نئی تعلیمی پالیسی : کارِ جہالت کے ساتھ فرقہ وارانہ مہم کا منظم آغاز

حکومتِ ہند، مرکزی محکمۂ تعلیم اور یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن نے مل کر مُلک کے تعلیمی نظام کی  سا  لمیت کو برباد کرنے کا گویا ٹھیکہ لے لیا ہے۔

صفدر ا مام قادری

کورونا وبا کی افرا تفری کے بیچ میں شب خونی انداز سے نئی تعلیمی پالیسی کا حکومتِ ہند نے آغاز کیا تھا۔صوبوں سے صلاح و مشورہ کے نام پر حکومتِ ہند کو یہ آسانی تھی کہ سیاسی اعتبار سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے حلقے کے صوبے ہی زیادہ تھے، اس لیے اکثر ریاستو ں نے ” آمنا و صدقنا ” کہا اور حکومت کا اُتاولا پن تو اس بات سے بھی سمجھ میں آتا ہے کہ جب اسکول اور کالج ، یونی ورسٹیا ں بند تھیں، ہمارے بچے گھروں میں حیات و موت کی کش مکش کا المیہ ننگی آنکھوں سے ملاحظہ کر رہے تھے ، اس وقت حکومتِ ہند نے اس کے نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کئی طرح کی دشواریوں کے سبب میعاد بڑھانی پڑی اور آخر کار ٢٠٢٣ء کے سیشن سے اِسے نافذ کیا جا رہا ہے۔ اب کم و بیش پورے مُلک میں جولائی ٢٠٢٣ء سے چار سال کا بی ۔اے۔ اور ایک سال کا ایم۔اے۔ کورس پڑھایا جائے گا۔ پچھلے کورسوں کے نام تبدیل کیے گئے ہیں اور جو نئے نام اور اُن کے پرچے متعین ہوئے ہیں ان کا جائزہ لیجیے تو نئے تعلیمی نظام کے معماروں کا ذہنی دیوالیہ پن بہت آسانی سے ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

کورونا کے دوران ہی اُس وقت کے وزیرِتعلیم سے لے کر اب تک حکومتِ ہند کی ساری ایجنسیاں نئے نظامِ تعلیم کی خوبیاں بیان کرنے میں مصروف ہیں۔ مگر یہ بھی سچائی ہے کہ یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں طلبہ اور اساتذہ دونوں میں یہ کش مکش برقرار ہے کہ اس نئے نظامِ تعلیم کی آخر ضرورت کیا تھی اور کس لیے اِسے بغیر کسی بحث و مباحثے کے نافذ کیا جا رہا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے تعلیمی نظام کے کار پردازوں کو بھی اس کا اندازہ ہے کہ وہ اِس نئی تعلیمی پالیسی کے بارے میں سماج تک معقول معلومات اور نئے نظام کی افادیت کے بارے میں اطلاعات پہنچانے میں ناکام رہے ہیں۔ اسی لیے گذشتہ روز یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن کے سربراہ جن پر جواہر لال نہرو یونی ورسٹی سے لے کر یو جی سی تک کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے عین مطابق ڈھالنے کے الزامات عائد ہوئے ، انھوں نے اپنے ایک پریس اعلانیہ میں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی کے اغراض و مقاصد کو طلبہ اور عوام تک ٹھیک سے نہیں پہنچایا جا سکا ہے اس لیے طلبہ میں اس کے لیے باضابطہ طور پر ایک مہم شروع کی جائے گی۔ یو جی سی نے ہندستان کی تمام یونی ورسٹیوں ، کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں کو ایک خاص مکتوب بھیجا ہے جس میں وائس چانسلروں، ڈائرکٹروں اور پرنسپلوں سے اپنے تعلیمی ادارے کے تین سب سے ہونہار طلبہ کے نام بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے۔وہ طالبِ علم کیسے ہوں، اس کی بھی صراحت ہے کہ وہ اپنی باتوں کو بہتر طریقے سے دوسروں کو سمجھا پانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ان میں سے یو جی سی تین سو طالبِ علموں کا انتخاب کرے گی اور پھر وہ نئی تعلیمی پالیسی کے محاذ پر اپنے اداروں میں حکومت کے برانڈ امبیسڈر کی طرح کام کریں گے اور اساتذہ اور طلبہ یا سرپرستوں کو نئی تعلیمی پالیسی کی خوبیوں کے بارے میں بتائیں گے۔

