متنازع فلموں کے پس پشت کارفرما نفسیات اور اس کی حقیقت

علیزےنجف

کسی بھی معاشرے کی تشکیل میں ہمیشہ سے ہی مختلف عوامل کے ساتھ کئی سارے عناصر اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں، معاشرہ اور انسان دونوں ہی ایک دوسرے کا جزو لاینفک ہیں ایک دور میں انسان اس معاشرے کی مثبت طرز پہ تعمیر کے لئے انتھک تگ و دو کرتا ہے پھر بعد کے ادوار میں یہ معاشرہ آنے والی انسانی نسلوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے کسی بھی معاشرے کی صالحیت کو برقرار رکھنے کی ذمےداری عوامی قائد اور انتظامیہ پہ عائد ہوتی ہے جس میں عوام بھی ایک بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، اس کائنات کے کچھ مسلمہ اصول ہیں جو کہ آفاقی و لافانی ہیں، ہر مذہب اس کی تائید کرتا رہا ہے جب تک یہ اصول معاشرے کے بنیادی نظاموں میں شامل ہوتے ہیں معاشرے کی ارتقاء کا سفر جاری رہتا ہے، معاشرہ غیر ضروری الجھنوں سے آزاد رہتا ہے اس ارتقاء کہ جدوجہد میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں لیکن مجموعی طور پہ معاشرہ اعلی فکری نظام کے ساتھ بدلتی دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرتا رہتا ہے، یہ ایک مثالی فکر ہے جو کہ شاذ ہی تکمیل کو پہنچتی ہے، یہ دنیا ہمیشہ سے مختلف طرح کے اختیارات و نظریات کے ساتھ بنتی بگڑتی رہی ہے، کبھی نشیب تو کبھی فراز کے راستوں پہ چلتی رہی ہے، ہم زندگی کی انھیں زندہ حقیقتوں کے ساتھ رہتے ہیں جو کہ ناقابل یقین حد تک تغیر پذیر ہوتے رہتے ہیں، بدلتے وقت کے ساتھ ہندوستانی سیاست اور معاشرے میں بھی کئی طرح کی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ہر سیاسی جماعت اپنے اقتدار کو بچائے رکھنے کے لئے کسی نہ کسی ایجنڈے کا سہارا لیتی رہی ہے، جو کہ بعض اوقات مثبت بھی ہو سکتے ہیں اور منفی بھی۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں ایسے خودساختہ افکار و خیالات کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے جو کہ انتہا پسندی پہ مبنی ہیں اس سے گنگا جمنی تہذیب پہ ضرب پڑ رہی ہے مسلمہ اخلاقیات کے بجائے مذہب کے نام پہ خود ساختہ اقدار کی تبلیغ کی جارہی ہے اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی انارکی اس وقت ہر کسی کے سامنے ہے، عوام کی اکثریت اس کی زد میں ہے، دوسری طرف اہل اقتدار ایسی انارکیت سے پیدا ہونے والے منفی مضمرات سے اپنا دامن بچائے رکھنے کے لئے اصولوں سے سمجھوتہ کرنے سے گریز نہیں کرتے جس سے صورت حال کی سنگینی میں اضافہ ہوتا ہے، ملک میں پائی جانے والی اخلاقی ابتری پہ دانشور طبقہ بھی متفکر دکھائی دے رہا ہے حل کے طور پہ اب تک کوئی واضح دستور سامنے نہیں آ سکا ہے۔

