ریاض: سعودی عرب اور ایران جمعہ کو کئی برسوں کی کشیدگی کے بعد سفارتی تعلقات دوبارہ بحال کرنے اور دو مہینوں کے اندر ایک دوسرے کے ملک میں اپنے اپنے سفارت خانے کھولنے پر رضامند ہو گئے ہیں۔سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی ایس پی اے کے مطابق ’یہ پیش رفت عوامی جمہوریہ چین کے صدر محترم شی جن پنگ کے شاندار اقدام اور سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے درمیان اچھے تعلقات کے فروغ کے لیے چین کی حمایت کے جواب میں ہوئی ہے۔‘’تینوں ممالک نے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے درمیان ایک معاہدہ ہو گیا ہے۔‘سرکاری خبر ایجنسی کے مطابق بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اس میں ان کے درمیان سفارتی تعلقات کو دوبارہ شروع کرنے اور دو ماہ کی مدت کے اندر اپنے سفارت خانے اور مشن دوبارہ کھولنے کا معاہدہ شامل ہے، اور اس معاہدے میں ریاستوں کی خودمختاری کے احترام اور ریاستوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی تصدیق شامل ہے۔‘خبر رساں ادارے ‘رائٹرز کے مطابق اس پیش رفت کا اعلان جمعہ کو بیجنگ میں چار روز سے جاری دونوں ملکوں کے سیکیورٹی حکام کے مذاکرات کے بعد کیا گیا۔ ان مذاکرات میں چین نے ثالث کا کردار ادا کیا۔سفارتی تعلقات سے متعلق سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدہ بھی طے پا گیا ہے جس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔معاہدے پر ایران کی جانب سے سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری علی شامخانی جب کہ سعودی عرب کے مشیر برائے قومی سلامتی مساعد بن محمد العیبان نے دستخط کیے ہیں۔مذاکرات کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تہران اور ریاض سفارتی تعلقات بحال کرنے پر متفق ہو گئے ہیں اور دو ماہ کے اندر سفارت خانے کھولنے سمیت دیگر اُمور طے کر لیے جائیں گے۔جنوری ۲۰۱۶ میں سعودی عرب میں ایک شیعہ عالم نمرالنمر کا بغاوت اور دہشت گردی کے جرم میں سر قلم کر دیا گیا تھا جس کے بعد مشتعل مظاہرین نے تہران میں سعودی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا تھا۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسری کی داخلی سلامتی، خود مختاری اور اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے گریز کریں گے۔دونوں ملکوں نے ۲۰۰۱میں طے پانے والے سیکیورٹی تعاون معاہدہ بحال کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ جب کہ حالیہ پیش رفت کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی اور سرمایہ کاری سے متعلق دو طرفہ معاہدے بھی بحال تصور کیے جائیں گے۔سعودی عرب اور ایران نے ثالثی کا کردار ادا کرنے پر چین کا شکریہ ادا کیا ہے جب کہ اس سے قبل ۲۰۲۱اور ۲۰۲۲میں مذاکرات کے لیے سہولت کاری کرنے والے ممالک عمان اور عراق سے بھی اظہارِ تشکر کیا ہے۔خبر رساں ادارے ‘رائٹرز کے مطابق چین کی وزارتِ خارجہ نے اس بارے میں تاحال کوئی باضابطہ ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔وائٹ ہاؤس میں نیشنل سیکیورٹی کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہونے والے معاہدے سے باخبر ہے اور یمن میں جنگ کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو سراہتا ہے۔خیال رہے کہ حالیہ برسوں میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان یمن کے معاملے پر تنازع مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کا محور رہا۔ سعودی عرب کا مؤقف تھا کہ ایران یمن میں حوثی باغیوں کو سعودی عرب کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ دوسری جانب ایران اپنی سفارتی تنہائی کے لیے ریاض کی مغربی ممالک اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ کی گئی کاوشوں کو ذمے دار قرار دیتا ہے۔ماہرین کے مطابق دونوں ممالک شام سمیت مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک میں بھی ایک دوسرے کے خلاف پراکسی جنگ کا حصہ رہے ہیں۔ایک سینئر ایرانی اہلکار نے ‘رائٹرز کو بتایا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اس معاہدے کی توثیق کر دی ہے۔اہلکار نے بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ شامخانی سپریم لیڈر کی ہدایت پر چین گئے اور معاہدے پر دستخط کیے۔