کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک کے ہوشربا انکشافات

افتخار گیلانی

جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک جب یہ اعتراف کر رہے تھے کہ فروری 2019میں کشمیر کے پلوامہ علاقہ میں سیکورٹی اہلکاروں کی کانوائے پر حملہ کے بعد ان کو خاموش رہنے کو کہا گیا تھا، کیونکہ اس کا استعمال پاکستان کے خلاف ایک جنگی جنون پیدا کرنے اور مئی میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل ہندو ووٹروں کو لام بند کرنے کیلئے کرنا تھا، تو مجھے دوسری جنگ عظیم کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔

 1933میں اقتدار میں آنے کے بعد جرمن آمر ایڈولف ہٹلر نے اپنے ملک کی فوجی قوت میں بے تحاشہ اضافہ کرنا شروع کر دیا تھا، مگر اتحادیوں کو سبق سکھانے اور پہلی جنگ عظیم کی شکست کا بدلہ لینے کا اسکو کوئی موقع نہیں مل پا رہا تھا۔ دنیا بھی اب پرسکون ہو چکی تھی اور ادراک ہو چکا تھا کہ کسی اور کشت و خون سے پرہیز کیا جائے۔ اگست 1939کو ہٹلر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور اس نے اینٹلی جنس کے معتمد افسران کو حکم دیا کہ پولینڈ پر حملہ کرنے کیلئے کوئی بہانہ تراشا جائے۔ ادھر پولینڈ اتنا ڈھیٹ تھا، اشتعال انگیزیوں کے باوجود وہ جنگ شروع کرنے کا کوئی موقع نہیں دے رہا تھا۔ جرمن خفیہ تنظیم کے ایک افسر کرنل ہیڈرک اور اسکے معاون میجر نوجک نے نازی فوج سے ایسے 30فوجیوں کا انتخا ب کیا، جو پولش زبان میں مہارت رکھتے تھے اور ان پر مشتمل ایک نقلی پولش فوج کا ایک یونٹ ترتب دے دیا گیا۔

31اگست 1939 کی شام اس نقلی پولش فوج (جو دراصل جرمن خفیہ یونٹ تھی) نے جرمن سرحدی قصبہ گلی وز پر دھاوا بول دکر وہاں کے ریڈیو اسٹیشن پر قبضہ کرکے کئی جرمن فوجیوں ، پولیس اور سویلین افراد کو ہلاک اور زخمی کردیا۔ میجر نوجک کے ذمہ یہ بھی کام تھا کہ ریڈیو اسٹیشن سے ہٹلر اور جرمنی کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس تقریر کا مسودہ ہٹلر نے خود ہی تحریر کیا تھا۔ نوجک نے یہ تقریر پانچ منٹ میں ختم کردی۔ اس کے جواب میں ہٹلر نے جرمن قوم کی آن و بان کا حوالہ دیکر اس قتل عام کا بدلہ لینے کی غرض سے اگلے ہی دن یعنی یکم ستمبر کو پولینڈ پر دھاوا بول کر دوسری جنگ عظیم کی شروعات کردی۔

 پولینڈ واویلا کرتا رہا کہ اس قتل عام سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ مگر کون سنتا۔ اس یونٹ نے پیچھے جو نشانات چھوڑے تھے، و ہ پولش فوج سے تعلق رکھتے تھے۔ عینی شایدین نے ان کو پولش زبان میں نعرے لگاتے دیکھا اور سنا بھی تھا۔ خیر جنگ کا آغاز ہو گیا۔ 1945 تک اس جنگ میں 56 ملین افراد ہلاک ہو گئے، مزید 55 ملین جنگ سے پیدا شدہ صورت حال قحط، بیماری وغیرہ کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی کا نام و نشان مٹ گیا۔ خود جرمنی کے 30لاکھ فوجی مارے گئے اور ہٹلر کو بھی خود کشی کرنی پڑی۔

کیا کچھ ایسی ہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ پلوامہ واقعہ کے علاوہ 2001میں بھارتی پارلیمان پر حملہ، 2008 میں تجارتی شہر ممبئی کے پر دہشت گردانہ حملہ، 1995میں کشمیر کے پہلگام علاقہ سے پانچ مغربی سیاحوں کا اغوائ، اسی سال بھارت کے یوم جمہوریہ یعنی 26جنوری کو اس وقت کے کشمیر کے گورنر کے وی کرشنا راو ء پر اسٹیڈیم میں مارچ پاسٹ کے دوران قاتلانہ حملہ ، ایسے چند واقعات ہیں ، جن کی بھر پور پیشگی اطلاعات حکومت کے پاس تھیں،مگر ان کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ اکثر واقعات میں لگتا ہے کہ حملہ آوروں کو سہولیت بھی فراہم کی گئی۔ یہ ایسے واقعات ہیں، جن کے بعد بھارت میں جنگی جنون پیدا کر دیا گیا اور پاکستان پر حملہ کرنے کی بھی باتیں کی گئیں۔ پلوامہ کے بعد بالا کوٹ پر بھارتی فضائیہ کے حملہ کے بعد تو دونوں ملکوں کی فضائیہ آمنے سامنے آ گئی تھی۔ بھارت کے ایک جہاز کو گرا کر پائلٹ ابھی نندن واردھمان کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ پلوامہ ہلاکت کے ایک دن بعد دارالحکومت دہلی کے ویمن پریس کلب میں ایک کولیگ کی الوداعی تقریب میں شرکت کرنے کے بعد جب میں باہر نکلا، تو دیکھا کہ اسکولوں کے نو خیز بچے ہاتھوں میں پرچم لئے پاکستان اور کشمیریوں کے خلاف نفرت انگیز نعرے لگاتے ہوئے انڈیا گیٹ کی طرف رواں تھے۔ انڈیا گیٹ کے پاس حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اراکین پارلیمنٹ کے معیت میں ایک جم غفیر پر جنگی جنون سوار تھا۔ وہ لاہور اور مظفر آباد پر بھارتی پرچم لہرانے کیلئے بے تاب ہو رہے تھے اور کشمیری مسلمانوں کو سبق سکھانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔آفس پہنچ کر معلوم ہوا کہ پٹنہ، چھتیس گڈ ھ، دہرا دون اور ملک کے دیگر علاقوں سے کشمیری تاجروں اور طالب علموں پر حملوں اور ان کو بے عزت کرنے کی خبریں متواتر موصول ہو رہی ہیں۔ دیر رات گھر واپس پہنچ کر دیکھا کالونی کے دیگر بلاکوں میں رہنے والے چند کشمیری خاندان ہمارے یہاں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ بتایا گیا کہ شام ہوتے ہی علاقہ میں بجرنگ دل کے کارکنوں نے مکینوں کو باہر نکالا اور ہاتھوں میں موم بتیاں لئے مارچ کرتے ہوئے کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف نعرے بلند کرتے ہوئے خوب ہڑ بونگ مچائی تھی۔

کالونی میں ہمارے بلاک کے گارڈ نے ہمیں گھر کے اندر رہنے ، دروازے اور کھڑکیاں بند کرنے کی ہدایت دی۔ باہری گیٹ کے پاس ایک ہجوم پر جوش نعرے لگا رہا تھا۔ میں نے دہلی پولیس اور وزارت داخلہ میں جہاں تک ممکن ہوسکتا تھا، رابط کر نے کی کوشش کی۔ ان لمحوں میں مجھے 2002 کے گجرات فسادات میں ہلاک ہوئے کانگریس کے سابق ممبر پارلیمنٹ احسان جعفری یاد آرہے تھے، کم و بیش وہ اسی طرح کے حالات کا شکار ہوگئے تھے۔ آدھے گھنٹے کے بعد دہلی پولیس کی ایک ٹیم آئی اور انہوں نے ہجوم کو پارک میں جلسہ کرنے کی صلاح دی۔ قریباً ایک گھنٹے کے بعد ہجوم پھر واپس آیا۔ اور گیٹ کے پاس اشتعال انگیز نعرے لگائے۔ آدھی رات کو میں نے فیملی کو ایک مسلم اکثریتی علاقہ میں ایک رشتہ دار کی ہاں شفٹ کروایا اور خود فتر میں جاکر پناہ لی۔ اگلے کئی روز میرے کولیگ منن کمار نے اپنے گھر میں مجھے پناہ دی۔ اس واقعہ نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا، کہ مجھے باہر نوکری ڈھونڈنے کی تگ و د و کرکے بے گھر ہونا پڑا۔

دراصل اس دوران وزیر اعظم نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد چونکہ معیشت کی بحالی اور دیگر وعدے ہوا ہوگئے تھے،رام مندر کی تعمیر کے نام پر کوئی تحریک برپا نہیں ہو پا رہی تھی۔صوبائی انتخابات میں کسانوں ، دلتوں، دوسرے پسماندہ طبقوں اور اقلیتوں نے مل کر ان کو شکست دی تھی۔ اس کو سامنے رکھتے ہوئے مئی میں عام انتخابات کے پیش نظر وہ آخری ترپ کا پتا یعنی نیشنلزم پر بحث کروا کے اور ہندوئوںکو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش میں تھے، جس کا موقعہ پلوامہ نے فراہم کردیا۔

