شمال مشرقی منی پور میں تشدد کی لہر

افتخار گیلانی

بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں پچھلے ایک ماہ کے دوران تقریباً 150کے قریب افراد تشدد آمیز واقعات میں جاں بحق ہو گئے ہیں۔ فوج اور نیم فوجی تنظیموںپر بھی حملوں کی متواتر خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ نظم و نسق کی صورت حال اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ پولیس تھانوں اور نیم فوجی تنظیموں کے اسلحہ خانوں سے 4,500کے قریب بھاری اسلحہ سمیت ہتھیارلوٹ لئے گئے ہیں۔

 غالباً 1993میں پہلی بار مجھے اس صوبہ میں جانے کا اتفاق ہو ا تھا۔ ان دنوں صوبہ میں بدترین ہندو مسلم فسادات رونما ہو ئے تھے، جن میں تقریبا سو کے قریب افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ دہلی سے آسام کے سب سے بڑے شہر گوہاٹی اور پھر وہاں سے پورے دن کی مسافت کے بعد منی پور کے دارالحکومت امپھال کا سفر تھکا دینے والا ، مگر نظاروں سے بھر پور تھا۔ ان دنوں تنازعہ وادی امپھال میں رہنے والے میتی قبیلوں کے ہی دو گروپوں کے درمیان تھا۔ میتی قبیلہ کا ایک گروپ جن کو مقامی طور پر پانگل کہتے ہیں ، مسلمان ہیں۔ جبکہ میتی قبیلہ کی اکثریت ہندو مت سے تعلق رکھتی ہے۔

وادی سے نکلتے ہی پہاڑو ں کا ایک وسیع سلسلہ شروع ہوتا ہے، جہاں کوکی اور ناگا قبائلی آ باد ہیں۔ ان میں اکثریت عیسائیوں کی ہے۔ خوبصورت نظاروں، پانی کی فراوانی ، ہریالی کی وجہ سے یہ خطہ کشمیر کا عکس لگتا ہے۔ ہر قدم پر ڈھلوانوں پر چائے کے وسیع و عریض باغات نظر آتے ہیں۔ اس خطے میں سات ریاستیں ہیں، جن میں منی پور، تری پورہ، آسام، میزورام، اروناچل پردیش، ناگالینڈ اور میگھالیہ شامل ہیں۔ میگھالیہ کے ہی ایک گاوں ماوسن رام میں سب سے زیادہ بارش ہوتی ہے۔ جس پہاڑی پر یہ گاوں واقع ہے اس کے دوسری طرف ایشیاء کا سب سے صاف و شفاف ترین گاوں ماولن اونگ ہے اور اسی کے متصل بنگلہ دیش کی سرحد کو چھوتا ہوا صاف ترین دریادوکی یا اومن گوٹ ہے۔ اس میں اگر چنے یا خشخاش کا دانہ ڈالا جائے تو تہہ تک جاتے ہوئے صاف نظر آتا ہے۔ اس میں کشتی میں بیٹھ کر سیر کرنے کا ایک الگ ہی تجربہ ہے۔ نادانی میں ان صوبوں کو کچھ لوگ سات بہنیں کہتے ہیں۔ مقامی افراد اس کا خاصا برا مناتے ہیں۔ کیونکہ ان کے درمیان یکسانیت یا مشترکہ کوئی چیز نہیں ہے۔ اس علاقے میں تقریباً 230 کے قریب مختلف قبائل الگ الگ انفرادیت لئے آباد ہیں، بسا اوقات ایک دوسرے کے ساتھ برسرپیکار رہتے ہیں۔

ان سات صوبوں میں میگھالیہ میں 74فیصد، ناگالینڈ میں 87.93فیصد، میزورام میں 87.16فیصد عیسائی آبادی ہے۔ اروناچل پردیش میں بھی 30فیصد اور منی پور میں 40فیصد آبادی عیسائی ہے۔ صرف تری پورہ اور آسام ہی ہندو اکثریتی علاقے ہیں۔اس خطے کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ بھارت میں سب سے زیادہ انگریزی بولنے اور سمجھنے والے اسی خطے میں آباد ہیں۔ ناگالینڈ کی 32 فیصد اور منی پور کی 31 فیصد آبادی ایسی ہے، جو مردم شماری میں انگریزی کا بطور پہلی یا دوسری زبان کے اندراج کرواتے ہیں۔

