ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی
26جنوری 2016کو اروناچل پردیش میں صدر راج نافذ کردیا گیا۔ اروناچل پردیش ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں میں سے آخری ریاست ہے جس کا بیشتر حصہ چین کی سرحد کے ساتھ ملحق ہے اور اس وجہ سے یہ ریاست ہمیشہ مخدوش حالات کا شکار رہتی ہے اور چین کی فوج آئے دن ارونا چل کے اندر کئی کلو میٹر تک دراندازی کرجاتی ہے آج بھی اس ریاست کا ایک حصہ چین کے کنٹرول میں ہے ہندوستان اور چین کے مابین یہ سب سے سنسنی خیز تنازعہ ہے۔اسی ریاست کے راستے چین شمال مشرق کی دوسری ریاستوں سے ہوتے ہوئے آسام تک کسی نہ کسی طورپر مداخلت کرتا رہتا ہے اور ان ریاستوں میں موجود درجنوں قبائلی انتہائی پسند تنظیموں کی معاونت بھی کرتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آسام کی الفا، بوڈو، ناگالینڈ، منی پور، میگھالیہ کے بیشتر قبائل نے اروناچل پردیش اور میانمار کے کچھ دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر ایک وفاقی تنظیم بنالی ہے جو اس پورے خطے کو ہندوستان سے آزادکرکے ایک نئے ملک کے قیام کا مطالبہ کرتی رہتی ہے۔اس تنظیم کی پشت پر دراصل چینی سیاست کے شہسوار براجمان ہیں۔ میانمار اور اروناچل کے راستے بہت ہی فعال دخل اندازیاں کی جاتی رہی ہیں۔ ایسے میں یہ بہت ضروری ہے کہ حکومت ہند ملک کی داخلی سلامتی اور یکجہتی کے لئے مذکورہ ریاستوں میں سیاسی استحکام کو یقینی بنائے اور اس سیاسی استحکام کے ذریعے ان ریاستوں کی معاشی اور اقتصادی ترقی اور بہبود وفلاح کو فروغ دے کر عوام میں احساس اطمینان اور تحفظ قائم کرے۔بصورت دیگر غیر مطمئن اور عدم تحفظ کے شکار چھوٹے چھوٹے قبائل اور غیر ہندو مذہبی اکائیاں عدم ترقی، بدحالی،مفلوک الحالی، مفلسی ،نظرانداز کئے جا نے کے احساس ،مذہب اور عقیدے پر منڈلاتے ہندوتوا کے بادلوں کے خطروں سے دوچار ہو کر اپنی آزادی کے مطالبے کے لئے مجبور ہوتے رہے ہیں اور غیر ملکی دشمنوں کا آلہء کار بنتے رہے ہیں۔ مشن کے کالموں میں اس سے قبل بھی اس امر کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ ملک کی سرحدی تنازعات میں سے کشمیر سے بھی زیادہ سنجید ہ مسئلہ شمال مشرقی ریاستوں کا ہے ا ور ان ریاستوں میں سب سے زیادہ سنگین مسئلہ اروناچل پردیش کا ہے۔جو ان دنوں سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوگئی ہے۔یہ سارا مسئلہ 16دسمبر 2015کو شروع ہوا تھا۔جب 60 رکنی اروناچل پردیش اسمبلی کی حکمراں جماعت کانگریس کے 47 میں سے21ارکان باغی ہوکر بی جے پی میں شریک ہوگئے اور گورنر نے قبل از وقت اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا۔کانگریس کے 21باغی ممبران اسمبلی نے بی جے پی کے11 اور دو آزاد اراکین کے ساتھ مل کر اسپیکر بنام ریبیا کے خلاف مواخذے کی تحریک چلائی اور کانگریس نے بی جے پی اس کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے اور ممبران اسمبلی کی خریدوفروخت کا الزام لگایا۔اروناچل کے وزیر اعلیٰ نبم ٹرکی نے صدر اور وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو خط لکھ کر گورنر جیوتی پرساد راج کھووا پر جمہوری طریقے سے منتخب حکومت کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا تھا۔ بعد میں یہ معاملہ گوہاٹی ہائی کورٹ میں چلاگیا تھا۔ جس نے اسمبلی اسپیکر کے خلاف مواخذہ کی تحریک چلانے کے لئے قبل ازوقت اجلاس طلب کرنے کے گورنر کے فیصلے کو آئین کے خلاف قرار دیا تھا۔اس صورتحال کا جائز ہ لیا جائے تو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ بی جے پی جو خود کو ایک جدا اورالگ شناخت رکھنے والی سیاسی جماعت قرار یتی رہی ہے اپنی پیشروپارٹی کانگریس کے نقش قدم پر ہی چل رہی ہے۔ گزشتہ 18۔20مہینوں کے دوران ریاستوں میں ہی نہیں بلکہ مرکز میں برسراقتدار بی جے پی نے ایسے متنازع فیصلے اور اقدامات کئے ہیں جو کہ اس کے اس دعوے کی قلعی کھولتے ہیں کہ وہ ایک الگ شناخت رکھنے والی پارٹی ہے جو کہ نہ صرف ’سب کا ساتھ ، سب کا وکاس‘ پر یقین رکھتی ہے بلکہ اس پر عمل پیرا بھی ہے۔ کانگریس نے بھی جو کہ خود اپنے دور میں ایسے فیصلے کرچکی ہے، الزام لگایا کہ وفاقی تعاون کا وعدہ کرنے والی مودی حکومت اپوزیشن پارٹیوں کی ریاستی حکومتوں کو ڈرانے دھمکانے کا کام کررہی ہے۔مرکزی حکومت نے اروناچل پردیش میں صدر راج کے نفاذ کے معاملے میں سپریم کورٹ میں دیگر دستاویزات کے ساتھ تفصیلی حلف نامہ داخل کیا۔ شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش میں صدر راج نافذ کرنے کے موقف کا دفا ع کرتے ہوئے مرکز نے اپنے 316 صفحات پر مشتمل مہر بند حلف نامہ میں کہا کہ مذکورہ حساس سرحدی ریاست میں قانون و انتظام کا ڈھانچہ ٹوٹ چکا تھا اور امن عام کی صورتحال ابتر ہوچکی تھی۔ حیرت انگیز طور پر گورنر نے اپنی رپورٹ میں بیان کیا ہے کہ ریاست میں گوکشی عام ہوگئی ہے اور کچھ عناصر نے کچھ روز قبل راج بھون کے عین سامنے’ گؤکشی‘ کی واردات انجام دی ہے۔ گورنر نے یہ بھی کہا ہے کہ ریاست کے وزیر اعلیٰ خود بھی ’گؤکشی‘ کے فروغ کی دھمکی دیتے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ریاست میں ’گؤکشی‘ پر پابندی ہے۔ لیکن اس قبیل کے دوسرے جانوروں پر کوئی پابندی نہیں ہے۔جسٹس جگدیش سنگھ کیہر اور جسٹس سی نگپن کی زیر صدارت ایک آئینی بنچ نے 27 جنوری کو اروناچل پردیش میں صدر راج نافذ کرنے کے مرکزی حکومت کے طریقہ کار پر شدید ناراضگی ظاہر کی تھی اور مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کرکے اپنا جواب داخل کرنے کا حکم دیا تھا کہ کن وجوہات کی بنا پر اسے یہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہونا پڑا۔سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے اپنے تبصرے میں کہا تھا کہ یہ بہت ہی سنگین معاملہ ہے۔ آپ ہمیں مطلع کئے بغیر ہی آئینی فیصلہ کرلیتے ہیں۔ سپریم کورٹ اس معاملے میں آئندہ سماعت یکم فروری کو کرے گا۔ ریاست میں صدر راج کے نفاذ کا فیصلہ وزیر اعظم نریندرمودی کی زیر صدارت مرکزی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں کیا گیا۔ اپوزیشن جماعت کانگریس نے فیصلہ کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم نریندرمودی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور انہیں سیاسی عدم برداشت کا سرچشمہ قرار دے دیا۔ اروناچل پردیش کے وزیراعلیٰ نابام توئی نے مرکزی حکومت کے فیصلہ کو ناقابل قبول قرار دیا ہے جب کہ دہلی کے وزیر اعلیٰ عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروندکجریوال نے مرکزی حکومت کے اس فیصلہ پر شدید صدمہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گورنر کی رپورٹ کی بنیاد پر مرکزی حکومت کسی بھی سرکار کو برخاست کرسکتی ہے اور جس طرح کے حالات دہلی میں ہیں ان میں تو دہلی کی منتخبہ سرکار کے ساتھ مرکزی سرکاری کا معاندانہ رویہ کسی وقت بھی سرکار کے وجود کو معر ض خطر میں ڈال سکتا ہے۔ اسی طرح جنتا دل یو کے ترجمان کے سی تیاگی ممبرپارلیامنٹ نے بھی اس فیصلے کو غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے ریاستی اختیارات پر غاصبانہ قبضہ قرار دیتے ہوئے اسے ملک کے وفاقی ڈھانچے پر ایک ضرب کاری قرار دیا ہے۔ملک کی دیگر حزب اختلاف کی سرکاروں کے کان بھی اس حرکت سے کھڑے ہوگئے ہیں۔ ملک میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اسمبلی کا اجلاس اسمبلی کی عمارت کے باہر کسی دوسری جگہ منعقدکیا گیا ہو اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اسمبلی کے اسپیکر باغی ارکان کو تعاون نہیں کررہے تھے۔چنانچہ 16 دسمبر کو کانگریس کے سولہ باغی ارکان اور بی جے پی کے 11ارکان اسمبلی نے ایک دیگر مقام پر اپنا اجلاس منعقد کرکے ریاستی اسمبلی کے اسپیکر نابام ریبیاکے خلاف مواخذے کا مطالعہ کیا۔ اس واقعے نے ریاستی حکومت کو سیاسی بحران کا شکار کردیا اور ریاست سیاستی عدم استحکام کا شکار ہوگئی اس معاملے میں سپریم کورٹ نے انتہائی تاریخی حکم جاری کرتے ہوئے مرکزی حکومت کے وکیل کو کوئی بھی وقت دینے سے ا نکار کردیا حتی کہ گورنر کی رپورٹ منگانے کے لئے بھی حکم دیا کہ ای میل کے ذریعہ رپورٹ منگوائی جائے اور 15 منٹ کے اندر عدالت کے سامنے حاضر کیا جائے۔
اس معاملے کی اگلی سنوائی یکم فروری کو ہورہی ہے اس دوران صدر جمہوریہ ہند پرنب مکھرجی نے یوم جمہوریہ کے اپنے خطاب میں یہ بات کہی کہ ملک میں عدم رواداری کا ماحول ہے اور اختلاف کو برداشت کرنے کی روایت جمہوریت کی صحت کے لئے از بس ضروری ہے اور یہ کہ مرکزی حکومت کو ملک کے وفاقی طرز حکومت کا لحاظ کرنا چاہیے۔ لیکن اپنے اس خطاب کے اگلے ہی دن صدر جمہوریہ نے اروناچل پردیش میں منتخب کی ہوئی سرکار کو برخاست کرکے صدر راج لگانے کے سرکاری فرمان پر بھی دستخط کردئیے۔
صدر راج ہمارے ملک میں حکومت کے تناظر میں اس وقت استعمال کیا جانے والا اصطلاحی لفظ ہے، جب کسی ریاستی حکومت کو تحلیل یا معطل کردیا جاتا ہے اور ریاست براہ راست وفاقی حکومت کے تحت آجاتی ہے۔ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل۔356، مرکز کی وفاقی حکومت کو ریاست میں آئینی نظام کی ناکامی یا آئین کی واضح خلاف ورزی کی حالت میں اس ریاستی حکومت کو برخاست کرکے اس ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کا حق دیتا ہے۔ صدر راج اس صورت میں بھی نافذ ہوتا ہے، جب ریاستی اسمبلی میں کسی بھی پارٹی یا اتحاد کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہو۔ حکمراں پارٹی یا مرکزی (وفاقی) حکومت کی سفارش پر گورنر اپنی صوابدید پر ایوان کو تحلیل کرسکتے ہیں۔ اگر ایوان میں کسی پارٹی یا اتحاد کے پاس واضح اکثریت نہ ہو تو گورنر6ماہ کی مدت کے لئے معطل حالت میں رکھ سکتے ہیں۔ 6ماہ کے بعد اگر پھر کوئی واضح اکثریت حاصل نہ ہو تو اس حالت میں دوبارہ انتخابات منعقد کئے جاتے ہیں۔