے ہم سب کی طرف سے ادا کردیا؛ جب ہم براہ راست حضرت الاستاذ کا بیان سن رہے تھے اسی وقت حضرت کے لئے جسم کا رواں رواں مصروف دعاء تھا اور دل شکر و امتنان کے جذبہ سے لبریز۔
جب سے برادران وطن کے مخصوص طبقہ کی طرف سے مسلمانوں کی جسمانی و ذہنی اذیت رسانی کا سلسلہ تیزی سے بڑھا ہے اور ان کے پراگندہ ذہن کے حامل مخصوص فرد و تنظیم نے اپنے لوگوں کے دل دماغ میں اسلام اور مسلمان کے تئیں جو غلط شبیہ بنائی ہے اس وقت سے یہ احساس مسلمانوں کے حساس طبقہ کو ہے اور یہ کچھ حد تک حقیقت بھی ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو برادران وطن تک اسلام کا صحیح تعارف اور پیغام جس دوٹوک انداز میں پہنچانا تھا، نہیں پہنچایا مگر حضرت والا نے اپنے اس بیان سے بڑی حد تک مسلمانان ہند کی طرف سے فرض کفایہ کے طور پر اداء حق کی کوشش کی ہے؛ اس لئے امت مسلمہ ہندیہ کو حضرت والا کا شکرگزار بھی ہونا چاہیے اور مکمل تائید و حمایت کے ساتھ مخالفت کرنے والوں کے سامنے سینہ سپر ہوجانا چاہیے۔
میں ذاتی طور پر حضرت کا شکریہ ادا کرتاہوں اور دعاء بھی کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ صحت کی سلامتی کے ساتھ حضرت الاستاذ کی عمر دراز کرے اور اس شجرِ سایہ دار کی ٹھنڈی چھاؤں سے زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو فائدہ دے اور امت مسلمہ ہندیہ کے دین و ایمان کی حفاظت فرمائے۔