خورشید عالم داؤد قاسمی
افریقی یونین کا سربراہی اجلاس میں اسرائیل کی شرکت:
افریقی برّ اعظم کے پچپن ممالک کی عظیم تنظیم “افریقی یونین” کا چھتیسواں سربراہی اجلاس ایتھوپیا کے دار الحکومت: “ادیس ابابا” میں، بہ روز: سنیچر، 18 / فروری 2023 کو منعقد ہوا۔ غاصب اسرائیل کا ایک وفد خاموشی سے اس سربراہی اجلاس کے افتتاحی نششت میں گھس گیا۔ سکیورٹی پر تعینات عملے کو جب معلوم ہوا کہ اسرائیلی وفد، اس اجلاس میں گھسا ہوا ہے؛ تو وہ فورا وہاں پہنچے۔ اسے اجلاس سے نکلنے کو کہا گیا؛ مگر وہ بحث ومباحثہ میں لگا رہا۔ پھر سکیورٹی عملے نے اسے وہاں سے باہر کا راستہ دکھایا۔ سوشل میڈیا پر اس واقعہ کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے، جس میں صاف یہ دکھ رہا ہے کہ اسرائیلی وزارت خارجہ میں افریقی امور کی نائب ڈائریکٹر شیرون بارلی سکیورٹی گارڈ سے بحث و مباحثہ کر رہی ہے۔
اسرائیل کی رکنیت کے خلاف جنوبی افریقہ اور الجزائر کا احتجاج:
غاصب اسرائیلی ریاست کی ایک لمبی مدت سے یہ کوشش تھی کہ کسی طرح اسے “افریقی یونین” میں مبصر رکن کا درجہ مل جائے؛ چناں چہ سن 2021 میں، افریقی یونین میں، اسے ایک مبصر رکن کا درجہ دیا گيا۔ مگر شروع سے ہی متعدد افریقی ممالک، جیسے: الجزائر، جنوبی افریقہ، جمہوریہ تونس، مصر، لیبیا، موریطانیہ وغیرہ کو اسرائیل کے “افریقی یونین” کا مبصر رکن بنائے جانے پر اعتراض رہا ہے۔ چناں چہ اس بار 18 / فروری کو ہو رہے افریقی یونین کے سربراہی اجلاس میں، اسرائیل کو شرکت سے روکنے کے لیے، متعدد ممالک ــــ جن میں سر فہرست جنوبی افریقہ اور الجزائر تھے ــــ نے شدید احتجاج کیا اور دباؤ ڈالا کہ اسرائیل کو شرکت کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ ان ممالک کا یہ کہنا ہے کہ “اسرائیل کو افریقی یونین میں مبصر رکن کا درجہ دینا، فلسطینیوں کی حمایت میں افریقی یونین کے موقف سے متصادم ہے۔” پھر ایسا ہی ہوا۔ مگراسرائیلی امور خارجہ کی نائب ڈائریکٹر برائے افریقی امور شیرون بارلی اجلاس میں کسی دوسرے شخص کے نام جاری دعوت نامہ کا استعمال کرتے ہوئے داخل ہوگئی؛ اس لیے اسے باہر کا راستہ دکھایا گیا۔ افریقی یونین کا یہ عمل کسی طرح بھی غیر مناسب نہیں تھا؛ کیوں کہ اس اجلاس میں بلا دعوت کے شرکت کرنے والی اسرائیلی خاتون کی حیثیت بن بلائے مہمان کی سی تھی، جس کے ساتھ یہی ہونا چاہیے تھا۔
اسرائیلی وزارت خارجہ کا ردّ عمل:
افریقی یونین کے اس عمل پر غاصب اسرائیل کو چیں بجیں ہونا تھا؛ لہذا وہ ہوا۔ اسرائیل کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے افریقی یونین کے اس عمل پر ردّ عمل کرتے ہوئے کہا ہے کہ “الجزائر اور جنوبی افریقہ شدت پسند اور یہود مخالف ممالک ہیں جنھیں ایران کنٹرول کر رہا ہے۔ اسرائیل اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لے رہا ہے”۔ افریقی یونین کے اس عمل پر کچھ صہیونیت زدہ لوگوں کو بھی بڑی تکلیف ہورہی ہے۔ وہ سوشل میڈیا پر شور مچا رہے ہیں کہ اسرائیل کو افریقی یونین میں ایک مبصر رکن کا درجہ حاصل ہے؛ چناں چہ اسرائیلی وفد کو اس طرح ذلیل نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔
افریقی یونین کمیشن کے چیرمین کا بیان:
افریقی یونین کمیشن کے چیرمین، موسی فقی محمد نے اپنے ایک بیان میں یہ واضح کیا ہے کہ “پچپن افریقی ممالک کے بلاک سے اسرائیل کی رکنیت بحیثیت مبصر معطل کردی گئی ہے۔ اسرائیلی وفد کو جس حالیہ سربراہی اجلاس سے باہر کا راستہ دکھایا گیا ہے، اس اجلاس میں اسرائیلی حکومت کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی”۔ مسٹر موسی کے بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ وفد ایک چور کی طرح چوری چھپے اجلاس میں شامل ہوا، جسے بر وقت حفاظتی دستہ نے ڈھونڈھ نکالا اور اسے باہر کا راستہ دکھا دیا۔ اب الجزائر، سینگال، کیمرون، جنوبی افریقہ، عوامی جمہوریہ گونگو، روانڈا اور نائجیریا کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ یہ کمیٹی اگلے برس کے افریقی یونین کے اجلاس کے موقع سے اسرائیل کی رکنیت بحیثیت مبصر برقرار رکھنے یا بالکل ختم کرنے کے حوالے سے فیصلے کا جائزہ لے گی۔
