ممبئی: بامبے ہائی کورٹ نے لڑکی کے اہل خانہ پر لڑکے پر ‘لو جہاد’ کا الزام لگانے پر سخت تبصرہ کیا۔ عدالت نے کہا کہ اگر لڑکا اور لڑکی مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں تو اسے ’لوجہاد‘ کہنا درست نہیں ہوگا۔ عدالت نے کہا کہ ایسے ہر معاملے کو مذہبی نقطہ نظر سے دیکھنا غلط ہے۔ بامبے ہائی کورٹ میں ویبھا کنکن واڑی اور ابھے واگواشے کی بنچ نے مسلم خاتون کو پیشگی ضمانت دیتے ہوئے یہ بات کہی۔ دراصل، مسلم خاتون پر اس کے ہندو عاشق نے الزام لگایا تھا کہ اس کی مسلم گرل فرینڈ اور اس کے خاندان نے اس پر مذہب تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اس معاملے میں پہلے اورنگ آباد کی خصوصی عدالت نے خاتون اور اس کے اہل خانہ کو پیشگی ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس فیصلے کو پلٹنے کا حکم دیتے ہوئے ہائی کورٹ نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے کو اب لو جہاد کا رنگ دیا جا رہا ہے۔ لیکن جب دونوں میں محبت ہو گئی اور رشتے میں داخل ہوئے تو ایسا نہیں تھا۔ پھر دونوں کے درمیان فطری طور پر محبت پیدا ہو گئی۔اگر لڑکے اور لڑکی کا مذہب مختلف ہے تو اسے فرقہ وارانہ نقطہ نظر سے دیکھنا درست نہیں۔ عدالت نے مزید کہا کہ یہ دونوں کے درمیان خالص محبت کا کیس بھی ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مسلمان لڑکی کے ہندو عاشق نے الزام لگایا تھا کہ لڑکی کے گھر والے اس پر اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔ اس نے کہا تھا کہ اس کا زبردستی ختنہ بھی کرایا گیا تھا۔اس معاملے کو لو جہاد بتاتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ مجھ پر یہ دباؤ بھی ڈالا گیا کہ میں گرل فرینڈ کے گھر والوں کے لیے کچھ رقم کا بندوبست کروں۔ اس شخص نے یہ بھی الزام لگایا کہ اکثر میری ذات کا نام لے کر گالیاں دی جاتی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ہندو لڑکا اور مسلمان لڑکی مارچ 2018 سے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات میں تھے۔ لڑکا دلت برادری سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس نے لڑکی کو یہ بات کبھی نہیں بتائی۔ جب دونوں کے تعلقات میں ترقی ہوئی اور لڑکی نے اسلام قبول کرنے اور شادی کرنے کی بات کی تو لڑکے نے پھر انکشاف کیا کہ وہ ہندو ہے اور دلت برادری سے ہے۔ اس کے باوجود لڑکی کے گھر والوں نے ان کا رشتہ قبول کر لیا۔عدالت نے اس معاملے میں مسلم لڑکی کو پیشگی ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ معلوم ہے کہ دونوں کے درمیان اچھے تعلقات تھے اور لڑکی کے گھر والوں نے لڑکے کے مذہب اور ذات کی دیواریں بیچ میں نہیں آنے دیں۔ عدالت نے اپنے تبصرہ میں کہا کہ محبت کے اس طرح کے معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینا غلط ہے۔