 اس خطے کے ساتھ میرا یہ تعلق بھی رہا کہ دہلی میں کشمیر ٹائمز کے بیورو میں کام کرنے کی وجہ سے چونکہ وزارت داخلہ کو کور کرنا پڑتا تھا، اکثر اوقات سیکرٹری داخلہ یا دیگر افسران کشمیر اور شمال مشرق پر ایک ساتھ ہی بریفنگ دیتے تھے اس وجہ سے اس خطے کے ساتھ غیر محسوس طریقے سے وابستگی ہوتی گءی۔ اس کے علاوہ اس دورا ن آسام ٹربیون کے دہلی کے نمائندے آنجہانی کلیان بروا کے ساتھ ایک تعلق سا بن گیا۔ چونکہ ہم دونوں اپنے اخبارات کے اکیلے نمائندے تھے، اس لئے ہم نے پارلیمنٹ اور پھر وزارت داخلہ کو کور کرنے کی ذمہ داری آپس میں بانٹی تھی ۔ ایک دن وہ لوک سبھا کی پریس گیلری تو میں راجیہ سبھا کی پریس گیلری میں بیٹھتا تھا۔دوسرے د ن ڈیوٹیاں تبدیل کرتے تھے۔ اس نے جو کچھ کشمیر پر نوٹ کیا ہوتا تھا، وہ مجھے لکھواتا تھا ، میں اس کیلئے شمال مشرق کی خبروں کی کھوج کیا کرتا تھا۔ بروا اور پھر شیلانگ ٹائمزکے دہلی کے بیورو چیف سی کے نائک کی بدولت اس علاقہ کے دورے کرنے کے کئی مواقع ملے۔

عیسائی آبادی ہونے کے باوجود اس خطے کی چار ریاستوں یعنی آروناچل پردیش، تری پورہ، منی پور اور آسام میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی برسراقتدار ہے۔ اس خطے میں اس کا ایک الگ ہی چہرہ ہے۔ اس علاقے میں گائے کشی پر پابندی کی حمایت کرتی ہے نہ ہندو دیوی دیوتاوں کے نام پر ووٹ مانگتی ہے۔اس علاقے میں اس کا انتخابی نعرہ غیر ملکیوں یا بنگلہ دیشی دراندازوں کو باہر کرنے کا ہے۔ اس علاقے میں رہنے والے قبائلی شناخت اور آبادی کے حوالے سے نفسیاتی دباو کا شکار ہیں۔ چونکہ شمال مشرق میں بنگالی سب سے بڑی نسلی قوم ہے، جو بھارت کے مغربی بنگال سے بنگلہ دیش تک پھیلے ہوئے ہیں، اس لئے ان قبائلیوں کو سب سے زیادہ خطرہ ان سے ہی محسوس ہوتا ہے۔ جس کا بی جے پی خاطر خواہ انتخابی فائدہ اٹھاتی ہے۔ یہ بھی خبریں آتی رہتی ہیں کہ اس کے مقامی لیڈر کئی صوبوںمیں عسکری تنظیموں کے ساتھ بھی سانٹھ گانٹھ رکھتے ہیں۔ دراصل اس علاقے میں کانگریس کے ساتھ مقامی لوگوں کو وہی شکایتیں ہیں، جو کشمیر میں ہوتی تھیں۔ اس کا توڑ کرنے کیلئے وہ بی جے پی کو ایک قابل قدر متبادل کے بطور دیکھتی تھیں۔