مستقبل کی دیوار پر لکھی عبارت کو جو مشاہدین پڑھ سکتے ہیں، انھیں معلوم ہے کہ یہ صرف تعلیمی پالیسی کے اغراض و مقاصدپھیلانے کی ذمہ داری اٹھائیں گے یا ان سے کچھ اور کام بھی لینے کا ارادہ ہے۔مرکزی حکومت جس نقطۂ نظر سے کام کرتی ہے اسے سامنے رکھیے تو یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ یہ باضابطہ طریقے سے اپنے پرچارک اور تربیت دہندہ پیدا کرنے کی مہم ہے۔یو جی سی کو اگر صرف نظامِ تعلیم کی خصوصیات کو طلبہ تک لے جانے کی بات ہوتی تو اس کے پاس تو اُس کے ماتحت ادارے بڑی تعداد میں پڑے ہوئے ہیں۔ وہ براہِ راست تمام یونی ورسٹیوں اور کالجوں کو اس مہم کا حصہ بنا سکتی تھیں۔ سارے وائس چانسلر اور جو ذمہ دار افراد ہیں، ان کے ذریعہ یہ کام پہلے سے ہی کیا جا رہا ہے اور انھی کی کوششوں سے نیا نظامِ تعلیم عوام تک پہنچے گا۔ ایسے میں یہ منتخب فیلڈ ورکر (Field worker) یا کارسیوک تلاش کرنے کی کیوں کر ضرورت آن پڑی۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یونی ورسٹیوں کے سیکولر اور روادارانہ کردار پر دلی سے لے کر چھوٹے شہر تک قدغن لگانے کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی طرح طرح سے کوشاں رہی ہے۔خاص طور سے اُس کی طلبہ تنظیم ‘اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد’ بڑے پیمانے پر ریاستی اور مرکزی حکومتوں سے تال میل بٹھا کر یونی ورسٹیوں اور کالجوں کے کیمپس میں نفرت آمیز ماحول بنانے میں کچھ کم کامیاب نہیں رہی۔اِنھی مشکلات سے ابھی پورے ہندستان کے تعلیمی کیمپس جی جی کے مرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کورونا کے بعد بھی اب تک تعلیمی نظام اور کیمپس میں موجود جمہوری حقوق کی باز آوری میں کتنی رکاوٹیں اب تک موجود ہیں۔ سیکولر طلبہ اور کسی بھی سیاسی جماعت سے غیر منسلک طالبِ علم یونی ورسٹی یا کیمپس کی زندگی کی مختلف طرح کی رکاوٹوں کا شکوہ کرتے رہے ہیں۔

ایسی حالت میں یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن کو پورے ملک میں اپنے مخصوص خیالات کی پیش کش کے لیے ہماری یونی ورسٹیوں سے صاف ذہن کے بچوں کو چن کر اور نہ جانے اُن میں کن کن گندے کارخانوں کی غلاظتیں شامل کرکے کچھ ایسا بنا دیا جائے گا کہ باضابطہ حکومت کے خرچ اور حکومت کے اِشارے پر وہ اپنے اپنے شہر اور اپنے اپنے کیمپس کو حسبِ اشارہ زہر آلود بنانے میں لگے رہیں گے۔یو جی سی کواگر صرف نئے نظامِ تعلیم کا پروپگنڈہ کرنا اور اس کی خصوصیات پر راے ہم وار کرنا مقصد ہوتا تو اس کے لیے وہ کروڑوں کی تعداد میں کتابیں چھاپ کر ہر دروازے تک پہنچا دیتی اور لوگ اسے پڑھ کر اس بات کو سمجھ سکتے تھے کہ نئے نظامِ تعلیم میں کیا ہے۔ وزیرِ اعظمِ ہند کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے پیغامات کو نئی نسل کے دماغ میں انڈیلنے کی ہمیشہ کوشش رہی۔ گذشتہ برس ٣٥ برس سے کم عمر کے نئے مصنفین کی تلاش کے لیے ایک مہم چلائی گئی مگر معلوم ہوا کہ اس میں بھی انتخاب کا آخری حق پی ایم او ( PMO) کے ذریعہ ہی استعمال کیا گیا ۔ یعنی وزیرِ اعظم کو نئے ذہنوں کی تخلیقی اُڑان سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ کھلا مقصد یہ تھا کہ ان کے نقطۂ نظر اور ان کے اغراض و مقاصد کے تحت نئی نسل کتنے قدم آگے بڑھ سکتی ہے، اس کی جانچ پرکھ کیے بغیر آگے نہیں بڑھنا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کے تین سو برانڈ ایمبیسڈر حقیقت میں آر ایس ایس کے سوئم سیوک کی طرح کام کرنے کی تربیت پائیں گے اور ہماری یونی ورسٹیوں کا ماحول مزید زہر آلود کریں گے۔

