عمران خان – میں وہ سر بناتا ہوں جنہیں جھکنا نہیں آتا !

یاور رحمن  

پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا۔ لاکھوں نہیں کروڑوں لوگوں نے اسکی قیمت چکائی تھی۔ عظیم ہندوستان کو اپنا بہترین حصہ گنوانا پڑا تھا۔ ملک کی وہ تقسیم بر عظیم ہند کے سینے پر ایک ایسی کاری ضرب تھی جسکا زخم کبھی سوکھتاہی نہیں۔ اس خونچکاں تقسیم کی یادیں آج بھی آنکھوں میں برسات گرا دیتی ہیں۔ سرحد کے دونوں جانب سے کتنے بچھڑے ہوئے لوگ اپنی آنکھوں میں ملن کی گرم ریت لئے مٹی میں دفن ہو گئے۔ قبیلے اور خاندان بچھڑ گئے۔ نسلیں جدا ہو گئیں۔ بس پلکوں کو آنسوؤں میں ڈبو دینے والی یادیں اور دلوں کو لرزا دینے والے درد انگیز حوالے باقی رہ گئے ہیں۔

 22 کروڑ شہریوں کا وہی پاکستان آج جیسے چاروں شانے چت پڑا ہے۔ اسکی پارلیامنٹ کچھ سیاسی مداریوں کا کھیل گھر بنی ہوئی ہے، عدلیہ اپنی بے توقیری پر زبان حال سے ماتم کناں ہے، میڈیا سیاسی جبر و استبداد کے آگے سر نگوں ہے۔ جو صحافی بک گیا وہ اپنے آقاؤں کے بوٹ چاٹ رہا ہے اور جس نے بکنے سے انکار کر دیا اسکے زخموں کو کتے چاٹ رہے ہیں۔ پولیس اور انتظامیہ مداری کی بھوک مٹانے کے لئے استبداد کی دھن پہ ناچ رہے ہیں، سرحد کے جن پہریداروں پر باشندوں کو بڑا ناز تھا، وہ آج وقت کے بد ترین جابروں اور غاصبوں کی ناز برداریاں کر رہے ہیں۔ اپنی ہی بہنیں، بیٹیاں اور مائیں انکے نشانے پر آ گئیں ہیں۔ چادر اور چاردیواری کا تقدس پائمال ہو رہا ہے۔ گھروں کی بےبس دیواریں چیخ رہی ہیں کہ ثناخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں ؟؟؟

 یہ سب اس لئے ہو رہا ہے کہ ایک مرد قلندر نے ان جاگیر داروں کی خوئے حکمرانی کو چلینج کرتے ہوئے ان کے احتساب کی اذان دے دی ہے۔ اس نے اپنے لوگوں کو اس بدترین غلامی کا شدید احساس دلا دیا ہے جسے وہ 76 سالوں سے آزادی سمجھے بیٹھے تھے۔

وہ مرد قلندر کوئی معمولی انسان نہیں تھا۔ جب وہ ‘کھلنڈرا’ تھا تب بھی ورلڈ کلاس سیلبرٹی تھا۔ دنیا بھر میں اسکے چاہنے والے تھے تھے۔ محلوں میں بھی اسکے خواب دیکھے جاتے تھے اور جھونپڑیوں میں بھی وہ دل بن کر دھڑکتا تھا۔ پھر جب اس نے دنیاۓ سیاست میں قدم رکھا تو وہاں بھی اپنی مثال آپ بن گیا۔ آج وہ اپنے ملک کا سابق وزیر اعظم بھی ہے، وہاں کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا بانی اور قائد بھی ہے، لوگ کہنے لگے ہیں کہ اب وہ ایک خطیب اور معلم بھی ہے، مصلح اور مفکر بھی ہے۔ اس کی سیاسی تقریروں میں دینی خطبات کی آمیزش اور اسکے مثبت اثرات کو دیکھ کر علما حیران ہیں، لبرل پریشان ہیں اور مخالفین ‘پس ماند’ ہیں۔ اسکی یہ تقریریں سرحدوں سے پرے کروڑوں دلوں کو اثر انداز کر رہی ہیں، کیونکہ اسکی زبان اور اسلوب سادہ بھی ہیں اور اجنبی بھی نہیں ہیں۔