افریقی یونین میں اسرائیل کی رکنیت ؟
اسرائیل کوئی افریقی ریاست نہیں ہے؛ بل کہ جہاں پر بظاہر اس کا وجود بحیثیت ریاست دکھائی دے رہا ہے، وہاں بھی اس کا وجود ناجائز طریقے سے ہے۔ وہ غاصب ہے۔ اس کے باوجود غاصب اسرائیل کا افریقی یونین میں مبصر رکن کی حیثیت سے شامل ہونا چہ معنی دارد؟ دوسری بات یہ ہے کہ جس اسرئیلی رکن کو اس افتتاحی اجلاس سے باہر کا راستہ دکھایا گیا تھا، اسے شرکت کی دعوت ہی نہیں دی گئی تھی؛ پھر اس کا اس طرح اجلاس میں گھس جانا، کیسے درست قرار دیا جاسکتا ہے؟ یہ ایک غیر اخلاقی عمل ہے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے؛ مگر کچھ صہیونیت زدہ لوگ اس نکتہ سے توجہ ہٹانے کی کوشش میں لگے ہیں اور وہ یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ اسرائیل افریقی یونین کا ایک مبصر رکن ہے، پھر وہاں سے اس طرح اسرائیلی رکن کو نکالنا، اسرائیلی ریاست اور اس کے رکن کی تذلیل و توہین ہے۔ جس طرح شیرون بارلی بغیر دعوت کے، اس اجلاس میں پہنچ گئی، اس طرح کوئی بھی معزَّز شخص بغیر دعوت کے کسی کے پروگرام میں نہیں جاتا ہے۔ اب اگر کسی شخص کو یہ شوق لگا ہو کہ وہ اپنی پیشانی پر ذلیل لکھ کر، پوری دنیا میں گھومتا پھرے اور اپنی عزت خاک میں ملوائے؛ تو پھر اسے کون عزتمآب اور قابل احترام بنا سکتا ہے!
نابلس شہر میں اسرائیلی قابض افواج کی کاروائی:
جنوبی افریقہ اور الجزائر کی طرف سے اسرائیل کا افریقی یونین کے مبصر رکن ہونے پر، سوال اٹھانا اور احتجاج کرنا، مناسب ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ عالمی برادری اسرائیل کے قاتلانہ اور ظالمانہ رویّہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے، اس کو ہر عالمی فورم کی رکنیت سے محروم کردے۔ ایک مہذب ریاست، قوم اور معاشرہ کیسے یہ برداشت کرسکتا ہے کہ اس کے ساتھ، کسی بھی تنظیم، جماعت یا پروگرام میں، ایک ایسی ریاست ہو، جس کا دامن ہر وقت معصوم اور بے قصور لوگوں کے خون سے داغدار رہتا ہو! ابھی تازہ واقعہ ہے کہ 22 / فروری 2023 کو، صبح دس بجے اسرائیلی فوج درجنوں بکتر بند گاڑیوں اور خصوصی فوجی دستوں کے ساتھ، مغربی کنارے کے “نابلس شہر” میں، چھاپہ مارنے کے لیے داخل ہوئی۔ اسرائیلی فوج کو دو فلسطینی جوان: حسام اسلم اور محمد عبد الغنی مطلوب تھے؛ چناں چہ فوج نے ان کے گھروں کو محاصرہ میں لینے سے پہلے، شہر کے تمام داخلی راستے بند کردیے۔ پھر فوج نے ان دونوں کو شہید کردیا۔ اس کے بعد، اسرائیلی قابض افواج نے شہر میں، وسیع پیمانے پر خون خرابہ شروع کردیا۔ اس کاروائی میں کم از کم دس فلسطینیوں کے شہید ہونے کی خبر ہے، جن میں ایک بچہ اور دو بوڑھے شامل ہیں؛ جب کہ سو کے قریب افراد زخمی ہوئے ہیں۔ دوسری طرف آج ہی نابلس شہر میں، صہیونی آباد کاروں نے فلسطینیوں کے زیتون کے 65 درختوں کو کاٹ دیا ہے۔ یہ پہلو قابل توجہ ہے سال رواں یعنی 2023 کے آغاز سے اب تک، اسرائیلی قابض افواج کے ہاتھوں 61 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں 13 بچے شامل ہیں۔
افریقی یونین کے فیصلے کا خیر مقدم:
افریقی یونین کے جن ارکان نے اسرائیل کی رکنیت پر احتجاج کیا ہے، وہ فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت میں ہے۔ ان ممالک کی طرف سے یہ احتجاج قابل تعریف ہے، اسے ہمیں سراہنا چاہیے۔ ان ممالک کا اسرائیل کے خلاف یہ دباؤ بنانا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ پھر افتتاحی اجلاس سے اسرائیلی وفد کے اخراج کا فیصلہ، یہ وہ کارنامہ ہے جس پر ہر حسّاس اور انسانیت پسند شخص افریقی یونین کا خیر مقدم کرتا ہے۔ اس فیصلے نے یہ واضح کردیا کہ افریقی یونین فلسطین اور فلسطینی عوام کے ساتھ ہے۔ اس فیصلے سے فلسطینی کاز کو تقویت ملے گی اور فلسطینیوں کا حوصلہ مزید بلند ہوگا، ان شاء اللہ۔ ●●●●