 خیر ذکر منی پور کا ہو رہا تھا۔ اس کی سرحدیں میانمار کے دو علاقوں، مشرق میں ساگانگ علاقہ اور جنوب میں چن ریاست سے ملتی ہیں۔جس طرح کئی دہائی قبل پاکستان اور افغانستان کی سرحد کھلی ہوتی تھی، یہی حال یہاں بھی سرحد کا چند ماہ قبل تک تھا۔ آپ صبح سویرے سر پر جتنا مال اٹھا سکتے ہوں بغیر کسی پاسپورٹ یا پرمٹ کے میانمر میں بیچ کر شام کو واپس آسکتے ہیں۔ کشمیر کی طرح منی پور بھی ہزاروں سالوں سے ایشیائی اقتصادی اور ثقافتی تبادلے کا سنگم رہا ہے۔ جہاں کشمیر وسط ایشیاء اور جنوبی ایشیا ء کی ایک کڑی ہے، منی پور مشرقی ایشیاء اور جنوبی ایشیاء کا سنگم ہے۔

1947 تک کشمیر کی طرح ہی منی پور بھی برطانوی عملداری کے تحت ایک آزاد ریاست تھی۔ 11 اگست 1947 کو، مہاراجہ بدھ چندر نے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرکے انڈین یونین میں شمولیت اختیار کی۔ اس علاقہ میں تنازعہ کا آغاز ستمبر 1949 کو ہوا جب مہاراجہ نے بھارت کے ساتھ انضمام کے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ بتایا گیا مقامی قبائلی زعما سے صلاح و مشورہ کئے بغیر ہی انضمام کیا گیا۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ مہاراجہ سے انضمام کے کاغذ پر زبردستی دستخط لئے گئے۔ وادی میں رہنے والے اکثریتی میتی قبیلہ کی زیادہ تعداد آزاد ریاست کی خواہاں ہے جبکہ پہاڑوں میں کوکی قبیلہ منی پور کو تقسیم کرکے بھارت کی عملداری کے اندر ہی اپنا ایک الگ علاقہ قایم کرنا چاہتے ہیں۔جیسا کہ جموں و کشمیر میں بدھ اکثریتی لیہہ کا مطالبہ تھا۔ ان ہی پہاڑوں میں ناگا قبیلہ اس علاقہ کا انضمام پاس کے صوبہ ناگا لینڈ سے کرکے وسیع ناگا لینڈ بنانے کا مطالبہ کرتا رہتا ہے۔ اسمبلی میں فی الوقت 60سیٹیں ہیں، جن میں 40پر میتی قبیلہ کی اکثریت ہے، جبکہ بقیہ دس ، دس سیٹیں بالترتیب کوکی اور ناگا کے حصہ میں آتی ہیں۔

 میتی قبیلہ میں مذہبی اقلیت یعنی مسلمان آبادی تقریباً 8 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ وہ علیحیدگی تحریک کے حامی نہیں ہے، جس کی وجہ سے اکثیرتی طبقہ کے ساتھ ان کی چپقلش رہتی ہے۔یہ صورت حال عین ایسی ہے جس طرح کشمیر میں اقلیت کشمیری پنڈت علحیدگی کے حامی نہیں تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت 17 ویں صدی میں مغل شہزادے شاہ شجاع کے ساتھ وارد ہو ئی تھی۔ شہنشاہ اورنگ زیب کے عتاب سے بچنے کیلئے اسکے بھائی شاہ شجاع نے منی پور میں پناہ لی تھی۔ خیر چند تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ مختلف ادوار میں جیسے برما یا میانمار سے اراکان، بنگالی، کاچھر اور پھر خود منی پور میں اسلام قبول کرنے والوں کے درمیان اختلاط سے ایک نئی نسل وجود میں آئی ، مگر انہوں نے اپنے آپ کو اکثریتی آباد ی کے ساتھ ضم کرکے ان کی ہی زبان کو اپنایا،جس میں پہلی بار 1993میں دراڑ پڑ ی تھی۔

