کیا ہندستان میں نوجوان مسلم قیادت کا طلوع ممکن ہے؟

محمد علم اللہ، نئی دہلی

ہندستانی مسلمانوں میں قیادت کے بحران کی بہت ساری وجوہ ہیں، تاہم ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہندستانی مسلمانوں کی موجودہ اعلیٰ قیادت قوم کے نوجوانوں سے غافل ہے، ان کے بارے میں انھیں بظاہر فکر تو ہے مگر ایسی کوئی پالیسی یا منصوبہ سامنے نہیں آتا جس سے یہ اندازہ کیا جاسکے کہ ہمارے قائدین؛ نوجوانوں پر کوئی خاص توجہ دے رہے ہیں۔ ایک تو ویسے ہی بہت کم مسلم نوجوان تعلیم و قیادت کے میدان میں آتے ہیں، زیادہ تر نوجوانوں اور ان کے والدین کا رجحان یہ ہے کہ وہ کوئی معمولی سا ہنر سیکھ لیں اور جلد سے جلد کمانے لگ جائیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں میں روزگار یا خلیجی ممالک میں ملازمت مل جائے یا وہ کسی مغربی ملک میں جا کر آباد ہوجائیں اور جتنی جلدی ممکن ہوسکے اپنے خاندان کی معاشی ضروریات میں ان کے دست و بازو بن جائیں۔ بچے کھچے کچھ نوجوان جو بڑے اور سنہرے خواب لے کر تعلیم اور سربراہی کے میدان میں آتے بھی ہیں تو ان کے لیے مواقع ہی دستیاب نہیں ہوتے۔ ان کا سارا وقت بلکہ ساری عمر اپنی نوکری کو سنبھالے رکھنے نیز اداروں اور شخصیات کی چاکری کرنے میں ہی گزر جاتا ہے۔ قوم کے تعلق سے ان کے عزائم اور منصوبوں کے لیے خاطر خواہ مواقع نہیں مل پاتے۔

ترقی یافتہ دنیا کا جائزہ اگر لیتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے نوجوانوں کو اس کے لیے تیار کرتی ہیں، بلکہ باصلاحیت نوجوانوں کی ہمت افزائی اور ان کی قابلیت کی قدر کرتے ہوئے انھیں مناسب جگہ بھی فراہم کرتی ہیں۔ جس کی واضح مثال کناڈا کے 43 سالہ جسٹن تروڈو، اسٹونیا کے 38سالہ جوری ریٹس، یونان کے 40 سالہ الیکسس تسپارس، تیونس کے 40 سالہ یوسف چاہد ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی مثالیں ہیں جیسے گیبریل بورک 35 سال کی عمر میں چلی کے اب تک کے سب سے کم عمر صدر بنے ہیں۔ اسی طرح 26 سالہ جیمز سائمنسینی کے پاس ہے، جو شمالی اٹلی کی چھوٹی آزاد ریاست سان مارینو کے کیپٹن ریجنٹ میں سے ایک ہیں۔ کوسوو کی خاتون رہنما وجوسا عثمانی گزشتہ سال اپریل میں 38 سال کی عمر میں صدر منتخب ہوئیں۔ ایل سلواڈور کے متنازعہ پاپولسٹ صدر نائیب بوکیل 40 سال کے ہیں، جو 37 سال کی عمر میں صدر منتخب ہوئے ہیں۔ انڈورا کے سابق وزیر انصاف زیویئر ایسپوٹ زمورا مئی 2019 میں فرانس اور اسپین کے درمیان چھوٹے علاقے کی حکومت کے سربراہ بن گئے جن کی عمر 39 سال تھی۔ کوسٹا ریکا کارلوس الوارڈو، ایک صحافی اور سابق وزیر محنت، مئی 2018 میں صدر بننے کے لیے منتخب ہوئے، ان کی عمر 38 سال تھی۔ نیوزی لینڈ کی جیسنڈا آرڈرن کی عمر 37 سال تھی جب انھوں نے اکتوبر 2017 میں وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ آئرلینڈ کے لیو وراڈکر جون 2017 میں 38 سال کی عمر میں آئرلینڈ کے سب سے کم عمر وزیر اعظم بنے۔ اب وہ مخلوط حکومت کے نائب رہنما کے طور پر اقتدار میں شریک ہیں اور اگلے سال دوبارہ وزیر اعظم بننے والے ہیں۔ فرانس کے سرمایہ کاری بینکر ایمانوئل میکرون مئی 2017 میں 39 سال کی عمر میں فرانس کے سب سے کم عمر صدر بنے۔ جمہوری طور پر منتخب حکومتوں کے ساتھ ساتھ، دیگر قابل ذکر نوجوان رہنماؤں میں۔ چاڈ کے مہامت ادریس ڈیبی اٹنو کی عمر بھی 37 ہے جنھوں نے گزشتہ سال اپریل میں اپنے والد کی موت کے بعد اقتدار سنبھالا تھا۔ اسی طرح مالی میں فوجی جنتا کے رہنما، اسیمی گوئٹا، 38 سال کے ہیں۔

