شکیل رشید
کیا اب مفاہمت کی ، میل ملاپ اور اتحاد کی کوئی ضرورت رہ گئی ہے ؟
یہ سوال ، جمعیۃ علماء ہند کے دونوں دھڑوں کی ، ایک دوسرے پر الزام تراشی کے تناظر میں ہے ۔ جمعیۃ کو دو دھڑے لکھتے ہوئے اچھا تو نہیں لگتا ، لیکن سچ یہی ہے کہ جمعیۃ اب دھڑوں کے ’ سربراہوں ‘ کے ناموں سے پہچانی جاتی ہے ، اس کی ایک جو منفرد شناخت تھی ، ہندوستانی مسلمانوں کی سب سے بڑی اور ایک ایسی جماعت کے طور پر ، جس میں ہر مکتبۂ فکر کے علماء کرام شامل ہونے پر فخر کیا کرتے تھے ، وہ مِٹ چکی ہے ۔ بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ مِٹا دی گئی ہے تو غلط نہیں ہوگا ۔ دونوں ہی دھڑے خود کو ’ اصلی ‘ جمعیۃ ثابت کرنے کے لیے ہر وہ کام کرتے رہتے ہیں جسے کرتے ہوئے عام لوگوں کو بھی شرمندگی محسوس ہو ! یہ مفاہمت اور اتحاد کی بات کتنے دنوں سے کی جا رہی ہے ! جب یہ سلسلہ شروع ہوا تھا تب یہ لگ رہا تھا کہ بس آج نہ سہی آنے والے کل کو دونوں دھڑے ایک ہو جائیں گے ، لوگ خوش تھے ، منتظر تھے اور امید کر رہے تھے کہ ان کی جماعت پھر پہلے ہی کی طرح مضبوط ہو جائے گی ! لیکن افسوس امید بر نہیں آئی ، اور نہ ہی اب امید بر آئے گی ۔ جماعت کی تقسیم کے بعد دونوں ہی جانب کے لوگوں کے بیچ بڑی بدگمانیاں پیدا ہو گئی ہیں ، ایک دوسرے کے تئیں نفرت کا دریا جوش سے بھرتا جا رہا ہے ، میں نے تو لوگوں کی زبانوں سے ایک دوسرے کے لیے مغلظات سُنے ہیں ! اور یہ سب کرنے والے عام لوگ نہیں ہیں ، یہ علمائے کرام ہیں ! ابھی ممبئی کے اجلاس کے بعد حضرت مولانا سیّد ارشد مدنی کا ایک بیان موضوعِ گفتگو بنا کہ انھوں نے اتحاد کی ہر کوشش کی ، صدارت چھوڑ دینے تک کی پیشکش کی ،لیکن مولانا سیّد محمود مدنی نے ’ معذرت ‘ کر لی ۔ اسی دوران مولانا محمود مدنی کا ایک خط منظرِ عام پر آیا ، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ’ ہم نے تو حضرت کو مکمل اختیار دے دیا تھا کہ اپنی جمعیۃ تحلیل کر کے متحدہ جمعیۃ کی باگ ڈور سنبھال لیں لیکن ہماری تجویز مانی نہیں گئی ۔‘ ایک جواز یہ دیا جا رہا ہے کہ جمعیۃ کی اکائیوں میں ابھی دوریاں ہیں ، جس کی وجہ سے اتحاد کے لیے فضا نہیں بن پا رہی ہے ۔ کسی حلقے سے کہا جا رہا ہے کہ گلزار اعظمی اتحاد نہیں چاہتے ہیں ۔کسی حلقے سے کہا جارہا ہے کہ حافظ ندیم صدیقی نہیں چاہتےہیں ۔ مگر سچ یہ ہے کہ دونوں ہی طرف کے قائدین اتحاد نہیں چاہتے ہیں ، وہ ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کو راضی نہیں ہیں ۔ یہ اعتماد کا فقدان ایک اہم سبب ہے جو جمعیۃ کے دونوں دھڑوں کو ایک دوسرے سے دور کیے ہوئے ہے ۔ اگر اعتماد ہوتا تو کیا اکائیاں یا کوئی بھی شخص اتحاد کو روک سکتا تھا ! یقیناً نہیں ۔ مفاہمت ، میل ملاپ اور اتحاد نہ ہونے کا الزام کسی کے بھی سر نہیں ڈالا جا سکتا ، ذمہ دار صرف اور صرف دونوں دھڑوں کی قیادت ہے ۔ یہ ملنا چاہتے ہی نہیں ہیں ، انہیں یہ لگتا ہے کہ ملاپ ہوا تو ان کے ہاتھوں سے کوئی ایسی چیز نکل جائے گی یا چھِن جائے گی ، جس پر ان کا ہی حق ہے ، کسی اور کا حق نہیں ہے ۔ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ دونوں ہی دھڑے جِس طرح ایک دوسرے سے دوری بنا کر کام کر رہے ہیں کرتے رہیں ، بس اتنا دھیان رکھیں کہ کسی کے کام کے آڑے نہ آئیں ۔ ویسے بھی الگ الگ کام کرتے ہوئے اچھے خاصے دن بیت چکے ہیں ، اب ایک دوسرے کے رائے مشورے کے بغیر کام کرنے کی عادت پڑ گئی ہے ، یہ عادت اب بگڑنی نہیں چاہیے ۔ رہے مسلمان تو وہ جس طرح اب تک اپنے مسائل سلجھاتے چلے آئے ہیں ، آئندہ بھی اپنے مسائل سلجھائیں گے ۔ ایک بات اور ، یہ آپ لوگ ، میں دونوں دھڑوں کی بات کررہا ہوں ، مسلمانوں کو متحد ہونے کامشورہ نہ دیا کریں ، مسلمان یہ سوچ کر ہنستے ہیں کہ جو خود متحد نہیں ہیں وہ اتحاد کے مشورے دے رہے ہیں !