اسی طرح کا ایک واقعہ جولائی 1995میں جنوبی کشمیر کے پہلگام پہاڑوں سے 6 مغربی سیاحوں کا اغوا اور گمشدگی تھا۔ جس نے بیک جنبش ایک سیاسی تحریک آزادی کو مغربی دنیا میں کٹہرے میں لا کرکھڑا کر کے رکھ دیا۔ عموماً تحریک کشمیر کے حوالے سے اکثر مغربی ممالک نرم گوشہ رکھتے تھے۔ مگر یہ واقعہ نہ صرف مغربی ممالک کی اخلاقی اور سفارتی ہمدردیاں ختم کرنے کا باعث بنا، بلکہ رفتہ رفتہ اس واقعہ کو بنیا د بنا کرکشمیر میں جاری عسکری تحریک کی تاروں کو بھی بین الاقوامی دہشت گردی سے جوڑنے کی بھر پور کوششیں ہوئیں۔ دو برطانوی صحافیوں ‘ ایڈریان لیوی اور کیتھی اسکاٹ کلارک کی تحریر کردہ The Meadow نامی تفتیشی کتاب نے الفاران کے ذریعے اغوا کئے گئے پانچ مغربی سیاحوں کے معاملے پر سے پردے اٹھائے ، تو بھارت کے کسی ادارے کو ابھی تک اس کتاب کے مندرجات کی تردید کرنے کی جراٗت نہیں ہوئی۔

اغواکئے گئے سیاحوں میں سے ایک ناروے کے ہانس کرسٹیان اوسٹرو کی سربریدہ لاش پائی گئی۔کتاب کے مصنفین نے بھارتی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ انالسس ونگ کے دو سابق سربراہوں کے حوالے سے یہ ہوشربا انکشاف کیا، کہ اغوا کے اس واقعہ کو جان بو جھ کر عالمی برادری میں پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے بھرپور استعمال کیا گیا۔مصنفین کا کہنا ہے کہ ان مغربی سیاحوں کو بچایا جاسکتا تھا کیوں کہ را (R&AW) کے اہلکاراغوا کے پورے واقعے کے دوران نہ صرف سیاحوں ا ور اغواکاروں پر مسلسل نگاہ رکھے ہوئے تھے بلکہ ان کی تصویریں بھی لیتے رہے تھے۔جب ایک خاتون کوہ پیما، ناروے کے سیاح کے اغوا کی اطلاع دینے بھارتی فوج کے راشٹریہ رائفلز کے کیمپ پہنچی، بجائے داد رسی کے، اس کی عصمت دری کی گئی۔ اغواکاروں کی نقل و حرکت کی اطلاع پردینے پر مامور جموں و کشمیر پولیس کے ایک مخبر ’ایجنٹ اے‘ کوفوج نے عسکریت پسند کی لیبل لگا کر قتل کردیا، تاکہ اطلاع کا یہ سرچشمہ یہ بند ہوجائے۔

دونوں برطانوی صحافیوں نے شواہد کی بنیاد پر لکھا ہے کہ بھارت نے سیاحوں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا، تاکہ پاکستان کے خلاف ایک بڑی سرد جنگ جیتی جا سکے۔بھارت نے اس واقعہ کو پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے موقع غنیمت جانا اور انڈین انٹیلی جنس اور آرمی کے اندر موجود سخت گیر عناصربات چیت یا کارروائی کرکے یرغمالوں کو بچانے کے بجائے اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا راو کے اس ہدایت نامے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تمام حربے استعمال کرنے میں مصروف ہوگئے ‘ کہ دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ پاکستان سرکاری طور پر دہشت گردی کی اعانت کررہا ہے۔ جب الفاران نے مغربی سیاحوں کو چھوڑا تو انٹیلی جنس اور فوج کے حمایت یافتہ تائب جنگجووں نے انہیں اپنی تحویل میں لے لیااور راشٹریہ رائفلز کے کیمپ میں ان کو رکھ کر بعد میں ہلاک کر دیا گیا۔

 اینڈرین لیوی کے مطابق دسمبر 1999 میں انڈین ایرلائنس کے طیارہ IC 814 کے اغوا کے معاملے میں خفیہ ایجنسی کے ایک افسر نے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو دہشت گردوں کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے بجائے مسافروں سے بھرے طیارے کو اڑا دینے کا مشورہ دیا تھا۔ تاکہ پاکستان کو اس واقعہ کیلئے مکمل طور پر بدنام کیا جائے۔ یہ افسر آجکل انتہائی کلیدی عہدے پر فائز ہے۔