اس پورے خطے میں 230 قبائلی گروپوں میں سے 43قبائلیوں کو درج فہرست قبائل کا درجہ حاصل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کیلئے نوکریوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں کوٹا کی سہولت مہیا ہے۔ اسکے علاوہ ان کی زمینوں کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ منی پور میں یہ سہولت کوکی قبیلہ کو حاصل ہے۔ میتی قبیلہ اس سہولت کی خاطر کئی دہائیوں سے برسرپیکار تھا۔ مئی میں ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ کہ ان کو درج فہرست درجہ دینے کی درخواست پر عمل کیا جائے۔ جس کی کوکی قبیلہ نے بھر پور مخالفت کی۔ کیونکہ ان کو لگا کہ ایک تو ان کا کوٹا میتی قبیلہ لے جائیگا ۔ میتی قبیلہ گو کہ اکثریت میں ہے، مگر وہ صرف 10 فیصد زمین تک محدود ہے۔ غیر درج فہرست قبائلی ہونے کے ناطے وہ پہاڑیوں میں زمین نہیں خرید سکتے ۔ اب اس فیصلہ کے بعد وہ ریاست کے بقیہ 90 فیصد علاقے میں پاوں پسار سکتے تھے۔ کوکی قبیلہ نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف 3 مئی کو احتجاج کی کال دی ، جس کے رد عمل میں میتی قبیلہ میدا ن میں آگیا اور نسلی تشدد بھڑک اٹھا۔ جس کی آگ ابھی تک ٹھنڈی ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ فسادات میں ہلاکتوں کے علاوہ 60 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔ اس علاقہ میں سینکڑوں عبادت گاہیں جلائی گئی ہیں۔

نوآبادیاتی دور میں انگریزوں نے جان بوجھ کر پہاڑوں کی انتظامیہ کو میدانی علاقوں سے الگ کر کے پہاڑی وادی کی تقسیم متعارف کروائی۔بعد میں مذہبی تقسیم نے معاملات کو مزید الجھا دیا۔ جہاں میتیوں نے ہندو مت کی شاخ وشنو مت کو اپنایا جس کی سرپرستی ان کے بادشاہوں نے کی۔ منی پور اور پہاڑی لوگوں کو مشنریوں نے عیسائی بنادیا ۔ ان کو پہاڑی علاقوں میں کام کرنے کی اجازت دی گئی۔

اس علاقے میں ان گنت عسکری گروپ بھی سرگرم ہیں۔ جن میں ریولوشنری پیپلز فرنٹ (RPF)، منی پور لبریشن فرنٹ آرمی (MLFA)، کنگلی یاول کنبا لوپ (KYKL)، ریولوشنری جوائنٹ کمیٹی (RJC)، Kangleipak ، پیپلز یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ (PULF)، منی پور ناگا پیپلز فرنٹ (MNPF) یونائیٹڈ کوکی لبریشن فرنٹ (UKLF)، کوکی نیشنل فرنٹ (KNF)، کوکی نیشنل آرمی (KNA)، کوکی ڈیفنس فورس (KDF)، کوکی ڈیموکریٹک موومنٹ (KDM)، کوکی نیشنل آرگنائزیشن (KNO)، کوکی سکیورٹی فورس (KSF)، چن کوکی ریولوشنری فرنٹ (CKRF) کوم ریم پیپلز کنونشن وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

 بھارت کے موخر تزویراتی تحقیقی ادارہ انسٹیٹوٹ آف ڈیفنس اینالسز میں محقق پشپتا داس کے مطابق جہاں ہائی کورٹ کا فیصلہ فوری تشدد کا محرک بنا، وہیں میتی اکثریت والی ریاستی حکومت کے خلاف کافی عرصے سے کوکی برادری میں غصہ بھڑک رہا تھا۔ منی پور حکومت نے پچھلے کچھ مہینوں میں کچھ ایسے اقدامات اور فیصلے کیے ہیں جس سے کوکی برادری میں امتیازی سلوک اور عدم تحفظ کا احساس پیدا گیا تھا۔ وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ میانمار سے بہت سے غیر قانونی تارکین وطن ریاست میں آباد ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی حکومت نے مبینہ طور پر میانمار کے ساتھ فری رجیم موومنٹ (FMR) کو معطل کر کے میانمار سے 410 ‘غیر قانونی تارکین وطن’ کو حراست میں لے لیا۔ مزید برآں، بیرن سنگھ حکومت نے ریزرو جنگلات، محفوظ علاقوں میں رہنے والے مکینوں کو بے دخل کرنے کیلئے نوٹس بھی بھیجے۔ اس دوران دیہاتیوں اور پولیس اہلکاروں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ کوکی قبیلہ نے تجاوزات کے نام پر اس مہم کو اپنی برادری کے خلاف کارروائی سے تعبیر کیا ۔کوکی قبیلہ میانمار میں رہنے والے چن قبیلہ کا ہم عصر ہے۔ دونوںمیں برادری اور رشتہ داریاں قائم ہیں اور صدیوں سے وہ سرحدیں عبور کرکے ایک دوسرے کے علاقو ں میں آتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ، منی پور حکومت نے 2017 میں ریاست میں ‘منشیات کے خلاف مہم بھی شروع کی تھی۔ اکھرول، سیناپتی، کانگپوکپی، کامجونگ، چورا چند پور اور ٹینگنوپال اضلاع کی پہاڑیوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا تھا کیونکہ پوست کی بڑے پیمانے پر غیر قانونی کاشت کی جا رہی تھی۔ پوست کی ناجائز کاشت کو زبردستی تلف کرنے اور دیہاتیوں کی گرفتاریوں کو، تاہم، کوکی برادری اپنی روزی روٹی سے محروم کر نے کی سازش کی طور پر دیکھ رہی تھی۔ ریاستی حکومت کا دعویٰ ہے کہ کوکی مظاہرین کو عسکریت پسند تنظیموں خصوصاً کوکی نیشنل آرمی (KNA) اور زومی ریوولیوشنری آرمی (ZRA) سے مدد مل رہی ہے۔

