امیٹھی: ریاستی پرندے سارس سے دوستی کر کے سرخیوں میں آئے عارف کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے اور محکمہ جنگلات نے وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ کا حوالہ دیتے نوٹس جاری کر کے طلب کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق تسلی بخش جواب نہ ملنے پر محکمہ جنگلات عارف کے خلاف مزید کارروائی کر سکتا ہے۔
دوسری طرف سارس کا نیا ٹھکانہ کانپور زولوجیکل پارک بن گیا ہے۔ سارس کو ہفتہ کی دیرشام نواب واجد علی شاہ زولوجیکل پارک، لکھنؤ کے ڈاکٹروں اور عملے کی نگرانی میں سمس پور برڈ سینکچری سے کانپور لایا گیا اور 15 دن کے لیے کوارنٹائن کر دیا گیا۔
امیٹھی ضلع کے منڈکھا کے رہنے والے عارف سارس سے دوستی کرکے سوشل میڈیا پر کافی سرخیاں حاصل کر چکے ہیں۔ دراصل ایک مرتبہ سارس زخمی ہو گیا تھا اور عارف نے اس کے زخموں پر مرہم لگایا تھا، بس یہیں سے ان دونوں کی دوستی شروع ہو گئی اور سارس اس کے بعد کبھی جنگل میں نہیں گیا۔ یہ دوستی اتنی گہری تھی کہ سارس عارف کے ہی ساتھ گھومنے پھرنے لگا اور ساتھ ہی کھانا بھی کھانے لگا۔ صرف اتنا ہی نہیں عارف جب موٹرسائیکل پر گھومنے جاتا تو سارس بھی اس کے ساتھ اڑتا تھا۔
عارف اور سارس کی اس دوستی نے اتر پردیش کے سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو کو بھی متاثر کیا اور وہ عارف اور سارس سے ملنے امیٹھی پہنچ گئے۔ اکھلیش یادو گزشتہ 5 مارچ کو عارف کے گھر پہنچے اور انہوں نے یہ معلومات ٹوئٹر پر تصویروں کے ذریعے شیئر کی۔ یہیں سے عارف کے لیے مشکلات شروع ہو گئیں۔
اکھلیش یادو کے امیٹھی میں عارف کے گھر پہنچنے کے بعد سب ڈویژنل فارسٹ آفیسر نے 9 مارچ کو عارف کو نوٹس جاری کر دیا۔ اس کے بعد سارس کو 21 مارچ کو سمس پور برڈ سینکچری پہنچا دیا گیا۔ سارس وہاں سے اڑ کر 5 کلومیٹر دور بیسویا گاؤں پہنچ گیا، جہاں ایک ہوم گارڈ سشیل کمار نے کتوں سے اس کی جان بچائی۔
عارف ابھی اس درد سے سنبھل بھی نہیں پائے تھے کہ اب محکمہ جنگلات کے گوری گنج رینج کے اسسٹنٹ فارسٹ گارڈ رنویر مشرا کا جاری کردہ نوٹس سوشل میڈیا پر وائرل ہونے لگا۔ پورے معاملے کی جانچ اسسٹنٹ کنزرویٹر آف فاریسٹ رنویر مشرا کو سونپی گئی ہے۔
رنویر مشرا نے عارف کو نوٹس جاری کرتے ہوئے پوچھ گچھ کے لیے 2 اپریل کو صبح 11 بجے اپنے دفتر میں طلب کیا ہے۔ اس پورے معاملے کے بارے میں اسسٹنٹ فارسٹ گارڈ رنویر مشرا نے بتایا کہ محمد عارف کو محکمہ جنگلات کی طرف سے نوٹس جاری کیا گیا ہے اور انہیں 2 اپریل کو ڈویژنل فارسٹ آفیسر کے دفتر بلایا گیا ہے۔ عارف اور سارس کے موضوع پر ان کا موقف سنا جائے گا۔
اب ہفتہ کو گوری گنج رینج کے رینجر شیوکانت شرما نے مقامی تھانے میں عارف کے خلاف مقدمہ درج کرایا ہے اور سارس کو کانپور زولوجیکل پارک بھیج دیا گیا ہے۔
سارس کے خود سے دور چلے جانے کے بعد اور مقدمہ درج ہونے پر عارف گوجر کا کہنا ہے کہ انہوں نے سارس کو زبردستی اپنے پاس نہیں رکھا تھا، وہ اپنی مرضی سے یہاں آیا تھا۔ عارف نے کہا ”سارس کو کسی کمرے میں بند نہیں رکھا گیا تھا، وہ یہاں کھلے میں رہتا تھا اور میرا ایک پالتو کتا اس کی حفاظت کرتا تھا۔ وہ میرے ساتھ کھانا کھاتا تھا۔ میں اس سے اور وہ مجھ لگاؤ رکھتا تھا۔ 21 مارچ کو جب محکمہ جنگلات کی ٹیم اسے لینے آئی تو میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ جب اسے گاڑی میں بٹھایا گیا تو سارس نے بھی اونچی آواز میں بولنا شروع کیا۔ اس پر محکمہ جنگلات کے لوگوں نے مجھے گاڑی میں اپنے ساتھ بیٹھنے اور برڈ سینکچری تک تک چلنے کو کہا۔ تو میں نے یہ سوچ کر ان کی بات مان کی کہ چلو کچھ فاصلہ اور ساتھ رہ لیں گے۔”
ادھر، محکمہ جنگلات کے اہلکار پی این ککریتی کا کہنا ہے کہ سارس ریاستی پرندہ ہے اور اسے پالا نہیں جا سکتا اور نہ ہی قید کر کے رکھا جا سکتا۔ اس کا اپنا پروٹوکول ہے۔ عارف کو بھیجا گیا نوٹس قانون کے مطابق ہے۔ اس میں کچھ بھی غلط نہیں ہے۔ عارف اپنی وضاحت دے سکتے ہیں۔ سارس کو جس قسم کی خوراک اور ماحول کی ضرورت ہوتی ہے وہ انسانوں میں نہیں مل سکتی۔ سارس ایک بہت حساس پرندہ ہے۔ کانپور کے چڑیا گھر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق سارس کو 15 دن تک قرنطینہ میں رکھا جائے گا اور اس کے بعد اسے چڑیا گھر کے ایک بڑے حصے میں چھوڑ دیا جائے گا جہاں وہ درختوں پر بیٹھ سکے گا۔ سارس بالکل صحت مند ہے۔
سارس کے حوالہ سے اتر پردیش کے سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو یکے بعد دیگرے ردعمل ظاہر کر رہے ہیں، وہ سارس اور عارف سے ملنے امیٹھی کے منڈکھا گاؤں بھی پہنچے تھے۔ اکھلیش یادو نے سارس کو کانپور کے چڑیا گھر بھیجنے کے بعد طنزیہ انداز میں کہا تھا کہ یہ کیسی آزادی ہے، جس میں سارس کو پنجرے میں قید کر دیا گیا ہے؟