پچھلے دنوں ‘دی کیرالہ اسٹوری’ نامی فلم ریلیز ہوئی فلم دیکھتے ہوئے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ ایک خاص پوائنٹ آف ویو کو فکشن میں ڈھال کر اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ گویا پہلے سے موجود لو جہاد کے پروپیگنڈہ کو سچ ثابت کرنے کے لئے اس فلم کو بنایا گیا ہے اس کے ذریعے مزید ثبوت پیش کرنے کی ایک کوشش کی گئی ہے، اس فلم میں موجود مواد اس قدر غیر اخلاقی اور غیر انسانی ہیں کہ اسے اسلام سے تو کیا کسی بھی مذہب سے جوڑنا انتہائی غیر مہذب عمل ہوگا کیوں کہ ایسی غیر اخلاقی تعلیمات پہ مبنی مذہب کبھی بھی معاشرے میں فروغ نہیں پا سکتا یہ اس کی فطرت کے منافی ہے، یہ فلم دیکھتے ہوئے یہ بات بآسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ اس کو بنانے والے کی نفسیات کس قدر سطحی اور مادہ پرستانہ ہے، محض توجہ پانے اور اکثریتی طبقہ کی نظر میں ہیرو بننے کے لئے ایسے خودساختہ خیالات کو فکشن میں ڈھالا پھر اس پہ حقیقت کا لیبل لگا کر پیش کیا ہے۔

  دی کیرالہ اسٹوری پہ تبصرہ کرنے والے ایک نکتہ داں کی رائے کے مطابق اس مووی میں ‘ بگ لائی’ نامی تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے جس کا استعمال تقریبا سو سال پہلے جرمنی کے ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر نے کیا تھا، اس تکنیک کے مطابق لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے اتنا بڑا جھوٹ بولو اتنا بڑا جھوٹ بولو کہ لوگ سوچنے پہ مجبور ہو جائیں کہ اتنی بڑی بات کوئی اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتا ہے یقیناً اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی سچ ضرور ہوگا، چلو مان لیتے ہیں کہ اس کی تعداد صحیح نہیں لیکن کسی نہ کسی حد تک ایسا کچھ تو ضرور ہوا ہوگا جس پہ اتنی توجہ دی گئی ہے، اس تکنیک کی کامیابی اس امر میں پوشیدہ ہے کہ اس جھوٹ کو چاروں طرف اس طرح پھیلا دو کہ ہرطرف اسی کا چرچا ہو کیوں کہ اس کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ اس میں تکرار ہو لوگوں کے جھٹلانے کے بعد بھی اسے دہراتے رہو جب اس استقامت کے ساتھ کوئی بات سامنے آتی ہے تو لوگ سوچنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں، اس تکنیک کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ اس میں تھوڑی مقدار میں ہی سہی سچ بھی موجود ہو آٹے میں نمک کے برابر ہی سہی جو کہ آٹے کے ذائقے کو بدل دیتی ہے، ایسا آدھا سچ ہمیشہ ہی لوگوں کو بآسانی گمراہ کر سکتا ہے کیوں کہ اس آدھے سچ کی موجود دستاویزات کے ساتھ بآسانی چھیڑ چھاڑ کر کے اپنے موافق بنایا جا سکتا ہے، جیسا کہ اس فلم میں کیا گیا ہے، اس فلم میں موجود کردار کی حقیقت کو باقاعدہ مسخ کر کے فلمایا گیا ہے، جس طرح سے رائی کا پہاڑ بنایا جاتا ہے اسی طرح اس کی حقیقت کو زوم کر کے دکھایا گیا جس میں اس کی پوری ہیئت ہی تبدیل ہو کے رہ گئی ہے، انھوں نے 32 ہزار ہندو لڑکیوں کے مذہب بدلنے کی بات کہی ہے جب کہ حقیقت اس سے بہت مختلف ہے وہ 32 ہزار کیا بلکہ 32 کیس بھی ایسا ثابت نہیں کر سکتے جس