علیزے نجف
کسی بھی انسان کی ترقی اور پائدار مقبولیت کا انحصار موروثی جائداد اور ظاہری حسن و جمال سے زیادہ اس کی عقل اور شعور پہ ہوتا ہے کیوں کہ موروثی جائداد و اقتدار اور دیگر قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کو سنبھالنے کے لئے دماغ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کو مزید بہتر سے بہتر تر کرنے کے لئے بدلتے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا بھی ضروری ہوتا ہے، جس کے لئے ہمیشہ دماغ یعنی شعور کی ضرورت ہوتی ہے ایک عام انسان کی زندگی میں بھی شعور کی اہمیت ہمیشہ مسلم ہوتی ہے اس کے ذریعے نہ صرف مسئلوں سے بچا جا سکتا ہے بلکہ درپیش مسائل کو سلجھایا بھی جا سکتا ہے، یہاں پہ جو بات ایک فرد کے لئے کہی گئی ہے وہی بات ایک قوم پہ بھی اور زیادہ شدت کے ساتھ صادق آتی ہے، کسی بھی قوم کی قیادت ہی اس کا مستقبل طے کرتی ہے اور اگر قیادت ہی اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہو یا وہ قیادت کی ذمےداریوں اور اس کے اصولوں سے ہی سرے سے غافل ہو گئی ہو تو ایسے میں کوئی معجزہ ہی اس انسانی قافلے کو منزل تک پہنچا سکتا ہے۔ ایک عام فرد حتی المقدور اس شعور کو برتنے کی کوشش کرتا ہے کیوں کہ اس کا ایک بھی غلط فیصلہ خود اس کی زندگی پہ ضرب لگاتا ہے جب کہ اجتماعی سطح پہ شعور کی ناپیدگی کو اکثر لوگ اہمیت نہیں دیتے کیوں کہ انھیں لگتا ہے کہ اس کی وجہ سے بھلا ان کا کیا نقصان ہونے والا ہے جو سب برداشت کریں گے ہم بھی کر لیں گے جب کہ انھیں یہ نہیں معلوم کہ وقتی طور پہ بےشک اس کے اثرات نظر نہیں آتے لیکن جب سالہا سال اس بےشعوری کو پروان چڑھایا جا چکا ہوتا ہے تو پھر پوری قوم بیک وقت اس دلدل میں دھنستا شروع ہو جاتی ہے اور اس سے نجات کی صورت قطعی آسان نہیں ہوتی، ایسے میں ایک فرد بےشک یہ کہہ سکتا ہے کہ بھئی ہم اس سلسلے میں کیا کر سکتے ہیں بےشک ان کی یہ سوچ اپنی جگہ صحیح ہے کیوں کہ قوموں کا دماغ کبھی بھی ایک فرد یا ہر فرد نہیں ہو سکتا ان کا دماغ اس کا قائد ہوتا ہے اور قائدین کی جمیعت کو تھنک ٹینک بھی کہا جا سکتا ہے جس میں باہمی تعامل سے ایسے فیصلے لئے جاتے ہیں جس سے کہ قوم کی بہتری اور بھلائی کی راہ ہموار ہو سکے اور ان کے بنیادی حقوق کی حصولیابی اور تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔
اس تبصرے کی روشنی میں اگر ہم ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل کا جائزہ لیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ہماری قوم کے افراد میں ہی انتشار نہیں ہے بلکہ اس کی قیادت بھی منتشر اور کنفیوز سی ہے کہ وہ کیا کرے اور کس طرح اس انتشار پہ قابو پائے، ایک طرف مسائل ہیں کہ ہر روز بڑھتے ہی جا رہے ہیں دوسری طرف جو حل آزما رہے ہیں وہ کارگر نہیں ہو رہے، قائدانہ صفوں میں اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے مسلم قیادت کی کوششیں ایک جگہ نہ ہو کر مختلف جگہوں پہ بکھر کر بےاثر ہوتی جا رہی ہیں، ان کے پاس اپنی قوم کی ترقی کے لئے کوئی واضح لائحہء عمل نہیں وہ عجیب سی گو