 اسی طرح نومبر 2008 کو جب اقتصادی مرکز ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ ہوا، تو تقریبا سبھی خفیہ اداروں چاہیے امریکی سی آئی آے ہویا بھارتی ایجنسیاں جیسے کہ اینٹلیجنس بیورو، ریسرچ اینڈ اینالائسز ونگ (رائے) حتیٰ کی ممبئی پولیس اور پانچ ستارہ ہوٹل تاج کی انتظامیہ کو بھی اس حملے کی پیشگی اطلاع تھی۔ اڈریین لیوی اور کیتھی اسکارٹ کلارک نے اپنی کتاب دی سیج (The Siege) میں انکشاف کیا ہے، کہ ایک سال کے عرصے کے دوران مختلف مواقع پر126یسی اطلاعات ان اداروں نے موصول کی تھی۔ جن میں ان حملوں کی پیشن گوئی کے علاوہ حملہ آوروں کے ذریعے استعمال کئے جانے والے راستوں کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔آخر اتنی واضع خفیہ اطلاعات کے باوجود بھارتی اسکیورٹی ایجنسیوں نے ان حملوں کو روکنے کی پیش بندی کیوں نہیں کی؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔ جس سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔ یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ دو سال کے تعطل کے بعد جولائی 2006 ممبئی ٹرین دھماکوں اور بعد میں سمجھوتہ ایکسپریس پر ہوئے حملوں کے بعد دونوں ممالک تعلقات کو معمول پر لانے کی سعی کر رہے تھے۔ جس وقت ممبئی پر قہر برپا ہوا عین اسی وقت پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی بھارت میں اپنے بھارتی ہم منصب موجودہ صدر پرناب مکرجی کے ساتھ نئی دہلی کے حیدر آباد ہاوس میں محو گفتگو تھے اور بھارتی سیکرٹری داخلہ مدھوکر گپتا پاکستان میں تھے۔

 خفیہ معلومات اس حد تک واضع تھیں کہ اگست 2008 میں جب ممبی پولیس کے ایک افسر وشواس ناگرے پا ٹل نے شہر کے فیشن ابیل علاقہ کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس کے بطور چارج سنبھالا تو ان کی نظر اس خفیہ فائل پر پڑی جس میں نہ صرف حملوں کا ذکر تھا بلکہ اسکے طریقہ کار پر بھی معلومات تھیں۔ان اطلاعات کا ماخذ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی آے تھی۔ اسی طرح لشکر طیبہ کے ٹریننگ کیمپ میں موجود آئی بی کے ایک مخبر کی بھی پل، پل کی معلومات تھیں۔ جس میں حملہ کیلئے تاج ہوٹل کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس افسر نے فورا تاج ہوٹل کی انتظامیہ کو متنبہ کیا کہ وہ معقول حفاظتی انتظامات کا بندوبست کریں۔ ستمبر 2008 میں اسلام آباد میں میریٹ ہوٹل میں دھماکہ اور اکتوبر میں دوبارہ اسی طرح کی خفیہ معلومات کے حصول کے بعد پاٹل نے نوگھنٹوں تک تاج ہوٹل کی اسکیورٹی کے ساتھ ایک ریہر سہل کی، اور کئی دروازے بند کروائے ، علاوہ ازین ٹاور کے پاس ایک سکیورٹی پکٹ بھی نصب کی۔ ان انتظامات کے بعد جب پاٹل چھٹی پر چلے گئے۔ تاج انتظامیہ نے نہ صرف حفاظتی بندیشین ہٹا لیں، بلکہ سیکورٹی پکٹ بھی ہٹوائی کیونکہ اس پر معمور حفاظتی اہلکاروں نے دوران ڈیوٹی ہوٹل کچن سے کھانا مانگنا شروع کردیا تھا۔

 دوسری طرف خفیہ اطلاعات کے باوجود بھارت کی سیکورٹی انتظامیہ کی لاپروائی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب کمانڈو دستوں یعنی نیشنل سیکورٹی گارڈز (این ایس جی) نے دہلی سے متصل ہریانہ میں اپنے ھیڈکوارٹرسے حملوں کے20 منٹ بعد ہی نقل و حرکت شروع کی تو کابینہ سیکرٹری اور بعد میں وزارت داخلہ کے ایک جوائنٹ سیکرٹری نے فون کرکے ان کو متنبہ کیا کہ احکامات کے بغیر وہ نقل حرکت کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔اس تنبیہ کے 70منٹ بعد وزارت داخلہ نے انکو بتایا کہ صوبائی وزیراعلیٰ نے این ایس جی کی مدد مانگی ہے اسلئے وہ فورا ممبئی روانہ ہوجایئں۔ مگر ایر پورٹ جاکر معلوم ہوا کہ بھارتی فضائیہ کا ٹرانسپورٹ طیارہ ابھی تک کئی سو کلومیٹر دور چندی گڈھ میں ہے۔ کمانڈو یونٹ کے سربراہ جیوتی دتہ نے جب خفیہ ایجنسی راء سے انکا خصوصی طیارہ مانگا تو پتہ چلا کہ اسکا عملہ غائب ہے اور جہاز میں ایندھن بھی نہیں ہے۔