اس ظالم نےاپنے ملک کے عوام کا اجتماعی شعور بیدار کر دیا ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ “لا الہ الا اللہ” کی بنیاد پر بیدار کیا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ مدینے کی ریاست کی بھرپور تفہیم کے ساتھ ساتھ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی نظیریں دے دے کر بیدار کیا ہے کہ زمین پر قانون کی بالادستی ہی ملکوں کو امن اور خوشحالی سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ اس نے عدل و انصاف کے اسلامی تصورات کی مثالیں دے دے کر گزشتہ 26 سالوں میں ایک پوری نسل تیار کر لی ہے۔ خوف کے ہر بت کو توڑ کر اس نے “ایاک نعبد و ایاک نستعین” کی سپرٹ کو مردوں، عورتوں، بوڑھوں، بچوں، جوانوں، تعلیم یافتہ، غیر تعلیم یافتہ، امیر ، غریب اور ایلیٹ و نان ایلیٹ کے اندر انجیکٹ کر دیا ہے۔

وہ ماڈرن دنیا کا پہلا مسلم لیڈر ہے جس نے عالمی اسٹیج پر کھڑے ہو کر عشق رسول اور رتبۂ رسول کی انتہائی سادہ مگر دل پذیر تفہیم کر کے رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے بارے میں عالم اسلام کے موقف کی بہترین ترجمانی کی ہے ۔ اس نے مسلم نوجوانوں کو سمجھا دیا ہے کہ انکے نبی سے بڑھ کر انکا کوئی دوسرا آئیڈیل ہو ہی نہیں سکتا۔ اس نے عشق رسول کو ایک نئی جہت دی ہے۔ مسلم نوجوانوں کی تمناؤں، خواہشوں، آرزؤں اور امنگوں کو ایک پاکیزہ سمت دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

اس نے اپنے ملک کے کرپٹ اور ظالم حکمرانوں اور سیاستدانوں کو بے لباس کر کے نہ صرف اپنے عوام کو سیاسی اصلاحات کی دعوت دی ہے بلکہ ہمیں بھی یہ احساس دلا دیا ہے کہ اسلام کے نام پر بنائی گئی اس ریاست کے مقابلے میں ہماری سیکولر ریاست (ہندو ستان) کس قدر بہتر ہے۔

آج وہاں کے جو حالات ہیں، پاک فوج کا جو ناپاک چہرہ سامنے آیا ہے، اس ملک کی سیاست میں فوج کا جس قدر گندہ عمل دخل ظاہر ہوا ہے اور غنڈہ پرست وڈیروں کے ساتھ ملکر خود اپنے ہی ملک کے شہریوں پر جو ظلم وہ ڈھا رہی ہے، اور ‘شریفوں کی شریف زادیاں’ جس قدر بازاری زبان استعمال کر رہی ہیں، یہ سب دیکھ کر لگتا ہے کہ ہمارے ملک کی ناپسندیدہ سیاست بھی ان سے ہزارہا درجے بہتر ہے۔ مقام شکر ہے کہ ہمارے ملک کے بڑے سیاستداں اپنے مخالفین کے لئے کبھی بازاری زبان کا استعمال نہیں کرتے، ہمارے معزز ججوں کی کوئی توہین نہیں کرتا، ہماری فوج ملک کے سیاسی معاملات میں کبھی رخنہ انداز نہیں ہوتی۔