میں لڑکیاں ہندو سے مسلم ہوئی ہوں اور ان کا یہ کہنا کہ کیرلا آنے والے سالوں میں اسلامک اسٹیٹ بن جائے گا درحقیقت اس کے ذریعے عام ہندوؤں کے اندر ایک خوف پیدا کرنا چاہتے ہیں، عوام اس ڈر کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان کی حمایت کرنے لگ جائیں، اقتدار کی سب سے بڑی طاقت عوام ہوتے ہیں ان کو ٹریپ کر کے ان پہ حکومت کرنا اب عام سا ہو گیا ہے، فلمساز نے جو کیا سو کیا ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی بھی اپنا داؤ کھیلنے سے نہیں چوکے یہ الگ بات کہ یہ داؤ کامیاب نہیں ہوا، کرناٹک الیکشن کے نتیجے نے یہ ثابت کردیا کہ ہمیں ہمارے بنیادی مسائل کا حل دو آپ کو مذہب کی ٹھیکیدار بننے کی ضرورت نہیں، اس فلم کے کردار اور ان کے ڈائیلاگ پہ غور کرتے ہوئے اس کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ کس خوبصورتی کے ساتھ اس میں ‘بگ لائی’ نامی تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے ہر کسی نے اپنے مفاد کے لئے اس بھٹی پہ اپنی روٹیاں سینکنے کی کوشش کی۔ اس فلم میں بیان کی جانے والی اسٹوری کو اگر فکشن کے خانے میں بھی رکھا جائے تو بھی انتہائی غیر معیاری ہے اس میں مذہب کی ہی نہیں اخلاقیات کی بھی دھجیاں اڑائی گئی ہیں یوں لگ رہا ہے کہ لڑکیوں کا اپنا کوئی مذہب اور کوئی دماغ ہی نہیں اسے کوئی بھی برین واش کر کے کسی بےجان چیز کی طرح استعمال کر سکتا ہے اور وہ محبت کی شادی کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہیں، بےشک ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی محبت کے لئے مذہب چھوڑ دے لیکن چند واقعات کو جنرلائز کرنا انتہائی غیر سنجیدہ عمل ہے، اگر اکثریتی طبقے کو یہ لگتا ہے کہ ان کے مذہب کی لڑکیوں کے ساتھ اس طرح کا غلط اور غیر قانونی برتاؤ کیا جا رہا ہے انھیں اس طرح برین واش کیا جا رہا ہے تو عقل کا تقاضہ تو یہ ہے کہ وہ اپنی مذہبی تعلیمات کو زیادہ بہتر طور سے ان کی زندگی میں شامل کریں عدالت کے ذریعے انھیں تحفظ فراہم کریں نہ کہ ان بیرونی عوامل سے ہی الجھنے لگ جائیں اور اپنے حصے کی ذمےداری سے غافل ہو جائیں، لیکن ایسا تب ہوگا جب اس کی کوئی حقیقت بھی ہوگی، یہاں تو اس طرح کے ردعمل کے پیچھے ایک شرپسند نفسیات پائی جا رہی ہے ایسے میں وہ ان تقاضوں کو بھلا کیا اہمیت دیں گے ان کا اصل مقصد تو محض پروپیگنڈا کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثریتی لوگوں کی نفسیات ایسی ہے جو تحقیق کو اہم نہیں خیال کرتی تعلیمی نظام نے ان کی اس صلاحیت کو بہت نقصان پہنچایا ہے اس فلم نے ایسے ہی لوگوں کو اپروچ کیا ہے تاکہ ان کے ذریعے جھوٹ کا بازار گرم ہو سکے اور نفرت کو بڑھاوا دیا جا سکے ایسے میں معاشرے کے اہل فکر اور اہل بصیرت پہ یہ ذمےداری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کی فکری سطح کا خیال رکھتے ہوئے ان کو حقیقت کے تمام پہلوؤں سے واقف کرائیں جذباتیت اور اشتعال انگیزی کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں ہو سکتی۔

