ہیمنت بسوا سرما کی مدرسہ دشمنی: پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

سہیل انجم

ایسا لگتا ہے جیسے آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کو کسی اہل مدرسہ نے کوئی بہت گہری چوٹ پہنچائی ہے جس کا انتقام وہ تمام مدارس اور ان کے منتظمین سے لینا چاہتے ہیں۔ وہ حالیہ دو ایک برسوں سے مسلم دشمنی میں کافی آگے نکل چکے ہیں۔ اتنے آگے کہ لگتا ہے ان کا مقابلہ اگر بی جے پی کے دوسرے وزرائے اعلیٰ کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے۔ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنی ریاست کے رجسٹرڈ، غیر رجسٹرڈ، سرکاری امداد یافتہ اور غیر سرکاری امداد یافتہ تمام مدرسوں کی جانچ کا حکم دیا۔ یہ جانچ مکمل ہوئی تو ہند نیپال سرحد پر واقع مدارس کے ذرائع آمدنی معلوم کرنے کے لیے ان کی جانچ کی گئی۔ لیکن چونکہ ان مدارس کے یہاں کوئی غیر قانونی سرگرمی نظر نہیں آئی اس لیے تادم تحریر ان کے خلاف بظاہر کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ حالانکہ جانچ اور انکوائری کا مقصد ان کی مبینہ غیر قانونی اور ملک دشمن سرگرمیوں کی تلاش تھی۔ بیچارے یوگی آدتیہ ناتھ چاہنے کے باوجود مدرسوں میں کوئی غیر قانونی سرگرمی تلاش نہیں کر سکے۔

لیکن جہاں یوگی نے صرف اتنا کیا کہ مدرسوں کی جانچ کی وہیں ہیمنت بسوا سرما نے اپنی ریاست سے مدرسوں کا وجود ہی مٹا دینے کا تہیہ کر لیا ہے۔ ان کی حکومت نے گزشتہ سال کئی مدرسوں کو یہ کہہ کر منہدم کر دیا کہ ان میں دہشت گردانہ سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں۔ لیکن جب اس پر احتجاج کیا گیا تو یہ کہا گیا کہ ان مدرسوں کی تعمیر غیر قانونی طور پر ہوئی تھی۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ یوگی کے بلڈوزروں کے ذریعے مسلمانوں کے مکانات کے انہدام کے خلاف جب احتجاج ہوا تو کہا گیا کہ یہ مکانات غیر قانونی طور پر تعمیر کیے گئے تھے اور متعلقہ ادارے سے نقشہ منظور نہیں کرایا گیا تھا۔ حالانکہ ان کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ ریاست میں کس کا مکان نقشہ منظور کراکے بنوایا گیا ہے اور کس کا نہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے تو ان کی پول کھل جاتی اور پھر اس کی زد پر دوسروں کے مکانات بھی آجاتے۔

بہرحال آسام میں کچھ ایسے لوگوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا جو کسی مدرسے میں استاد تھے۔ لیکن کیا پولیس نے ان لوگوں کے مقدمات عدالتوں میں پیش کیے اور اگر پیش کیے تو کیا کسی کے خلاف الزام درست ثابت ہوا اور عدالتوں نے کسی کو سزا سنائی؟ اس بارے میں بالکل خاموشی ہے۔ سرما نے یہ بھی کہا کہ سرکاری امداد یافتہ مدرسوں کو اسکولوں میں تبدیل کر دیا۔ اس بارے میں انھوں نے گزشتہ دنوں ایک بیان دیا ہے جس میں انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ریاست میں چھ سو مدرسے بند کر چکے ہیں اور وہ جلد ہی تمام مدرسوں کو بند کر دیں گے۔ کیونکہ انھیں مدرسے نہیں اسکول، کالج اور یونیورسٹی چاہیے۔

ارے بھائی سرما جی! کون ہے جو اسکول کالج اور یونیورسٹی کا مخالف ہے۔ کیا مسلمان ان میں تعلیم حاصل نہیں کرتے اور کیا مدرسوں کے فارغین ان تعلیمی اداروں سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور کیا وہ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے ڈگریاں نہیں لیتے۔ کیا اسکول کالج اور یونیورسٹی کے لیے مدرسوں کو بند کرنا ضروری ہے۔ دراصل وہ مدرسوں کے اس لیے خلاف ہیں کہ ان میں اسلامی تعلیمات دی جاتی ہیں اور نو نہالوں کو اسلام کا سپاہی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مدرسے اس میں کتنے کامیاب ہیں کتنے نہیں۔ لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ آپ ایک مذہب کے ماننے والوں کے تعلیمی اداروں کو بند کر دیں۔ کیا آپ دوسرے مذاہب کے تعلیمی اداروں کو بھی بند کریں گے اور ان کو بھی اسکولوں میں تبدیل کریں گے۔ اگر آپ کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کو صرف مسلمانوں اور ان کی اسلامی تعلیمات اور مدارس کے وجود سے دشمنی ہے۔