آدھی رات کے بعد جب دستہ بالآخر طیارہ میں سوار ہوا توان کو بتایا گیا کہ وزارت داخلہ کے چند افسران بھی ان کے ہمراہ جارہے ہیں اسلئے ان کا انتظار کیا جائے۔ بالآخر جب طیارہ اگلے دن سویرے ممبئی پہنچا تو افسران کو لینے کیلئے چمچاتی اور لال بتی والی گاڑیاں طیران گاہ پر حاضر تھیں مگر کمانڈو دستوں کو لیجانے کیلئے کوئی ٹرانسپورٹ نہیں تھا۔ اس پورے وقفے کا دوران تاج اور اوبرائے ہوٹلوں نیز یہودی مرکز پر جنگجووٗں نے مکمل کنٹرول حاصل کرلیا تھا اور سینکڑوں افراد لقمہ اجل ہوچکے تھے۔لگتا تھا کہ آپریشن کو جان بھوج کر طوالت دی جا رہی ہے، تاکہ اس کا بھر پوفائدہ اٹھایا جا سکے۔

اسی طرح گو کہ 2013 میں افضل گورو کو پھانسی دینے کے ساتھ 13 دسمبر 2001 کوبھارتی پارلیمنٹ پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کا ایک باب بند ہوگیاہے لیکن اس سے جڑے کئی بڑے سوال آج بھی جواب کے منتظر ہیں۔ 1997 میں افضل نے کشمیر میں دوائوں اور سرجیکل آلات کی ایک چھوٹی سی دکان کھولی تھی۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ عا م زندگی بسر کرنا چاہتے تھے لیکن سیکورٹی فورسیز نے ان کی زندگی اجیرن کردی تھی۔ سیکورٹی فورسز کی طرف سے ان پر جاسوس بننے کے لئے مسلسل دباو ڈالا جاتا رہا۔جب افضل اس کے لئے آمادہ نہیں ہوئے تو ان پر اذیتوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ 22 ویں راشٹریہ رائفلز کے میجر رام موہن رائے نے ان پر اذیتوں کی انتہاکردی تھی۔ اس کے بعد جموں و کشمیر کے اسپیشل آپریشن گروپ نے انکوتحویل میں لیا۔ اس کے کیمپ میں ان کی ملاقات محمد اور طارق نامی دو افراد سے کرائی گئی اور ان کو حکم دیا گیا کہ ان کو دہلی لے جانے کا بندوبست کرنا ہے اور اس کے بعد اس سے کوئی اور کام نہیں لیا جائیگا۔ عدالت نے دو افراد کو لانے کا ان کا اعترافی بیان تو قبول کرلیا تاہم اس بات کو یکسر نظر انداز کردیا کہ ان دونوں سے ان کی ملاقات کہاں ہوئی تھی اور اس معاملے میں پولیس افسر دیوندر سنگھ کا کیا رول تھا؟

 یہی حال کچھ دیگر ایسے واقعات کا بھی ہے۔کیا یہ سبھی فالس فلیگ آپریشن تھے؟ کیا ان کا مقصد صرف پاکستان کو عالمی منظر نامے میں کٹہرے میں کھڑا کرنا تھا؟ کیا اس طرح کے پلان بنانے والوں نے ہٹلر اور اس کے پولینڈ پر حملہ کرنے کی سازش کے انجام پر غور نہیں کیا تھا؟ اگر پاکستان کے ساتھ چھیڑی گئی جنگ ہاتھ سے نکل گئی، تو جنوبی ایشیا کا پورا خطہ تباہ و برباد ہونے کا اندیشہ ہے ۔ وقت آگیا ہے کہ اس دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات خاص طور پر مسئلہ کشمیر کے پر امن حل ڈھونڈیا جائے، جو فریقین کو قابل قبول ہو، تاکہ جنگ بازوں کو ایسے فالس فلیگ آپریشن کرنے سے باز رکھا جائے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com