ہندوتو اور ہندو مت کا فرق، ملک کا بدلتا منظر نامہ

عبدالحمید نعمانی 

ہندوتو کے نام پر ملک میں سامنے آنے والے واقعات و اعمال نے عام و خاص ہندستانی شہریوں کے لیے کئی طرح کے شکوک و سوالات کھڑے کر دیے ہیں ،حالاں کہ شکوک و سوالات کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے، جن سے یا تو نئے نظریہ حیات کے تحت الگ مکتب فکر سامنے آئے یا ماضی سے بالکل علیحدہ تعبیرات و تشریحات اور شکلیں، اسے پرانک روایات، بودھ مت، جین مت سے لے کر بعد کے سکھ مت، لنگایت، کبیر پنتھ، برہمو سماج، آریا سماج وغیرہ کے حوالے سے سمجھا جا سکتا ہے، اس بدلتے منظر نامہ اور من مانے متضاد و متصادم تعبیرات و نظریات نے “سناتن “کے معنی کو قطعی بے معنی بنا کر رکھ دیا ہے اور منفی رد عمل اور دیگر کے خلاف زبردستی اور جارحانہ سر گرمیوں نے مثبت فکر و عمل کی بنیادوں کو مخدوش و منہدم سا کر کے رکھ دیا ہے اس کے پیش نظر تعمیری عمل، وقت کا تقاضا ہوتا ہے، اس پر سنجیدہ توجہ کے بجائے مختلف قسم کے دہشت زدہ کرنے والے طریقے اختیار کر کے شکوک و سوالات کو بے معنی اور جرم قرار دینے کی کوششیں ہوتی ہیں ان سے توجہ دوسری طرف کرنے پر زور صرف کیا جاتا ہے ، آج کی تاریخ میں برہمن واد اور ہندوتو کو ہندو مت، ہندو دھرم کا ہم معنی باور کرانے کی بے جا سعی کی جا رہی ہے، جب کہ اصلا برہمن واد اور ہندوتو ایک تفوق پسند منفی فکر و عمل سے عبارت ہے، اس پر تنقید و مخالفت کو ملک اور دھرم کی مخالفت و مذمت قرار نہیں دیا جا سکتا ہے ،ویسے بھی دھرم کی مثبت و مفید باتوں کی مخالفت کوئی دانش مندی نہیں ہے، جیوتی با پھولے، ڈاکٹر امبیڈکر وغیرہ نے بہت سی جن باتوں پر تنقید کرتے ہوئے مسترد کر دیا ہے، ان کے متعلق غور و فکر کرتے کے معقول تعبیرات و جوابات پیش کرنے کی ضرورت ہے، کنڑ کلا کار چیتن چندر کے منفی جارحانہ ہندوتو پر تبصرے کو صحیح پس منظر دیکھنا ہوگا، ڈاکٹر امبیڈکر اور دیگر بہت سے اہل علم نے ، ہندوتو اور برہمن واد پر خاصے سخت تنقید و تبصرے کیے ہیں سوامی دیانند نے ستیارتھ پرکاش اور دوسری تحریروں میں ہندوتو اور برہمن واد کی بہت سے رائج افکار و روایات پر سخت تبصرے کیے ہیں، اور آج بھی بہت سے لوگ کئی باتوں کو لے کر اختلافات کرتے ہیں، اس سلسلے میں بار بار اصل موضوع پر بحث و گفتگو کے بجائے اسلام و قرآن اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو درمیان میں لانا راست رویہ نہیں ہے، ایسا نہیں ہے کہ اسلام اور قرآن پر اعتراضات و جارحانہ تبصرے نہیں ہوئے ہیں، خود سوامی دیانند کی ستیارتھ پرکاش کا چودھواں باب قرآن پر اعتراضات و تبصرے سے متعلق ہے، مستشرقین نے بہت کچھ لکھا ہے، اس کے متعلق وسیع لٹریچر ہے، لیکن مسلم اور انصاف پسند غیر مسلم اہل علم نے ،تمام اعتراضات و تبصرے کا جائزہ لے کر تحریری شکل میں بتایا ہے کہ ان کے بڑے حصے کا تعلق نا سمجھی، بے خبری،عدم تحقیق، اور معاندت و عداوت کے فاسد و کاسد جذے سے ہے اور بقیہ حصہ غلط فہمی اور اصل مصادر و ماخذ تک عدم رسائی اور معتبر مستند ، غیر معتبر، صحیح، غیر صحیح میں تمیز کیے بغیر مواد کے استعمال کرنے پر مشتمل ہے، سوامی دیانند کی ستیارتھ پرکاش کا جواب حق پرکاش مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کی موجود ہے، ہندوتو اور برہمن واد پر تبصرے و سوالات کو فرقہ وارانہ رنگ دینا بے ایمانی ہے، اس پر اعتراضات و سوالات زیادہ تر غیر مسلموں کی طرف سے ہیں، وہ چاہے ڈاکٹر چندر شیکھر ہوں یا سوامی پرساد موریہ یا پھر ڈاکٹر رتن لال، پروفیسر، لکشمن، دلیپ منڈل، رام پنیانی، کنول بھارتی جیسے لوگ ہوں، یہ سب اپنے اکثریتی سماج کے کچھ تہذیبی، سماجی، سیاسی، اقتصادی مسائل کو زیر بحث لا کر ان پر تنقید و تبصرہ کرتے ہیں تو ان سے بار بار کہا جاتا ہے کہ وہ ہندوتو کے علاوہ دیگر مذاہب شخصیات پر بات کیوں نہیں کرتے ہیں، اس طرح کا مطالبہ شر انگیزی اور فساد فکر و عمل پر مبنی اور اصل سوالات سے توجہ ہٹا کر اپنے مقاصد و مفادات کے تحفظ کے حالات کو بنائے رکھنے کی منصوبہ بند کوشش کا حصہ ہے، ایک ہندوتو وادی کہہ رہا تھا کہ رنگیلا رسول کتاب میں جو کچھ ہے اسے سامنے کیوں نہیں لاتے ہیں، اس پر بات ہونی چاہیے، لیکن اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ اس کے متعلق باتیں ہو چکی ہیں، مولانا امرتسری رح کی ہی سنجیدہ اسلوب میں لکھا جواب، مقدس رسول ﷺ ، موجود ہے، کسی عظیم تاریخی رہنما شخصیت اور ایک عظیم گروہ کے رسول کو رنگیلا رسول قرار دینا بذات خود دماغی کوڑھ اور فساد خون و خمیر کا ثبوت و اظہار ہے، جسے ہندستانی روایات میں محترم و مکرم رہنما شخصیت کے طور پر شامل وقبول کیا گیا ہو ، جسے بھارتیندو ہریش چندر نے پنچم وتراتما میں مہاتما لکھا ہے اور جس نے ہند کا نام محبت سے لیا، اس سے منسوب اشیاء کا بہتر طریقے سے ذکر کیا ہے، اس کے متعلق برہنہ گفتاری شرافت اور ہندستانیت دونوں کا قتل ہے، کچھ اسباب کے تحت، ڈاکٹر امبیڈکر جیسے بہت سے غیر مسلموں نے چاہے جو کچھ بھی رام ، کرشن کے متعلق لکھا کہا ہو اور آج کہا جا رہا ہے لیکن مسلم اکابر و اہل علم و ادب ،صوفیاء و مشائخ نے ان کا ذکر ہمیشہ عزت و اہمیت کے ساتھ، اپنے کلام و بیانات میں کیا ہے، اقبال نے رام چندر کو امام ہند کہا ہے، انھوں معروف عظیم شخصیات کو تحریفات و خرافات سے الگ کر کے بہ نظر احترام دیکھا ہے، رسول پاک ﷺ کو بھی اصل ہندستانی روایات میں مسترد نہیں کیا گیا ہے بلکہ مختلف جہات سے معزز مقام دیا گیا ہے، قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ، مرزا مظہر جان جاںؒ، مولانا امام قاسم نانوتویؒ، مولانا گیلانیؒ جیسے بہت سے اکابر و مشائخ نے رام، کرشن، بودھ کا ذکر بہت احترام سے کیا ہے، امام نانوتوی رح کا یہ بیان ،ان کے پوتے، حضرت قاری محمد طیبؒ نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے

“ہندو اقوام کے بڑوں کو، مثل رام چندر جی و کرشن کو نام لے کر کبھی برا نہ کہو اور کوئی توہین آمیز کلمہ ان کی شان میں نہ کہو، ممکن ہے کہ یہ اپنے وقت میں مردان حق ہوں جو بہ طور ہادی و نذیر بھیجے گئے ہوں، اور شرائع حقہ لے کر ہندستان کی اصلاح کے لیے آئے ہوں لیکن مرور ایام (گزرتے دنوں) سے بعد کے لوگوں نے ان کی شریعتیں مسخ کر دی ہوں، (اسلام اور فرقہ واریت صفحہ 26 مطبوعہ تاج المعارف دیوبند 1956)

حضرت نانوتوی رح کی بات اہم و قابل توجہ ہے، ایسا دیگر مسلم، غیر مسلم بھی کہتے ہیں، برہمن وادیوں اور ڈاکٹر بھاگوت کے بہ قول، پنڈتوں نے بڑوں کے نام پر بہت کچھ تحریفات و اضافے کر دیے ہیں، بعد کے دنوں میں انہوں نے بہت سی ایسی باتوں کو سامنے لانے کا کام کیا ہے جن کا بھارت کی اصل روح افکار و روایات سے کوئی تعلق نہیں ہے، اسلام کی تضحیک، اللہ و رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین وغیرہ، اصل ہندستانی روایات کے منافی ہے، یہ کچھ نئے نئے بنے بوالی بابا، منڈ لیشور،آچاریہ سیاسی و مفادات پرستوں کے دماغی فتور وفساد کا نتیجہ بد ہے، یہ بالکل طے ہے کہ کائنات کے خالق و رب کا بھیجا کوئی معصوم و مقدس عظیم انسان ،انسانی سماج کو اپنی عبادت کے لیے نہیں کہہ سکتا ہے اور نہ خود کو معبود کے طور پر پیش کر سکتا ہے، مولانا ارشد مدنی نے موجودہ حالات میں ایک ٹی وی انٹرویو میں بہت معقول و صحیح بات کہی کہ خالق و رب کا بھیجا ہادی، شرک کی تعلیم ہرگز نہیں دے سکتا ہے۔

فرقہ پرست عناصر کی طرف سے فرقہ وارانہ خطوط پر سماج کی تقسیم اور ماحول سازی کی کوشش، سراسر شر پسندی ونفرت پرستی ہے نہ کہ ہندستانی تہذیب و روایات۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com