درحقیقت،حکومت اور عسکریت پسند گروپوں کے درمیان 2016 سے امن مذاکرات چل رہے تھے اور ایک سیز فائر کے معاہدہ پر عمل ہو رہا تھا۔ 10مارچ 2023 کو بیرن سنگھ حکومت نے کوکی عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ سہ فریقی سسپنشن آف آپریشنزیعنی سیز فائر سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری نے نہ صرف کوکی برادری کو تذبذب میں مبتلا کیا بلکہ کوکی عسکریت پسندی کے مسئلے کے حل پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ۔ اس سیز فائر اور مذاکرات نے کوکی کمیونٹی میں امیدیں پیدا کی تھیں کہ ان کے مطالبات کے بعد ایک علیحدہ کوکی لینڈ کا مطالبہ پورا کیا جائے گا۔ درحقیقت اس امید نے انہیں 2022 کے منی پور انتخابات کے دوران بی جے پی کی حمایت کرنے پر اکسایا تھا۔ بتایا جاتا ہے کوکی عسکری گروپوں نے پہاڑی علاقوں میں بی جے پی کو ووٹ دینے کیلئے اپیل کی تھی۔ ان کو بتایا گیا تھا کہ مرکزی حکومت ایک کوکی لینڈ علاقائی کونسل قبول کرنے پرتیار ہے۔ تاہم ریاستی حکومت جس میں میتی کا غلبہ ہے، کوکی لینڈ علاقائی کونسل کے قیام کیخلاف ہے کیونکہ وہ اسے ایک علیحدہ کوکی ریاست کے قیام کی طرف پہلا قدم سمجھتے ہیں۔

منی پور میں ویسے تو امن کی صورتحال ہمیشہ ہی خراب رہی ہے مگر وزیر اعظم نریند ر مودی اور ان کے دست راست امیت شاہ نے مکر و فریب کا سہار ا لیکر ایک ایسا امن قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی، جو بس اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف تھا۔ حقیقی امن کے لئے کوششیں کرنے کے بجائے، مختلف گروپوں کو الجھا کر وقتی سیاسی فائدے حاصل کرنے کے کام کئے گئے۔ بجائے اس کے کہ کوئی حل نکالا جاتا، ان کو شمال مشرق سے کانگریس کو بے دخل کرکے حکومتیں بنانے کی جلدی تھی۔ یہ گڑھا اب بیچ چوراہے پر پھوٹ چکا ہے۔یہ صرف شمال مشرق کا حال نہیں، بلکہ اس حکومت کا رویہ دیگر خطوں کے ساتھ بھی ایسا ہی رہا ہے۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ منی پور کے حالات و واقعات سے سبق حاصل کرکے مودی حکومت سیاسی معاملات کا تصفیہ کرنے کی طرف قدم بڑھائے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com