جماعت اسلامی ہند کے نئے امیر کو مبارک باد اور ملی قیادت سے کچھ باتیں!

محمد علم اللہ، نئی دہلی

گزشتہ دنوں جماعت اسلامی ہند کے 75 سال پورے ہونے کا غلغلہ رہا، اس پر جماعت کے ہفتہ وار انگریزی جریدے ریڈینس نے اپریل 2023 کا ایک خصوصی شمارہ بھی شائع کیا ہے جس کے پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس تنظیم کو یہاں تک پہنچانے کے لئے اس کے بانیان اور قائدین کو کس قدر قربانیاں دینی پڑی تھیں۔ تقسیمِ ہند کے بعد اس ملت پر جو قیامت گذری اس ماحول میں کام کرنا آسان نہیں تھا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ مولانا ابوللیث اصلاحی ندوی، مولانا محمد یوسف، مولانا محمد سراج الحسن، مولانا صدر الدین اصلاحی وغیرہم نے اُس پر آشوب دور میں جماعت کے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے جس جرأت، فراست، تدبر اور جاں فشانی سے کام کیا وہ ان ہی بزرگوں کا حصہ ہے، خواہ وہ مسلمانوں کی شناخت کا مسئلہ ہو یا ان کی دینی وسیاسی رہنمائی یا پھر ان کے حقوق کے لیے جد وجہد ہو، اس جماعت کے قائدین اور کارکنوں نے بے مثال قربانیاں پیش کی ہیں۔

 آزادی کے فوراً بعد بھی جماعت نے اربابِ حکومت کے غیظ و غضب کے باوجود اپنی تعمیری سوچ اور مثبت خدمات کا سلسلہ جاری رکھا۔ چھوٹے چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں تک اپنی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع کیا، لٹریچر تیار کیا، معاشرے کی اصلاح کی جدوجہد کی اور خاص طور پر ملت اسلامیہ کو اس کی فکری و تہذیبی شناخت سے محروم کرنے کی کوششوں کو بے اثر کیا۔ فسادات میں مسلمانوں کی باز آبادکاری اور ان کے اندر ہمت اور حوصلہ پیدا کرنے میں بھی جماعت نے اہم کردار ادا کیا۔ بار بار جیل جانا تو ان بزرگوں کی زندگی کا معمول تھا۔ یہاں ایک واقعہ نقل کرنا بے جا نہ ہوگا۔ ایمرجنسی کے دوران جماعت کی قیادت اور ارکان کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس دوران انہیں بہت سے سیاست دانوں کے ساتھ جیل کی رفاقت ملنے کے ساتھ اپنی بات کہنے کا بھی موقع ملا۔ ایمرجنسی میں گرفتار ہونے والے سیاست دانوں میں اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے جنتا پارٹی کے قائد رام نریش یادو بھی تھے۔ اپنے ہم وطن اور جیل کے ساتھی مولانا صدر الدین اصلاحی سے ہمدردی پیدا ہونا فطری بات تھی۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد وہ باضابطہ طور پر مولانا صدر الدین اصلاحی صاحب کے گھر پر خود ملاقات کے لئے پہنچے۔ اس وقت تک ان کو مولانا سے متعلق خفیہ فائلیں دیکھنے کا موقع مل چکا تھا۔ انھوں نے مولانا سے مزاقاً کہا: ” مولانا جیسے الزامات آپ پر لگے ہوئے ہیں ،ان کی روشنی میں تو اب تک آپ کو پھانسی ہوجانی چاہئے تھی۔‘‘