اس وقت سوال یہ پیدا ہوتا ہے مسلمانوں سے متعلق حقائق کا انکشاف ثبوت و شواہد کے بجائے فکشن یا فکشن نما فلموں سے کیوں کیا جاتا ہے، دوسرے کسی بھی مذہب کے کسی ایک شدت پسند طبقے کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کی ذمےداری اس مذہب سے جڑے تمام لوگوں پہ کیسے عائد ہوتی ہے، چلئے فرض کر لیتے ہیں کہ وہ اس فلم کے ذریعے کسی سازش کو بےنقاب کرنا چاہتے ہیں تو کیا محض خیالی دنیا کو فلما کر بغیر حقیقی دستاویز کے اس کا انکشاف کرنا ممکن ہے، اگر کسی اور مذہب کے ٹھیکیدار ان کے ساتھ یہی معاملہ کریں تو کیا وہ اسے بخوشی چپ چاپ قبول کر لیں گے، جذبات کے ساتھ کی جانے والی کوئی بھی بات خواہ کتنی ہی کیوں نہ سننے میں اچھی معلوم ہو اگر وہ زمینی سطح پہ اپنا کوئی وجود نہ رکھتی ہو اور اس کی کوئی دلیل نہ ہو تو جلد از جلد وہ اپنی شناخت کھو دے گی بس اسے صحیح طریقے سے ڈیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ ایسے موقعوں پہ شدت پسند عوامی ردعمل بھی جلتی پہ تیل کا کام کرتے ہیں یہ بھی سچ ہے کہ جلد یا بدیر ایسے ایشوز آپ اپنی موت مرجاتے ہیں لیکن اس دورانیے میں انتظامی سطح پہ کئی طرح کا بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے جس کے بدترین عواقب سالوں تک معاشرے میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔

 اس فلم میں کتنی سچائی ہے اور کتنا جھوٹ ہے تھوڑی دیر کے لئے ہم اس پہ بحث نہیں کرتے بلکہ ہم یہاں پہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس طرح کی ذہنیت کیسے فروغ پاتی ہے۔ انسانی معاشرے میں لوگوں کی ایک بڑی آبادی ایسی ہوتی ہے جو بہاؤ کے ساتھ بہہ جاتے ہیں ان کی اپنی کوئی سمت نہیں ہوتی زمانے میں غالب ذہنیت ہی ان کی ذہنیت ہوتی ہے کسی تبدیلی کی صورت میں وہ اس میں توازن قائم نہیں رکھ پاتے ہیں اور نہ ہی اس کے متعلق غور و فکر کر کے اس کی تردید کر پاتے ہیں۔ اس طرح کے ماحول میں مختلف فن کی بھی نشو و نما ہوتی رہتی ہے، بعض اوقات ایک فنکار ان حالات میں اپنے فن کو اصول و ضوابط کے بجائے ان نظریات کو فن پارے میں تبدیل کر کے پیش کرنا شروع کر دیتا ہے جس کو کہ توجہ مل سکے وہ توجہ کیسی ہوتی ہے اچھی یا بری ان سے انھیں کوئی سروکار نہیں ہوتا ان کی خواہش بس یہ ہوتی ہے کہ انھیں لوگوں کی توجہ، شہرت اور دولت ملتی رہے وہ بحیثیت فنکار کے زندہ رہیں۔ یہ بات ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے کہ جب کوئی چیز ٹرینڈ میں آ جائے اور اسے مقتدر طبقے کی سربراہی حاصل ہو تو لوگ بنا سوچے سمجھے اس طرف دوڑ لگانا شروع کر دیتے ہیں ایک فلم سے جڑے ہوئے فنکار کی اصل فکر یہی ہوتی ہے کہ اس کی فلم اچھا بزنس کرے عوام کی طرف سے اچھا رسپانس ملے اور اس کے فن کو عوام کی داد ملتی رہے، اس کے لئے وہ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار رہتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ہر فنکار اپنے فن کے ساتھ مسلمہ اصولوں کے معاملے میں بھی پختہ سوچ کا حامل ہو وہ ایک عام ذہنیت کا انسان بھی ہو سکتا ہے، ایسے میں وہ جھوٹ کو اسی یقین کے ساتھ پیش کرے گا جیسے کہ سچ کو پیش کیا جاتا ہے، ایک فلم کے بنانے میں کروڑوں روپئے خرچ ہوتے ہیں اس کی ناکامی فلم پروڈیوسرز کا دیوالیہ نکال دیتی ہے اور یہ فلمی صنعت کسی کی زندگی کا سب کچھ ہوتا ہے یہ ان کی شہرت، عزت اور دولت کا دارومدار ہوتی ہے اس لئے اپنے سابقہ نظریات کے ساتھ چل کر اپنے مفادات سے سمجھوتہ کرنا انھیں ایک خسارے کا سودا معلوم ہونے لگتا ہے وہ بگڑے ہوئے معاشرے کو مزید چرس بیچ کر محض اپنی دولت میں اضافہ کرنے کی سوچتے ہیں، انھیں بس اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے باقی دنیا جہنم کی کگار پہ آ کھڑی ہوتی ہے یا تباہ ہوتی ہے انھیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی، بےشک اس طرح سے وقتی طور پہ کئی سارے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے اور عارضی مفادات کو بھی حاصل کیا جا سکتا ہے، لیکن اس بےراہ روی سے پیدا ہونے والے نقصانات اس قدر دوررس اور گہرے ہوتے ہیں کہ وہ تو شاید بچ جائیں لیکن ان کی عفونت ان کی آنے والی نسلوں کے مستقبل کو تعفن زدہ بناتی رہتی ہے، موجودہ وقت میں فلمی صنعت میں ایک بھونچال آ چکا ہے اس کی مخالفت کر کے اس صنعت کی کمر توڑے جانے کی کوشش شروع ہو چکی ہے ایک وقت تھا جب فلمیں ایک کامیاب بزنس و عمدہ آرٹ کی حیثیت رکھتی تھیں جس طرح کی فلمیں ریکارڈ توڑ بزنس کرتیں اسی سے ملتی جلتی تھیم کو ہر کوئی اپنانے کی کوشش کرتا لیکن آج کی تاریخ میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ اب متنازع فلمیں ہی بزنس کا ذریعہ بنتی جا رہی ہیں، اب وہی فلمیں آگے جا سکتی ہیں جس کا مواد ایک خاص طبقے کی ذہنیت کے مطابق ہو، وہ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا کے مصداق بدنامی کو کیش کراتے ہیں یہ مادہ پرست اور غلام ذہنیت کی سب سے بڑی علامت ہے جسے لبرل ازم کے نام پہ فروغ دیا جا رہا ہے۔

دی کیرالہ اسٹوری جس کے بارے میں ہائی کورٹ نے یہ واضح کیا ہے کہ یہ ایک فکشن پہ فلمائی گئی ہے اس کے باوجود کیا وجہ ہے کہ اکثریتی طبقہ مسلمانوں کے خلاف مسلسل زہر افشانی میں مصروف ہے، اگر انھیں واقعی یہ لگتا ہے کہ اس میں سچائی ہے تو یوں ہی زبانی طور پہ گند پھیلانے کے بجائے اس کے ثبوت کی فراہمی پہ زور دیں تاکہ لوگوں کو یہ باور کرا سکیں کہ ہمارا غصہ صحیح ہے، لیکن جب مقتدر طبقے کی حمایت حاصل ہو تو کسی ثبوت کی کیا ضرورت وہ جذبات میں آ کر سبھی سے لوہا لے بیٹھتے ہیں لیکن کہتے ہیں نا کہ ہر اختیار کی ایک حد ہوتی ہے اس کے بعد سچ کا بولا بالا ہوتا ہے، دی کشمیر فائلز حکومت کی منظور نظر تو بن گئی لیکن اس کے بعد اسے عالمی سطح پہ جس رسوائی کا سامنا کرنا پڑا وہ ہر کوئی جانتا ہے حکومت کا دفاعی اور تائیدی رویہ بھی اس کی مجروح شناخت کو مستحکم نہیں کر سکا دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے اس لئے اختیارات کی دنیا بھی بہت مختلف ہو چکی ہے۔ جیسا کہ فلم میں دکھایا گیا کہ کس طرح لڑکیوں کو مذہب کی تبدیلی پہ مجبور کیا جا رہا ہے ان کے ساتھ غیر اخلاقی اور غیر انسانی حرکت کی جا رہی ہے اکثریتی طبقہ اس پہ ناراضگی ظاہر کر رہا ہے یہ غصہ اس وقت کہاں ہوتا ہے جب ان کے اپنے مذہب میں دوسرے مذاہب کی لڑکیوں کو شامل کیا جاتا ہے وہ عمل گھر واپسی کا عمل کیسے بن جاتا ہے۔ ان کے ساتھ ہونے والے انسانیت سوز رویوں کو نظر انداز کیوں کر دیا جاتا ہے ایسے لوگوں کی پشت پناہی کیوں کی جاتی ہے جو مذہب کی آڑ میں نفرت کو بڑھاوا دیتے ہیں اگر غلط یہ ہے تو غلط وہ بھی ہے طاقت کے بل بوتے پہ کسی بھی فتح کو دائمی نہیں بنایا جا سکتا بشرطیکہ عوام شعور و بیداری کی راہ پہ چلیں ۔ ہر مسلمان کے ہر عمل کو اسلام سے جوڑ کر دیکھنا اسی طرح غلط ہے جس طرح دیگر مذاہب کے ماننے والے کچھ برے لوگوں کے عمل کو اس کے مذہب کا فرمان قرار دینا غلط ہے، مذہب ابتدائے آفرینش سے اپنے اصول و قوانین کے ساتھ ناقابل تغیر حالت میں قائم رہتا ہے جب کہ انسان مسلسل تبدیلیوں کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، کسی بھی مذہب کی تعلیمات کو اس مذہب کے ماننے والے کے ہر عمل سے جوڑنا انتہائی غیر عقلی بات ہے، رہی بات داعش کی تو ہندوستانی مسلمان کب ان سے کسی تعلق کی بات کر رہے ہیں۔ اگر انھیں ان سے شکایت ہے تو ان سے بات چیت کریں یا ان کا مقابلہ کریں ان کی غلطیوں کے ردعمل کا بھگتان عوام کیوں بھگتیں، مسلم قائد شروع سے ہی ان کے انسانیت سوز اقدامات پہ اعتراض کرتے ہوئے اس کی مذمت کرتے رہے ہیں تو ایسے میں ان کے فرضی و حقیقی عمل رد عمل کا ذمےدار عام مسلمانوں کو کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جس میں ایسے افراد بھی رہ رہے ہیں جو کہ ملکی نظام کو دستور و قوانین کے بجائے اپنی مرضی و پسند ناپسند کے تابع کرنا چاہتے ہیں ایسے میں حکومت کی ذمےداری ہے کہ وہ نظم و نسق کو بہتر بنائے رکھنے کے لئے ان پہ کارروائی کرے محض پولرائزیشن کے لئے ان کو نظر انداز کرنا کسی طرح کی عقل مندی نہیں اور عوام کو چاہئے کہ بےجا احتجاج کے بجائے حکمت پہ مبنی اقدامات کو فوقیت دیں یہ نہ ہو کہ پٹھان کی بےجا مخالفت کی طرح یہ فلم بھی ہر کسی کو متجسس کر دے اس کو دیکھنا ان کی پہلی ترجیح میں شامل ہو جائے۔ انسان ایک متجسس مخلوق ہے اسے جس سے روکا جائے وہ شدت کے ساتھ اس کی طرف بڑھتا ہے پابندی کے بجائے شعور کو اپروچ کریں کیوں کہ پابندیاں محض سوالات پیدا کرتی ہیں سوالات انسان کو بیکل رکھتے ہیں جب کہ شعور جواب فراہم کرتا ہے، جواب ملنے سے سوچ کی تعمیر ہوتی ہے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com