مگو کی کیفیت کا شکار ہیں ایک طرف عوام کا ردعمل ہے تو دوسری طرف حکومت کا رویہ ایسے میں وہ کبھی اس انتہا پہ ہوتے ہیں تو کبھی اُس انتہا پہ اگر مسلم قیادت یہ سمجھتی ہے کہ وہ اس طرح سے اس مشکل سے باہر نکل جائے گی تو یہ درحقیقت خوش فہمی ہی ہو سکتی ہے کیوں کہ کوشش کرنا جتنا اہم ہے اس سے زیادہ یہ اہم ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوشش صحیح سمت میں یکسوئی و استقلال کے ساتھ کی جا رہی ہے یا نہیں، کبھی اس طرف کبھی اس طرف کی انتہائیں مسلم قوم کی ترقی میں کوئی کردار نہیں ادا کرنے والی بلکہ اس سے انارکیت اور مزید تنزلی کے پیدا ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے ایسے میں عوام کی ایک بڑی تعداد احساس مظلومیت کے ایسے بھنور میں اترتی جا رہی ہے جو اس کی صلاحیت اور اعتماد کو گہن لگا رہی ہے، اس حالت میں جتنا وقت گذرتا جائے گا فقط سنگینی میں ہی اضافہ ہوگا۔ انھیں صورتحال کو دیکھتے ہوئے اب مسلم تھنک ٹینک کے موضوع پہ بات پوری شدت سے چھڑ چکی ہے، لوگوں کا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس تھنک ٹینک کیوں نہیں ہے اور مسلم قیادت اس ادارے کے بغیر ترقی کے خواب کن بنیادوں پہ دیکھ رہی ہے؟ حالانکہ کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ مسلمان مکمل طورپر اس سے محروم ہیں بلکہ کچھ ایسے ادارے ہیں جن میں ایک اہم نام انسٹیٹیوٹ آف آبجیٹیکو اسٹڈیز کا ہے، 1986 میں ڈاکٹر منظور عالم نے اسے قائم کیا تھا اس ادارہ کو دنیا بھر میں مسلمانوں کے تھنک ٹینک کے طور پر جانا جاتاہے ، سچر کمیٹی ، کندو کمیٹی رپورٹ سمیت کئی اہم واقعات میں اس ادارہ کا نمایاں کردار رہا ہے لیکن اس کے باوجود یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب تلاشنا بہت ضروری ہو چکا ہے۔
اس وقت دنیا میں جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں ان کی ترقی میں تھنک ٹینک ہی سب سے اہم کردار ادا کر رہا ہے ان تمام ممالک کے پاس چھوٹے بڑے ہزاروں تھنک ٹینک ہیں جو ملک میں ماحول سازی کے لئے زمینی سطح سے جڑ کر لائحہء عمل ترتیب دیتا ہے حکومتیں صرف اس پہ قانون بناتی ہیں اور اس پہ عمل درآمد کرواتی ہیں۔ اس وقت ہندوستان میں موجود مسلمانوں کی قیادت کے لئے کیا ایسے تھنک ٹینک کی ضرورت نہیں ۔ تھنک ٹینک کسی بھی قوم کا شعور ہوتا ہے جس کے ذریعے فیصلے کئے جاتے ہیں اس میں نہ صرف عوام کی ترقی و آسائش بلکہ ان کی نفسیات کو بھی اہمیت دی جاتی ہے، اس طرح سفر کی سمت بھی متعین ہوتی ہے اور عوام کی نفسیات میں اعتماد بھی پیدا ہوتا ہے یہ اعتماد ان کی صلاحیتوں کو صحیح سمت میں بروئے کار لانے میں معاون ہوتا ہے۔