اس عمل کو صدراج اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی طرف سے ریاست کی باگ ڈور بجائے ایک منتخب وزیر اعلیٰ کے براہ راست ملک کے صدر کے تحت آجاتی ہے، لیکن انتظامی نقطہ نظر سے ریاست کے گورنر کو مرکزی حکومت کی طرف سے ایگزیکٹیو حق حاصل ہوجاتا ہے۔آرٹیکل356،مرکزی حکومت کو کسی ریاستی حکومت کو برخاست کرنے اور صدر راج لگانے کی اجازت اس حالت میں دیتا ہے۔ جب ریاست کا آئینی طریقہ کار مکمل طور پر ناکام ہوگیا ہو، دراصل آرٹیکل ایک ذریعہ ہے جو مرکزی حکومت کو کسی شہری بدامنی (جیسے فسادات جن سے نمٹنے میں ریاستی حکومت ناکام رہی ہو) کی حالت میں کسی ریاستی حکومت پر اپنا حق قائم کرنے کے قابل بناتا ہے (تاکہ وہ شہری بدامنی کی وجوہات کا سراغ لگاسکے)۔ صدر راج کے ناقدین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر اسے اس ریاست میں سیاسی مخالفین کی حکومت کو برخاست کرنے کے لئے ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، تو کچھ لوگوں کی طرف سے اس کووفاقی ریاست کے نظام کے لئے ایک خطرے کے طورپر بھی دیکھا جاتا ہے۔ 1950میں ہندوستانی آئین کے نفاذ کے بعد سے مرکزی کانگریسی حکومت کی طرف سے اس کا استعمال 100سے بھی زیادہ بار کیا گیا ہے۔
موجودہ مرکزی سرکار کے تحت مذکورہ بالا حالات میں اور گورنر کی رپورٹ کے پیش نظر ایک خاص بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہندوتوا کے رنگ میں ڈوبی ہوئی بی جے پی کی سرکار ہر ریاست میں جلد از جلد اپنی پارٹی کی حکمرانی چاہتی ہے تاکہ اسے راجیہ سبھا میں بھی اکثریت حاصل ہوجائے اور ہندوتوا کا اپنا دیرینہ ایجنڈہ نافذ کرنے میں اسے سہولت ہو۔اروناچل ایک دور دراز اور چھوٹی ریاست ہونے کے ناطے اسے یہ توقع ہے کہ بہت زیادہ سیاسی اٹھا پٹخ کئے بغیر وہ ریاست میں اپنا دبدبہ قائم کرکے آئندہ اپریل میں ہونے والے آسام انتخابات کو متاثر کرسکتی ہے۔ اس ضمن میں سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ایک تو ریاستی حکومت کو تحلیل کرنے کا جواز گؤکشی کو بنایا گیا ہے اور دوسرے بڑی تعداد میں کانگریسی ارکان نے پارٹی چھوڑکر بی جے پی میں شمولیت حاصل کی ہے۔ ابھی کچھ ماہ قبل آسام کی حکمراں جماعت کانگریس کے 9 ارکان نے بھی اسی طرح پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ صاف محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ملک کے حکمراں طبقے میں ہندوتوا کا یرقانی رنگ چڑھنے لگا ہے اور گائے جیسے مخدوش ، سنسنی خیز اور مبنی برعقائدنظریئے سے متاثر ہو کر چنی ہوئی سرکاریں گرائے جانے کے عمل کاآغاز ہوگیا ہے اور وہ بھی شمال مشرق جیسے خطرناک خطے سے ہوا ہے۔اس سے ملک کے سیاسی مستقبل کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ محض آستھا کی بنیاد پر جہاں ایک دفعہ بابری مسجد شہید کی جاچکی ہے اور اسی آستھا کی بنیاد پر ایک مرتبہ ملک کی سب سے بڑی ریاست کا ہائی کورٹ ایک فیصلہ صادر کرچکا ہے وہیں اب اسی آستھا کی بنیادپر چنی ہوئی سرکاروں کو برطرف کئے جانے کی جرات بھی کی جارہی ہے۔ایسے میں ملک کا دستور اور ملک کا وفاقی ڈھانچہ اور حزب اختلاف کی ساری پارٹیوں کی منجملہ جست وخیز اور ان کے مستقبل پر ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا ہوگیا ہے۔بہرحال سپریم کورٹ کا فیصلہ اس سلسلے میں آگے کی راہوں کا تعین کرے گا۔
(مضمون نگار مسلم پولیٹیکل کونسل کے صدر ہیں)