بھارت کے نو اپوزیشن رہنماؤں نے، جن میں کئی وزرائے اعلیٰ بھی شامل ہیں، وزیر اعظم نریندر مودی کو اتوار کے روز ایک خط لکھ کر اپوزیشن رہنماؤں پر کسی بھی ثبوت کے بغیر جھوٹے الزامات عائد کر کے انہیں پریشان کرنے اور ان کے خلاف مرکزی ایجنسیوں کو بے جا استعمال کرنے کے الزامات عائد کیے ہیں۔
یہ خط دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ اور حکمران جماعت عام آدمی پارٹی کے سینئر رہنما منیش سسودیا کی گرفتاری کے ایک ہفتے بعد لکھا گیا ہے۔ بھارتی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی نے سسودیا کو آبکاری پالیسی میں مبینہ بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ دہلی کی ایک عدالت نے پیر چھ مارچ کو سسودیا کی تحویل کی مدت بڑھا کر 20 مارچ کر دی۔
ان اپوزیشن لیڈروں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ اپوزیشن سیاست دانوں کے خلاف ملک کی مرکزی ایجنسیوں کے اندھا دھند استعمال سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارت ایک جمہوری ملک سے آمریت کی طرف منتقل ہو چکا ہے۔
اس خط میں کہا گیا ہے، ”سسودیا پر عائد کردہ تمام الزامات بے بنیاد ہیں اور ان سے سیاسی سازش کی بو آتی ہے۔” اس خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سسودیا نے دہلی کے سرکاری اسکولوں میں جو تعلیمی انقلاب برپا کیا ہے، پوری دنیا اس کی معترف ہے۔
اس خط پر دستخط کرنے والوں میں دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال، مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی، تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ، پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان، جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ، مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ شرد پوار اور اودھو ٹھاکرے، اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو اور بہار کے نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو شامل ہیں۔
بہار کی سابق وزیر اعلیٰ سے پوچھ گچھ
وزیر اعظم مودی کے نام خط لکھے جانے کے دوسرے ہی دن سی بی آئی کے اہلکار بہار کے نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو کی والدہ رابڑی دیوی کے گھر آ دھمکے۔ رابڑی دیوی سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو کی اہلیہ ہیں۔ تفتیشی ایجنسی ان سے ان کی وزارت کے دور میں مبینہ ‘ملازمت کے بدلے زمین’ کے گھپلے سے متعلق آج پٹنہ میں پوچھ گچھ کر رہی ہے۔
سی بی آئی کا کہنا ہے کہ رابڑی دیوی نے ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بعض لوگوں کی ریلویے کے محکمے میں تقرریاں کروائی تھیں اور اس کے بدلے میں ملازمت پانے والوں کو اپنی زمینیں یادو خاندان کے افراد کے نام منتقل کرنا پڑی تھیں۔
رابڑی دیوی کی پارٹی راشٹریہ جنتا دل نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہیں سیاسی اغراض پر مبنی قرار دیا ہے۔ رابڑی دیوی نے گزشتہ ہفتے ہی کہا تھا، ”ہم بھاگنے والے نہیں ہیں، ہم پچھلے 30 برسوں سے اس طرح کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ بی جے پی بہار میں لالو یادو سے خوفزدہ ہے۔”
بی جے پی میں شامل ہونے سے ‘تمام گناہ معاف’
بھارتی اپوزیشن رہنماؤں نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ مرکزی ایجنسیوں کی جانب سے کارروائیاں بالعموم انتخابات سے پہلے ہی کی جاتی ہیں۔ ”سن 2014 کے بعد سے صرف اپوزیشن لیڈروں کے خلاف ہی کارروائیاں کی گئی ہیں جبکہ متعدد الزامات کے باوجود اپوزیشن چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہونے والے رہنماؤں کے خالف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔”
خط میں اس حوالے سے کانگریس کے سابق رکن اور آسام کے موجودہ وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا کی مثال دی گئی ہے۔ سی بی آئی اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے سن 2014 اور 2015 میں ان کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کی تفتیش کی تھی لیکن بی جے پی میں شمولیت کے بعد ان کے خلاف کیس سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔ اپوزیشن رہنماؤں نے اپنے خط میں لکھا ہے، ”بی جے پی میں شامل ہوتے ہی ہر ایک کا دامن صاف ہو جاتا ہے۔”
بی جے پی کا جواب
بی جے پی نے اپوزیشن کے اس خط پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی کے ترجمان سدھانشو ترویدی کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں بدعنوانی کے مقدمات میں ا یک دوسرے کو بچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس خط سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اپوزیشن ملکی تفتیشی ایجنسیوں کو دھمکانے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خط پر دستخط کرنے والوں میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو خود بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ترویدی کا کہناتھا، ”اپوزیشن رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ اقتدار میں رہتے ہوئے بدعنوانی کرنا ان کا حق ہے۔”