نئے نظامِ تعلیم میں غیر ضروری چھیڑ چھاڑ سے جو مضحکہ انگیز صورتِ حال سامنے آ رہی ہے، اس کے بچاو میں حکومت کو اور اُس کی تعلیمی ایجنسیوں کو آگے آنا پڑ رہا ہے۔ مختلف صوبوں میں بی ۔اے۔ کے امتحانات وقت پر نہیں ہو پاتے ہیں اور تعلیمی سال دیر سے چلنے کی عام اطلاعات ہیں۔ تین سال کے بی ۔اے ۔ میں اکثر و بیش تر صوبوں میں سالانہ امتحانات ہوتے ہیں۔ اب چار سال کے بی ۔اے۔ میں آٹھ بار داخلہ ، اور آٹھ بار انٹرنل اور فائنل امتحانات ہوں گے۔ یقینا اس سے سیشن اور دیر سے چلیں گے اور خاص طور سے پس ماندہ صوبوں میں طلبہ کو مختلف طرح کی پریشانیوں سے رو بہ رو ہونا ہوگا۔ پہلے سمسٹر میں آنرس کے نام صرف ایک پرچہ ہوگااور دوسرے سمسٹر بھی آنرس کا ایک پرچہ ہوگا۔ سبسڈیری جسے اب مائنر پیپر کہا جائے گا اس کے بھی ایک ایک پرچے شامل ہیں۔ مگر چار پرچے ایسے ہیں جنھیں اب تک پڑھانے کا کوئی نظم پورے ہندستان میں نہیں ہوا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اتنے عمومی پرچے بی۔ اے ۔ کی سطح پر کیوں پڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ کیا کسی بھی یونی ورسٹی میں ان پرچوں کے لیے نئے اساتذہ کا تقرر ہوا؟ آخر اُن نئے پرچوں کو پڑھائے گا کون؟ نیا نظامِ تعلیم نقلی انداز سے اِن تصورات کو پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ایک سال بی اے کرنے کے بعد بھی آپ کسی اور کام کے لیے اہل ہو سکتے ہیں۔ اُسی طرح دوسرے یا تیسرے سال بھی کسی اور کام کے لیے بھی آپ کی ڈگری کی قیمت قائم رہے گی مگر پرانے نظام سے جن نئی چیزوں کو شامل کرکے پورا پورا نیا سسٹم لانے کی کوشش کی گئی ہے، اس کی ضرورت اب تک سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔ اسی طرح ایم ۔ اے۔ کا ایک سال متعین کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کلاس روم تدریس کی یہ آخری منزل ہے۔ ایم ۔اے ۔ میں طالبِ علم اپنے موضوع کی مشکل علاقوں کی سیر کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ایک کتاب پر مہینوں صرف ہو جاتے ہیں اور کبھی کبھی ایک لفظ پر بحث کرتے کرتے استاد اور طالبِ علم کا گھنٹہ پورا ہو جاتا ہے۔ ایم۔اے۔ میں طلبہ اپنے مضمون کی آخری سرحدوں تک پہنچنے کی تیاری کرتے ہیں جس کے لیے لازمی طور پر دو سمسٹر یا ایک سال کا وقفہ بہت کم ہوگا۔ مگر افسوس کہ نیا نظامِ تعلیم صرف ‘اپنی بادشاہت میں نیاسکہ چلا دینا’ سے آگے کی کوئی بات نہیں۔ یہ باتیں ابھی بارِ خاطر رہیں کے این ۔ سی۔ای ۔آر ۔ ٹی نے اپنی سطح سے اسکول کے نصاب سے ابواب کو ہٹا کر اور کاٹ چھانٹ کرکے اس مہم کا ایک باضابطہ سلسلہ پہلے سے ہی قایم کر رکھا ہے۔اقبال کے لفظوں میں کہنا پڑتا ہے ؎

خداوندا ! یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں

کہ درویشی بھی عیاری ہے ، سلطانی بھی عیاری

(مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں)

safdarimamquadri@gmail.com

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com