انھوں نے سال 2020 میں ریاست میں ایک متنازع قانون متعارف کرایا تھا جس کے مطابق حکومت کے تحت چلنے والے تمام مدارس کو ریگولر اسکولوں میں بدل دیا جائے گا جہاں عام تعلیم ہوتی ہے۔ رواں سال کے جنوری تک ریاست میں رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ مدرسوں کی تعداد 3000 تھی۔ خیال رہے کہ کشمیر کے بعد آسام میں مسلمانوں کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔ ریاست کے 31 میں سے کم از کم نو اضلاع میں مسلم آبادی پچاس فیصد سے زائد ہے۔ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ریاست کی مجموعی آبادی تین کروڑ ساٹھ لاکھ ہے جس میں ایک کروڑ چالیس لاکھ یعنی تقریباً چالیس فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے۔ ریاستی حکومت نے گزشتہ سال ایک حکم نامہ جاری کرکے بیرون ریاست سے آسام جانے والے مدارس کے اساتذہ، ائمہ اور موذنین کے لیے مقامی پولیس تھانے میں خود کو رجسٹرڈ کرنا لازمی قرار دے دیا ہے۔

مدرسوں کو بند کرنے کے سرما کے اعلان کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک کا دستور تمام اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کی اجازت دیتا ہے لیکن آسام کے وزیر اعلیٰ مدرسوں کو بند کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اس کا مطلب وہ دستور کو نہیں مانتے۔ دراصل وہ جو کچھ کر رہے ہیں ہندوتوا کی پالیسی کے تحت کر رہے ہیں۔ اس پالیسی کو ماننے والے آئین و دستور میں یقین نہیں رکھتے۔ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں آئین و قانون کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ بولنا، احتجاج کرنا اور لکھنا ہر شہری کا حق ہے لیکن یہ حق چھینا جا رہا ہے۔

مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ آسام سے ہزاروں مسلمانوں کو غیر ملکی کہہ کر نکال دیا گیا ہے۔ جب کہ بعض افراد کے پاس 70-70 برس پرانے کاغذات اور دستاویزات ہیں۔ حکومت کے ذمہ داران اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ بعض مبصرین اس امید کا اظہار کرتے ہیں کہ جب دوسری پارٹی کی حکومت آئے گی تو ان معاملات پر کمیشن قائم کرے گی اور آئین و قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ بعض ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ جن مدرسوں کو منہدم کیا گیا یا جن کو بند کیا جا رہا ہے ان کے ذمہ داروں کو اور سرکردہ مسلمانوں کو بھی اس کارروائی کے خلاف عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔

ایسا لگتا ہے کہ آسام کی حکومت 2024 میں ہونے والے پارلیمانی اور 2026 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر اس قسم کے اقدامات کر رہی ہے تاکہ اس سے انتخابی فائدہ اٹھایا جا سکے۔ کم عمری کی شادیوں کے خلاف کریک ڈاون کا تعلق بھی سیاست سے ہی ہے۔ واضح رہے کہ حکومت نے گزشتہ ماہ کم عمری کی شادیوں کے خلاف مہم شروع کی تھی جس کے تحت پولیس نے 3483 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ حکومت کے مطابق اپریل 2021 سے رواں سال کے فروری ماہ تک کم عمری کی شادیوں کے 4670 واقعات پولیس میں درج کیے گئے ہیں۔ گرفتار شدگان میں مبینہ طور پر کم عمری کی شادی کرنے، کرانے یا اس میں معاونت کرنے والے شوہر، والدین، بھائی، قاضی اور پنڈت شامل ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ گرفتار شدگان میں 55 فیصد مسلمان اور 45 فیصد غیر مسلم ہیں۔ لیکن ان اعداد وشمار پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ گرفتار شدگان کی فہرست جاری کرے تاکہ حقائق سامنے آسکیں۔

بہرحال ہیمنت بسوا سرما کو جس طرح مرکزی حکومت کی جانب سے کچھ بھی کرنے کی چھوٹ ملی ہوئی ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ مدرسوں کو بند کرانے کے اپنے مذموم ارادے کو عملی جامہ پہنا دیں گے۔ لیکن انھیں ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کے خلاف بہت سے لوگ اٹھے اور پھر گم نامیوں کے شکار ہو گئے۔ ہیمنت بسوا سرما آج وزیر اعلیٰ ہیں کل وہ وقت بھی آئے گا جب انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ لیکن اسلام کا بول بالا ہمیشہ رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ سیکڑوں مدرسے بند کریں گے تو ہزاروں کھل جائیں گے۔ اسلامی تعلیمات کا سلسلہ رکا ہے نہ رکے گا۔ کیونکہ اسلام ایک ایسا چراغ ہے جسے پھونکوں سے بجھایا نہیں جا سکتا۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com