نپولین کے بارے میں معروف قلم کار ایملی لڈوگ نے ایک سوانحی کتاب لکھی ہے۔ اس میں نپولین کی کام یابیوں کا بھی ذکر ہے یعنی اس کی فتح یابی کا راز کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں، پہلی بات تو یہ کہ نوجوانی کا بھرپور جذبہ! اس عمر میں معدہ ہر قسم کی خوراک ہضم کرنے میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ بے فکری سے سونا اور فرض کے لیے جاگنا، مصمم ارادہ، آنکھوں کی روشنی جو کہ اس عمر میں تیز ہوتی ہے، یعنی اس عمر میں قدرت کی عطا کردہ ذہنی و جسمانی صلاحیتوں سے پوری طرح استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ عمر انسان میں غیرمعمولی تبدیلیاں لانے کی بنیاد بنتی ہے، بشرطے کہ کوئی اس سے فائدہ اٹھانا چاہے۔ اس وقت کے نپولین کے مدمقابل جرنیلوں کو دیکھا جائے تو فرق معلوم ہو جائے گا۔ آسٹریا کے محاذ کا کمانڈر ‘بیلولیو’ بہتر سال کا ہے۔ فرانسیسی محاذ کا جنرل ستتر سالہ‘کولی’ایک خفیہ بیماری میں بھی مبتلا تھا اور جنرل الویزی ساٹھ سال کا تھا اور ساڈینا کا بادشاہ ایک بوڑھا آدمی تھا۔ جنرل ‘وریزر’ کانوں سے بہرہ تھا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ نپولین پہ جوانی کا وقت مہربان تھا۔ نپولین کا جن جرنیلوں سے معرکہ ہوا ان میں سب سے کم عمر42 سالہ برتھر تھا، لیکن وہ اپنے تمام حواس کے ساتھ اچھا عالم بھی تھا اور اپنے کام میں کلی مہارت رکھتا تھا؛ بوربین کے دور میں ایک عرصے تک سارجنٹ کے عہدے پر بھی فائز رہا تھا۔ اس لیے وہ صرف چند ہفتوں میں ہی جنرل کے عہدے پر پہنچ گیا تھا۔ نپولین نے ہمیشہ ان افراد کی ترقی کے لیے سفارشات کیں جو کہ نوجوانی کی عمر میں کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔ کم عمر کرنل اس کی فوج میں بہت تھے۔ وہ اپنے محاذ کے سپاہیوں کو کبھی دفتری کام پہ نہ لگاتا۔