خبر ہے کہ پچھتر سال کی اس جماعت (کچھ لوگ اس کی عمر 2 اگست 1941ء کی مناسبت سے اکیاسی سال کہتے ہیں، لیکن ہندوستانی جماعت کا دعویٰ ہے کہ اس کا قیام 26 اگست 1948 کو عمل میں آیا تھا اور عملا قدیم جماعت سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے) کے لیے چار سال کی میقات گذارنے کے بعد دوبارہ امیر کی حیثیت سے سید سعادت اللہ حسینی صاحب کا انتخاب عمل میں آیا ہے اور یوں وہ جماعت اسلامی ہند کے دوبارہ چھٹے امیر مقرر کیے گئے ہیں۔ یہ بہرحال ایک خوش آئند خبر ہے کہ اب ہماری تنظیموں کو نوجوان قیادت میسر آ رہی ہے، ہم اپنے اس کالم کے ذرریعے سید سعادت اللہ حسینی کو نیک خواہشات پیش کرتے ہیں اور تمنا کرتے ہیں کہ ان کا انتخاب ملت کے لیے نیک فال ثابت ہو۔ آج اس مناسبت سے ہم جماعت اسلامی کے قائد سمیت جملہ ملی قائدین سے کچھ باتیں کرنا چاہیں گے۔

 ہم سب جانتے ہیں اس وقت ہندوستان میں بہت سی مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے،اور ان پرصرف مضبوط قیادت، حکمت عملی ،سماجی انصاف اور اتحاد کے عزم کے ذریعےقابو پایا جا سکتا ہے۔ بجا طور پر ملت کو جماعت اسلامی کے امیر اور ان جیسے قائدین ملت سے بہت امیدیں ہیں اور لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارے قائدین اب حجروں سے نکل کر مورچے پر بھی نظر آئیں اور ملت کےدرپیش مسائل کو حل کریں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سید سعادت اللہ حسینی صاحب کے انتخاب سے گزشتہ میقات میں جماعت کے ساتھ ملت میں ایک حرکیت محسوس کی گئی تھی، لیکن یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ ادھر چند سالوں میں ملت کو جو درپیش پریشانیاں رہی ہیں ،ان میں اِن ملی قائدین کا کردار تشویشناک حد تک مایوس کن رہا اورلوگ ان کے رویوں سے نالاں اور افسردہ رہے، اس میں بجا طور پر جماعت اسلامی ہند کے قائد بھی شامل ہیں۔ حالاں کہ ماضی میں جماعت اسلامی ہند کی قیادت کا کمیونٹی کے اندر اتحاد اور ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اہم کردار رہا ہے۔ انہوں نے ملت میں اختلافات کو ختم کرنے، سماجی انصاف اور مساوات کے مشترکہ وژن کے تحت کمیونٹی کو اکٹھا کرنے کے لیے جو کام کیا ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ جو لوگ جماعتِ اسلامی ہند کی تاریخ اور اس سے وابستہ قائدین کی جرأت مندی ، مسلم پرسنل لاء بورڈ اور مسلم مجلس مشاورت کے ذریعے ملت کو متحد رکھنے اور ان وفاقی پلیٹ فارموں سے ملت کی بے باک ترجمانی کرنے میں ان کی بے لوث کاوشوں سے واقف ہیں، ان کے لئے جماعت اسلامی کی موجودہ قیادت کی بے اثری مزید تکلیف اور تشویش کا باعث ہے اور صرف جماعت ہی کیا! سچی بات تو یہ ہے کہ تقریبا ہر ملی تنظیم کا یہی حال ہے۔ ان کی توانائیاں بکھری ہوئی ہیں اور اختلافات عروج پر ہیں۔ ایسے میں جماعت اسلامی بہرحال امید کا چراغ ہے۔