ہمارے ملک میں سیاسی رقابتوں میں بہت کچھ ہوتا ہے مگر وہ بیہودگیاں ہرگز نہیں ہوتیں جو آج وہاں ایک سابق وزیر اعظم کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ ہمارے ملک میں سپریم کورٹ کے سامنے کھڑے ہو کر چیف جسٹس کو گالیاں اور دھمکیاں دینے کا کوئی آنکھ تصور بھی نہیں کر سکتی۔ یہاں لاکھ اختلاف ہو جاۓ، فرعون صفت سیاستداں بھی اپنی زبان زیادہ دیر تک بے لگام نہیں کر پاتا۔ اگر کبھی کوئی ناروا جملہ بول جاۓ تو ہمارے ملک کا آج بدنام میڈیا بھی اسے حاشیے پر لے لیتا ہے۔ مگر پاکستان کے نیوز چینلوں پر زبانوں کا پھوہڑ پن بہت کم ہی سوالوں کی گرفت میں آتا ہے۔ شاید اس لئے کہ وہاں کی سماعتوں کو اس ناشائستہ گفتگو کی عادت سی پڑ چکی ہے۔ افسوس کہ اسلام کا نعرہ لگا کر بننے والا ملک اس قدر اخلاقی پستی میں گرا ہوا ہے!

بھلا ہو اس قلندر کا کہ جو اپنا سب کچھ لٹا کر اسکی تشکیل جدید میں لگا ہوا ہے۔ وہ اپنے ملک کے لوگوں کو نظریے کے لئے ووٹ دینا سکھا رہا ہے اور دیسی فرعونوں کے ہاتھ سے زمام اقتدار چھین کر انکے حقوق خود انکے حوالے کر دینے کی جد و جہد میں لگا ہوا ہے۔ یہی اس کا اصل کارنامہ ہے۔

بظاہر وہ اس وقت سخت ترین دور سے گزر رہا ہے۔ اسکی پارٹی کی سینئر لیڈرشپ بد ترین کریک ڈاؤن کی زد میں ہے، اسکے ہزاروں کارکنان زنجیر بکف کر دیے گئے ہیں اور اسکے لاکھوں متفقین کے گرد بھی گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ رات انتہائی گہری ہو چکی ہے اور وہ اکیلا ہی اس یقین سے معمور ہے کہ رات جس قدر گہری اور سیاہ ہو صبح کی آمد اسی قدر یقینی ہوتی ہے۔ وہ کروڑہا دلوں کی زمین پر “حقیقی آزادی” کا پودا اگا کر معنوی اعتبار سے immortal یعنی لافانی بن چکا ہے۔ آج اگر اس کے مخالفین خدا ناخواستہ اس کی جان بھی لے لیں تو وہ امر ہو کر خود انھیں سیاسی اعتبار سے زندہ در گور کر دے گا۔ جو کہ وہ کسی حد تک کر چکا ہے۔ حال یہ ہے کہ اس کے مد مقابل کھڑے ہوئے گیارہ جماعتوں کے ہزیمت زدہ کمان دار اب واقعی بوکھلا چکے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ان مخالفین کے سامنے کوئی آپشن بچا ہی نہیں ہے۔ انکی آزادیاں اسکی قید تا حیات سے مشروط ہو گئی ہیں۔ اسی لئے وہ اپنے ‘دفاع’ کی کوششوں میں بد ترین قسم کے ہذیان میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ وہ اسے ختم کر دینا چاہتے ہیں مگر انکی ہر چال ‘بے کھال’ ہو رہی ہے اور انکی ہر تدبیر خود انکے اپنے پیروں کی زنجیر بن رہی ہے۔ بظاہر اسکی رہائش گاہ کے ارد گرد وہ اپنا گھیرا تنگ کر رہے ہیں، اسے “مائنس” کرنے کے جنون میں مبتلا ہو کر دن بدن اپنی ہی مشکلیں ‘پلس’ کر رہے ہیں اور انجام کار لاھور کے جس زمان پارک میں وہ بظاہر محصور بیٹھا ہے، یہ خود اسی زمان پارک کے ‘پولیٹیکل ڈیتھ ٹریپ’ میں پھنس کر خود اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اندر بیٹھے ہوئے اس خوبرو، شیر دل اور حوصلہ مند پٹھان کی بازگشت سارے عالم میں گونج رہی ہے۔۔۔

مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے

میں سر بکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے

 میں جی رہا ہوں ابھی اے زمین آدم خور

ابھی تو دیکھ نہ تو اتنی اشتہا سے مجھے

yawer.rahman

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com