اس وقت سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو تھنک ٹینک کے حوالے سے کیسے بیدار کیا جائے اس ادارے کو تشکیل دینے کے لئے کس طرح کی کوششوں کی ضرورت ہے، میرے خیال کے مطابق سب سے پہلے تو مسلم قوم کی قائدانہ صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے اس وقت مسلمانوں کو جو مسائل درپیش ہیں ان کا حقیقت پسندی کے ساتھ جائزہ لیتے ہوئے ان مسائل کو شارٹ لسٹ کیا جائے جس کو بہتر کرنے کے لئے حکومت سے ٹکراؤ کی ضرورت نہیں مثلا سب سے پہلے عوام کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے مناسب حکمت عملی اختیار کی جائے کیوں کہ تعلیمی پسماندگی دور کئے بغیر سیاست اقتصادیات اور عام انسانی سطح پہ خوشحالی کے خواب دیکھنا خواب غفلت میں رہنے کے مترادف ہے، یہودیوں نے بھی صدیوں کی ذلت و خواری کے بعد یہ سیکھا کہ جب تک وہ احساس مظلومیت سے باہر نہیں نکلیں گے اور اپنی قوم کے دماغ کو خود اعلی زاویوں سے مسخر نہیں کریں گے اس وقت تک ان کے وجود اور بقا پہ ایک سوالیہ نشان لگا رہے گا انھوں نے اپنی قوم کے اعضاء کو متحرک کرنے کے بجائے دماغ و شعور کو متحرک کیا اعضاء خود بخود ان کے زیر قیادت ا گئے اسرائیل غلط ہے یا صحیح اس وقت یہ زیر بحث نہیں اس وقت اصل موضوع اس کی وہ اسپرٹ ہے جس نے اس کو عالمی نقشے پہ ناقابل مسخر ملک بنا دیا آج اس کے پاس ایک طاقتور تھنک ٹینک اور دنیا کی اسمارٹ ٹیکنالوجی ہے وہ غلط بھی کرتا ہے تو دنیا اس کے خلاف بولنے سے ڈرتی ہے، ہمارا حال یہ ہے کہ ہم تدبیر کئے بغیر خدا پہ توکل کر کے سرخروئی حاصل کرنا چاہتے ہیں جب کہ انھیں نہیں معلوم کہ اس دنیا میں قدرت کا قانون ہر کسی کے لئے ایک ہی ہوتا ہے اور معجزات ہماری خواہشات کے مطابق کبھی ظہور پزیر نہیں ہو سکتے تو ایسے میں یہ خواب غفلت کی چادر اوڑھ کر کس کو فریب دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، ہم اسرائیل کی طرز فکر کو مثبت سطح پہ اپنانے کی کوشش کر کے بھی اس دلدل اور خلیج سے باہر نکل سکتے ہیں، یہ حقیقت ہے کہ دوسروں کے رحم و کرم پہ جیتے ہوئے ہم سب سے پہلے اپنی عزت نفس کھوتے ہیں اعتماد گنواتے ہیں صلاحیتوں کو ضائع کرتے ہیں اس طرح عزت و سربلندی کبھی حاصل نہیں کی جا سکتی اس دنیا میں اسی کی طاقت کا بول بالا ہے جو لینے کے ساتھ دینا بھی جانتے ہیں ہندوستان میں مسلمان قوم محض لینے کی کوشش میں ہے ان کے پاس دینے کے لئے کچھ خاص نہیں ایسے میں اگر ارباب اقتدار انھیں نظر انداز کرتے ہیں تو بھلا انھیں کس نقصان کا خوف ہوگا اور کیوں وہ اس سے ڈرے گی خواہ وہ حق پہ ہوں یا نہ ہوں ۔۔ جب ہم طاقت میں برابر کی سطح پہ ہوتے ہیں اس وقت اگر ہم سوال اٹھاتے ہیں تو اس کا ایک اثر ہوتا ہے لیکن جب ہم خود بےاثر اور چھوٹے قد کے ہو چکے ہیں تو اس وقت ہماری پرواہ بھلا کسے ہو سکتی ہے۔ ہم کب تک عدالتوں پہ بھروسہ کر کے آنسو بہا کر اپنی توانائی اور وقت برباد کرتے رہیں گے، آخر کب تک جذباتیت کے ساتھ قوم کے جذبات سے کھیلتے رہیں گے، حقیقت پسند بننا سیکھیں، ہم مکی دور میں ہیں تو پھر صبر اور حکمت عملی کی اہمیت کو سمجھیں، ارباب اقتدار سے بات چیت کرتے ہوئے اختلاف ضرور کریں لیکن بات کو جاری رکھیں وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں انھیں بھی تو قائل کیا جا سکتا ہے کبھی خود بھی قائل اور معترف ہو سکتے ہیں، ان کی بھی آئیڈیالوجی سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ غلط فہمیوں اور افواہوں کے شر سے بچ سکیں، سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی نہ بنیں بےشک یہ حق آپ کو حاصل ہے کہ آپ جسے چاہے ووٹ دیں پھر اس کے بعد جس کو بھی اقتدار ملتا ہے ان کے ساتھ مخاصمت کے بجائے مفاہمت کا رویہ اپنائیں ہاں اپنے نظریات کے فروغ اور اس کے بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کرتے رہیں اس سے حکومتی کاموں میں بھی خلل نہیں پڑے گا عام معاشرتی زندگی میں بھی سکون رہے گا اب ایسے میں کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ حکومتیں ایسے فیصلے کرتی ہیں اور ہمارے وجود اور اس کی بقا پہ سوال اٹھاتی ہیں تو ہمارا مشتعل ہونا تو بنتا ہے نا تو جان لیجئے یہ دنیا انصاف کے طرز پہ نہیں بنائی گئی آزمائش کے لئے بنائی گئی ہے یہاں سمندر میں رہتے ہوئے ہر چھوٹی مچھلی کو بڑی مچھلی سے خوف رہتا ہے کچھ وقت پہلے ایک واقعہ پڑھا تھا جس کا مفہوم کچھ اس طرح تھا مچھیرے جن کا گذر اوقات ہی مچھلیوں کے شکار اور اس کے خرید و فروخت پہ ہوتا ہے کچھ مچھیرے جب رات کو شکار کر کے صبح مچھلیاں بازار میں بیچنے کے لئے لے جاتے تو ان میں سے اکثر مر جاتی تھیں جس کی وجہ سے باسی ہو جاتیں اور لوگ انھیں خریدنے سے گریز کرتے اور انھیں نقصان اٹھانا پڑتا انھوں نے اس مشکل سے نمٹنے کی تدبیر سوچنی شروع کی تو ان کے ذہن میں آیا کہ جب مچھلیاں ہر خوف سے آزاد ہو جاتی ہیں تو اپنی بقا کی طرف سے بےفکر ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ سست پڑ جاتی ہیں انھوں نے مچھلیوں کے ٹینک میں کچھ کیکڑے ڈال دئیے نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے ڈر سے ساری ہی مچھلیاں متحرک رہنے لگیں کیوں کہ انھیں اب اپنی بقاء کا خوف لاحق ہو گیا تھا اس واقعے میں دیکھئے کہ ایک چیلنج نے کس طرح انھیں متحرک کر دیا تھا ان کی پوری صلاحیت بیدار ہو گئی تھی اگر مسلمان بھی ان مسائل کو ایک چیلنج کی طرح قبول کرنا سیکھ لیں تو یہ ان کی صلاحیتوں کے لئے مہمیز کن ثابت ہو سکتا ہے ان کی توانائی صحیح جگہ پہ خرچ ہوگی جو کہ نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔
اس وقت مسلمانوں پہ یہ لازم ہو چکا ہے کہ وہ بےجا مزاحمت کے بجائے مفاہمت کا رویہ اپنائیں یہ بزدلی نہیں ہے حکمت ہے اور حکمت مومن کی گمشدہ متاع ہے، دور اندیشی کے ساتھ فیصلے کریں بیک وقت ہر جگہ چھانے کی کوشش میں اپنی طاقت کو منتشر نہ کریں سیاست میں اٹھا پٹخ پیدا کرنے کے بجائے تعلیم اور اقتصادیات جیسی تعمیری راہوں میں اپنا پوٹینشیل صرف کریں کیوں کہ جب تک مسلمانوں کے شعور کی نشوونما نہیں ہوگی اور ان کو معاشی فراوانی حاصل نہیں ہو گی اس وقت تک نہ ان کی بدحالی دور ہو گی اور نہ ہی حکومت کو ان کی خاص ضرورت ہو گی جو ان کو کسی بھی طرح رعایت دینے کا سوچے گی، اپنی بقا کے لئے سیاسی جماعتوں پہ انحصار کرنے کی نفسیات سے باہر نکلیں اپنی فکر آپ کریں، دوسروں کے رحم و کرم پہ ملنے والی آسائشوں کو پھونک کر اس راکھ سے اپنی ایک دنیا تعمیر کریں جس میں اپنی قوم کے ساتھ ساتھ دوسری قوموں کے لئے بھی اچھا ماحول ہو قوم پرستی سے نکل کر جمہوریت کے علمبردار بنیں۔