تعصب،نفرت اور امتیاز ہر انسانی سماج میں رہا ہے اور رہے گا۔ اس کی وجہ سے بڑے بڑے سماج اور تہذیبیں صفحۂ ہستی سے مٹ گئی ہیں۔ ایک انسانی گروہ جب سماج میں مناسب حصہ داری، سیاسی اقتدار اور معاشی غلبے کے حصول کے لئے اترتاہے تو وہ طبقاتی کشمکش، مذہبی، نسلی علاقائی اور سماجی آویزشیں پیدا کرتا ہے۔ ایسی حالت میں طاقتور گروہ کمزور گروہ کو ہر اعتبار سے پست اور مغلوب کرنےکی کوشش کرتا ہے۔ لیکن ایک عرصہ کے بعد طاقتور گروہ بھی مٹ جاتا ہے اور آویزش اور ٹکراؤ میں نفرت، تعصب، تشدد اور جارحیت کا جو خوفناک ماحول پیدا ہوچکا ہوتا ہے، وہ دونوں گروہوں کی زندگیوں کو اجیرن کردیتا ہے۔ اب تو ماحول یہ ہے کہ ملک کی ہر مصیبت کے لئے اقلیتی گروہوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے، نفرت اور تعصب کی ایک زبردست لہر چل پڑی ہے۔ تحریر، تقریر، تصویر، ترسیل و ابلاغ کے ہر ذریعے اور حربے کو مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب پیدا کرنے اور اسے پھیلانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ منصوبہ بند مسلم مخالف فسادات میں حکام کی جانب داری، بے حسی،چشم پوشی، پولیس ، نیم فوجی دستوں اور ایجنسیوں کی زیادتی، جبر وتشدد اور من گھڑت مقدمات زندگی کا معمول بن گئے ہیں۔ کئی حساس علاقوں میں مسلمان اپنے آپ کو محصور محسوس کر رہے ہیں۔ ہندوستان کے دستور کو عملاً کالعدم قرار دے دیا گیا ہے اور سیکولرزم کی پالیسی کو معطل کردیا گیا ہے۔

بشمول جماعت اسلامی ہند، ہندوستان میں گزشتہ کئی سالوں میں مسلمانوں کی ممتاز جماعتوں اور اداروں کے کام کے جائزے سے بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ نئی صدی میں ہندوستان کے مستقبل کی تعمیر میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن ان کی توانائیاں اس قدر بکھری ہوئی اور ترجیحات اتنے متفرق اور بے ترتیب ہیں کہ آج ان کو ملک کی اجتماعی زندگی میں خاص مقام حاصل نہیں ہے۔ بلکہ آبادی کے لحاظ سے بھی دیگر کم تعداد کے تہذیبی، مذہبی اور ثقافتی گروہوں کے مقابلہ میں بھی ان کی اہمیت اور وقار کم تر ہوکر رہ گیا ہے۔ مسلمان مذہبی اور اخلاقی حیثیت سے ایک کمزور طبقہ ہیں کہ ہزاروں بھیانک تجربات سے گزرنے کے باوجود وہ باہمی چپقلش اور چھوٹے چھوٹے فقہی اور مسلکی اختلافات کے سبب ایک دوسرے کی تذلیل و توہین کے مرض سے چھٹکارا نہیں پاسکے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہماری قیادت کے مراکز بھی مستحکم نہیں ہیں اور ان میں ایک عجیب قسم کا جمود طاری ہے۔ قول وعمل کے تضاد، کھوکھلے نعروں اور جھوٹے وعدوں سے اس سرزمین کے لوگ خواہ کسی بھی مسلک یا مذہب سے تعلق رکھنے والے ہوں، بیزار ہیں۔

