راہول گاندھی کے خلاف کارروائی پر اب جرمنی کا ردعمل

نئی دہلی: (جاوید اختر) جرمنی نے راہول گاندھی کی برطرفی معاملے پر امید ظاہر کی کہ “جمہوری اصولوں” کا خیال رکھا جائے گا۔ ہتک عزت کیس میں عدالت سے قصوروار قرار دیے جانے پر کانگریس کے سابق صدر کی پارلیمانی رکنیت گزشتہ ہفتے منسوخ کردی گئی تھی۔

اپوزیشن کانگریس پارٹی کے سابق صدر راہول گاندھی کو ہتک عزت کے ایک کیس میں دو برس قید کی سزا اور پارلیمان کی رکنیت منسوخ کر دینے کے اقدام کے دنیا بھر میں تذکرے ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف وزیر قانون کرن رجیجو نے کہا ہے کہ بھارت اپنے داخلی معاملات میں کوئی غیر ملکی مداخلت برداشت نہیں کرے گا۔

امریکی وزارت خارجہ کے نائب ترجمان نے دو روز قبل بھارت کو یہ نصیحت کرتے ہوئے کہ “قانون کی حکمرانی اور عدالتی آزادی جمہوریت کا بنیادی پتھر ہے” کہا تھا کہ امریکہ راہول گاندھی معاملے میں ہونے والی پیش رفت پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔

جرمن وزارت خارجہ نے کیا کہا؟

جرمن وزارت خارجہ کی ترجمان نے راہول گاندھی معاملے پر ڈی ڈبلیو کے ایک نامہ نگار کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں بدھ کے روز کہا کہ جرمنی صورت حال پر نگاہ رکھے ہوئے ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ عدالتی آزادی کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔”

انہوں نے مزید کہا کہ “ہماری اطلاعات کے مطابق راہول گاندھی اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس وقت یہ واضح ہو جائے گا کہ یہ فیصلہ برقرار رہتا ہے یا نہیں اور ان کی پارلیمانی رکنیت منسوخ کرنے کی کوئی بنیاد ہے یا نہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ راہول گاندھی کے خلاف کارروائی میں عدالتی انصاف اور بنیادی جمہوری قدروں کا پورا خیال رکھا جائے گا۔”

‘داخلی معاملے میں مداخلت ناقابل برداشت’

بھارت کے وزیر قانون کرن رجیجو نے جرمن وزارت خارجہ کی جانب سے راہول گاندھی معاملے پر تبصرہ کیے جانے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اپنے داخلی معاملات میں غیر ملکی مداخلت کو قطعی برداشت نہیں کرے گا۔

اس سے قبل کانگریس کے سینیئر رہنما اور رکن پارلیمان دگ وجے سنگھ نے راہول گاندھی کی برطرفی کا ‘نوٹ لینے’ پر جرمنی کا شکریہ ادا کیا۔

دگ وجے سنگھ نے ایک ٹویٹ کرکے کہا، “جرمن وزارت خارجہ کا شکریہ کہ آپ نے اس بات کا نوٹ لیا کہ راہول گاندھی کو سزا کے ذریعہ بھارت میں جمہوریت کے ساتھ کس طرح مصالحت کی جا رہی ہے۔”

https://twitter.com/KirenRijiju/status/1641314852965879808?t=TDU1oh1CKmQ0R_xt_VYtRw&s=19

کرن رجیجو نے اپنی ٹویٹ میں کہا، “یاد رکھیں، بھارتی عدلیہ کسی غیر ملکی مداخلت سے متاثر نہیں ہو گی۔ بھارت کوئی غیر ملکی مداخلت برداشت نہیں کرے گا، کیونکہ ہمارے وزیر اعظم ہیں: شری نریندر مودی جی۔”

کانگریس میڈیا ڈپارٹمنٹ کے سربراہ پون کھیڑا نے رجیجو پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا، “مسٹر رجیجو آپ اصل موضوع سے بھٹک کیوں رہے ہیں؟ معاملہ یہ ہے کہ وزیر اعظم اڈانی کے متعلق  راہول گاندھی کے سوالوں کا جواب کیوں نہیں دے رہے ہیں؟ لوگوں کو گمراہ کرنے کے بجائے اصل سوال کا جواب دیجئے۔”

امریکہ نے کیا کہا تھا؟

اس ہفتے کے اوائل میں امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا تھا کہ امریکہ راہول گاندھی کیس میں بھارتی عدالتوں پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔

انہوں نے کہا تھا، “قانون کی حکمرانی اور عدالتی آزادی کا احترام کسی بھی جمہوریت کا بنیادی پتھر ہے۔ ہم بھارتی عدالتوں میں مسٹر گاندھی کے کیس پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں اور ہم جمہوری قدروں بشمول اظہار رائے کی آزادی جیسے اپنے مشترکہ عہدو پیمان پر بھارتی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہیں۔”

امریکی عہدیدار نے مزید کہا تھا، “اپنے بھارتی شراکت داروں کے ساتھ بات چیت میں ہم جمہوری اصولوں اور انسانی حقوق کے تحفظ بشمول اظہار رائے کی آزادی کو اجاگر کرتے رہیں گے، جو کہ دونوں جمہورتیوں کے استحکام کی کلید ہے۔”

راہول کی رکنیت بحال ہونے کے متعلق کانگریس پرامید

کانگریس کے ذرائع کے مطابق پارٹی کو پورا یقین ہے کہ گجرات کی ایک نچلی عدالت کی جانب سے دیا گیا فیصلہ اعلیٰ عدالتوں میں غلط ثابت ہو جائے گا۔ اور ایسا ہوا تو لوک سبھا کو راہول گاندھی کی رکنیت بحال کرنی ہوگی۔ اس امید کو محمد فیصل کے معاملے سے مزید تقویت ملی ہے۔

نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے رکن پارلیمان محمد فیصل کو اقدام قتل کے ایک کیس میں گزشتہ برس قصور وار پائے جانے پر دس برس قید کی سزاکے بعد رکنیت منسوخ کردی گئی تھی۔

حالانکہ جنوری میں کیرل ہائی کورٹ نے فیصل کی سزا پر روک لگا دی تھی لیکن لوک سبھا کی رکنیت بحال نہیں کی گئی، جس کے خلاف انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ جہاں کل یعنی 29 مارچ کو سماعت شروع ہونے سے قبل ہی لوک سبھا نے ان کی رکنیت بحال کردی۔

خیال رہے کہ بھارت کے عوامی نمائندگی قانون اور سپریم کورٹ کے سن 2013 کے ایک فیصلے کے مطابق پارلیمان کے ایوان زیریں (لوک سبھا) یا ریاستی قانون ساز اسمبلی کے رکن کی رکنیت منسوخ ہونے کے لیے اس کا قصور وار پایا جانا اور کم سے کم دو برس قید کی سزا پانا کافی ہے۔ تاہم سزایافتہ قانون ساز اگر اعلیٰ عدالت سے اپنے خلاف فیصلے پر اسٹے حاصل کرلے تو اس کی رکنیت بچ سکتی ہے۔ لکش دیپ سے لوک سبھا کے رکن محمد فیصل اس کی تازہ مثال ہیں۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com