ماضی قریب کی مسلم دنیا میں ہمیں ایسی بہت ساری مثالیں محمد بن قاسم، ٹیپو سلطان، صلاح الدین ایوبی وغیرہ کی شکل میں دیکھنے کو ملتی ہیں، جنھوں نے دنیا پر نہ صرف راج کیا، بلکہ اپنی فتح مندی اور کام رانی کے جھنڈے گاڑ دیے اور دنیا سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔ بعد کے دنوں میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ابو الکلام آزاد نے اپنی غیر معمولی صلاحتیوں سے ملک گیر شہرت ہی نہیں حاصل کی بلکہ جدوجہد آزادی کا ایک روشن باب ان کی تگ و دو سے عبارت ہے۔

اس سلسلے میں عموماً اور خصوصاً ہندستان کے مسلمانوں کا جائزہ لیجیے اور قیادت کے بحران کے اسباب پر غور کیجیے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ آزادی کے بعد ہندستانی مسلمانوں میں قیادت کا بحران رہا اور اتنے طویل عرصے میں مسلمانوں میں کوئی بھی بڑا لیڈر پیدا نہیں ہوا، اگر ہوا تو مسلمانوں نے اسے متفقہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔ نہ سیاست میں نہ مذہب میں اور نہ کسی اور پلیٹ فارم پر کوئی قد آور رہنما پیدا ہوسکا، اگر کہیں کوئی لیڈر پیدا بھی ہوا تو قوم کو اس کے تعلق سے شکوک و شبہات نے گھیرے رکھا، کوئی ایجنٹ رہا، کوئی بدعنوان اور کوئی غدار ہی نکلا۔ ایسا کیوں ہوا؟ ایسا اسی لیے ہوا کہ ہمارے یہاں قیادت پیدا کرنے والے ادارے ہی نہیں ہیں۔ جو ادارے ہیں بھی تو ان میں موروثیت اپنے عروج پر رہی، جس کا نتیجہ یہی نکلا کہ قوم کے ہونہار بچوں کو کام کرنے کا میدان ہی نہیں مل سکا، جو لوگ قیادت کے جس پلیٹ فارم پر پہلے سے براجمان رہے انھوں نے قوم کے بچوں کو آگے آنے ہی نہیں دیا۔ اگر بڑھایا بھی تو صرف اپنے خاندان کے لوگوں کو، اس کی واضح مثالیں، دارالعلوم دیوبند(قدیم اور وقف دونوں)، ند وۃ العلماء، جمعیت علماء ہند، امارت شرعیہ، مسلم پرسنل لاء بورڈ، تبلیغی جماعت اور دیگر ملی و رفاہی تنظیموں اور مدارس وغیرہ ہیں۔

حالاں کہ ماضی میں قیادت کی تیاری کے سلسلے میں اس کے برعکس چیزیں نظر آ جاتی ہیں جن میں سب سے روشن مثال علامہ شبلی نعمانی کی ہے۔ انھوں نے علی گڑھ سے لے کر ندوۃ العلماء اور پھر دارالمصنفین تک کے اپنے سفر میں جن چند نوجوانوں کو اپنی زندگی میں براہ راست یا بالواسطہ تیار کیا تھا ملت ایک صدی تک ان جیسا قائد نہیں پیش کرسکی۔ محمد علی جوہر، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالسلام ندوی تو براہ راست ان کے تربیت یافتہ تھے۔ ندوۃ العلماء کی تاریخ کا روشن باب وہی ہے جس میں شبلی کے اثرات واضح طور پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ یہی زمانہ ملی قائدین اور داعیانِ اسلام کا ہے۔ ندوہ اپنی روشن تاریخ کی مثالیں اسی زمانے سے پیش کرتا رہا ہے۔ ظاہر ہے شبلی نے براہ راست نوجوانوں کی تربیت کی تھی۔ جس کی بے شمار مثالیں ملیں گی۔ اب اسی چیز کا فقدان ہے۔ جو آگے بڑھ جاتا ہے وہ آگے ہی رہنا چاہتا ہے چاہے وہ کسی لائق ہو یا نہ ہو۔ خسارہ ملت اور قوم کا ہوتا ہے۔ اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس وقت موروثیت کے سب سے بڑے گڑھ دارالعلوم دیوبند کوبھی ایک جواں سال عالم دین مولوی قاسم نانوتوی نے اس وقت قائم کیا جب ان کی عمر محض تیس یا 32 سال تھی اور جن کا انتقال بھی47 سال کی کم عمری میں ہو گیا تھا۔ مسلح جدو جہد میں ناکام ہو کر فوراً اپنا لائحہ عمل بدل دینا ایک نوجوان اور گرم خون والا ہی کر سکتا تھا۔ غور کیجئے تو اس وقت کے بزرگ، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتبہ فکر سے ہو، ایک سے بڑھ کر ایک فراخدل نظر آتا ہے۔ جمیعت العلماء ہند کا مولانا مودودی کو نہایت کم عمری یعنی صرف 21 سال میں اپنے ترجمان‘الجمیعت’کا مدیر مقرر کرنا کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔

اس سلسلے میں ایک اہم مثال جماعت اسلامی ہند کے سابق امیر مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی کی بھی دی جاسکتی ہے۔ انھیں 35 سال کی عمر میں جماعت کی سربراہی ملی تھی اور جن حالات میں ملی تھی وہ بھی عیاں ہے۔ اس وقت جماعت کی شوری ٰکے ارکان کی بھاری اکثریت بھی نوجوانوں ہی کی تھی۔ آج جماعت کا جو اس وقت وسیع تنظیمی ڈھانچہ اور مختلف شعبہ جات ہیں اس کا بنیادی خاکہ نہ صرف اسی زمانے میں تیار ہوا بلکہ اسی کی توسیع شدہ شکلوں پر کام ہو رہا ہے۔ مگر بعد کے دنوں میں ایسا نیا کچھ بھی نہیں ہوا کہ جسے کل کی یافت کہا جاسکے۔

تقسیم ہند کے بعد بھی نوجوانوں کی تربیت اور ان پر بھروسے کا یہ سلسلہ رکا نہیں۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار میں ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی نے کس محنت کے ساتھ علیگڑھ کے طالب علموں کو قیادت کے لئے تیار کیا وہ کوئی بہت زیادہ پرانی بات نہیں۔ عارف محمد خان (اب تو ان کا قبلہ ہی بدل چکا بہر حال ہندوستانی سیاست کی تاریخ کا وہ حصہ ہیں) سے لے کر اخترالواسع، ظفریاب جیلانی، محمد اعظم خان، زیڈ کے فیضان اور جاوید حبیب سمیت مرحوم نے نوجوان قائدین کی ایک ٹیم کھڑی کردی تھی۔ مگر بدقسمتی سے شاید ان میں سے کسی میں وہ جذبہ موجود نہیں تھا جو سن سینتالیس والی نسل میں تھا۔ میری اپنی پیدائش تو نوے کی دہائی کے بعد ہوئی مگر جو کچھ کتابوں میں پڑھا ہے یا بزرگوں کی زبانی سنا ہے اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ سن سینتالیس سے پہلے والی نسل شاید کسی اور ہی مٹی کی بنی تھی۔ ایک سے بڑھ کر ایک صلاحیت والے ان بزرگوں میں کسی پر یہ الزام نہیں لگ سکتا کہ کسی نے اپنے یا اپنے خاندان کے مفادات کے لئے کام کیا ہو۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ موروثی قیادت کی ہمت شکنی کے ساتھ، حقدار اور مخلص نئی نسل کو موقع دینا ضروری ہے، اگر ایسا ہوتا ہے، تبھی قوم کی نیا پار ہو سکتی ہے، کیوں کہ اس ملت کو جو فائدہ نوجوان قائدین نے پہنچایا ہے اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ مضمون کے خاتمے پر علامہ اقبال کے الفاظ میں یہی دعا مانگی جا سکتی ہے۔

خرد کو غلامی سے آزاد کر

جوانوں کو پیروں کا استاد کر

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com