سید سعادت اللہ حسینی اور دیگر قائدین و ملی سربراہان کیلئے یہ نکتے ضرور دعوت فکر دے جاتے ہیں کہ وہ اپنی کارکردگی کا محاسبہ کریں گے اور اس بات کا جائزہ لیں گے کہ اس حوالے سے ان کا طرزِ عمل کیا رہا؟ اب تک ان کی وجہ سے قوم پر کیا مثبت و منفی اثرات مرتب ہوئے؟ آج جب کہ ملت اسلامیٔہ ہند ایک بار پھر نازک دور سے گزر رہی ہے اور ملک میں جماعت اسلامی جیسی تنظیموں کے قیام کے وقت ہندوستانی مسلمانوں کے جو مسائل تھے اور جن کے حل کے لئے اس کا قیام عمل میں آیا تھا، وہ مسائل نہ صرف یہ کہ کم و بیش بدستور موجود ہیں بلکہ ان میں مزید الجھاؤ اور پیچیدگی پیدا ہوگئی ہے۔ ایسے حالات میں اس بات کی اور ضرورت بڑھ گئی ہے کہ ملت ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہو۔ قوم کے بڑے ادارے، تنظیمیں اور مقتدر شخصیات اپنے کنج عزلت سے باہر نکلیں، اپنی انا پر قابو پائیں اور اتحاد و اتفاق کا زبانی درس دینے کے بجائے اپنے عمل سے اس کا ثبوت فراہم کریں کہ وہ حالات کے رخ کو موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس ملت کو حوادثِ زمانہ کے تھپیڑوں سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اندرعزم و حوصلہ اور یقین کی حرارت پیدا کی جائے نیز خود اعتمادی اور عزت نفس کے ساتھ سفر جاری رکھنے کے لئے مطلوبہ توانائی مہیا کرائی جائے تاکہ وہ فسطائی اور ظالم طاقتوں کا مقابلہ کر سکیں۔

اس وقت مسلمانوں کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے شعوری نصب العین، عزم و استقامت اور اجتماعیت۔ اگر یہ چیزیں حاصل ہوجاتی ہیں تو حالات میں خوشگوار تبدیلی ناگزیر ہے۔ جماعت اسلامی ہند کو اس وقت ایک ہاری ہوئی بازی لڑنی ہے اور اس کو جیتنے کے لئے جتنی محنت، جیسا صبر، جس طرح کی تندہی، لگن اور جس قسم کی بصیرت، اتحاد و فکر اور جیسا استقلال ضروری ہے، ان سب صفات سے اپنے آپ کو متصف کرنے کی ضرورت ہے۔ ان سب میں سید سعادت اللہ حسینی صاحب کے لیے کام کرنا آسان نہیں ہوگا، ایسے حالات میں انھیں قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا، ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج خود جماعت کے مخالفین سے نمٹنے کا ہوگا اور باہر بھی ان کے لیے حالات پہلے کے مقابلے میں زیادہ تشویش ناک ہوں گے۔

جماعت اسلامی ہند ایک عظیم المرتبت تنظیم ہے اور اس بات سے شاید ہی کسی کو انکار ہو کہ کسی بھی قوم کے عروج و زوال کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کو صاحب بصیرت قائد میسر ہے یا نہیں؟ کیوں کہ قومی زندگی میں قائد ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس طرح جسم کا پورا کنٹرول دماغ کے پاس ہوتا ہے، اسی طرح ایک لیڈر قوم کی بقا اور ترقی کا ضامن ہوتا ہے۔ قائد زندگی کے ہر مرحلے پر قوم کے اندر اور باہر اُٹھنے والے چیلنجوں کے جواب میں اس کا رد عمل متعین کرتا ہے، ساتھ ہی عام حالات میں قومی زندگی کو رواں دواں رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قوموں کی زندگیوں میں سال اور عشرے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی،کبھی نہ لوٹنے سے دیر سے لوٹنا بہتر ہوتا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ نئے قائد کے ساتھ دیگر تنظیموں کے سربراہان بھی ان پہلوؤں پر غور و خوض فرمائیں گے اور نئی امیدوں کے ساتھ مستقبل کا لائحۂ عمل تیار کریں گے۔ صحت مند نقطۂ نظر اور عملی رویے کے ساتھ نام نہاد سماجی و مذہبی قیادت کی گرفت سے باہر آئیں گے اور ایک حقیقی سیاسی، سماجی اور ان سب سے بڑھ کر ایک مستحکم ملی قیادت کو فروغ دیں گے اور اس صورت حال کو سمجھیں گے کہ فرضی تصورات اور خوابوں کے دن ختم ہوگئے ہیں۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com