جمیل اختر شفیق
سیتامڑھی ضلع کے نانپور بلاک کے تحت کوئلی پنچایت وارڈ 11 میں جانے کا اتفاق ہوا،وہاں پہونچ کر چند چیزیں مجھے ایسی نظر آئیں جو عام طور پر بہار کے ان کے علاقوں میں جو دیہات کہلاتا ہے دکھائی نہیں دیتیں، سڑکیں کھیت کھلیان اور باغیچوں کی صفائی دیکھ کر طبعی خوشی ہوئی، ہر گھر کے دروازے پہ پھول نظر آیا جس سے روح شاد ہوگئی، مکان چاہے پرانا ہو نیا اس کی سلیقگی قابلِ دید تھی، پتہ کرنے پہ معلوم ہوا کہ وہاں ہندؤوں میں اعلی ذاتی کے لوگ برہمن آباد ہیں، کیا لڑکے اور کیا لڑکیاں سبھوں کی تعلیم پہ خصوصی توجہ دی جاتی ہے، کرتا پاجامہ ٹوپی میں ملبوس ہونے کے باوجود گھنٹوں وہاں کے لوگوں کے بیچ رہتے ہوئے مجھے ذرہ برابر بھی اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ میرے آس پاس ایسے لوگ ہیں جن کے بارے میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ
وہ مسلم دشمنی میں بہت آگے ہوتے ہیں،
ان کے اندر اسلام کے تئیں دل میں نفرت بھرا ہوا ہوتا ہے،
وہ مسلمانوں کی ہر علامت سے چِڑھتے ہیں،
مذہبی بھید بھاؤ اُن میں بہت ہوتا ہے، اور نہ جانے کیا کیا……
جبکہ زمینی سچائی یہ ہے کہ ملک کے ہر طبقے کے لوگوں کو ایک ہی عینک سے دیکھنا سراسر نا انصافی ہے ، آج بھی اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب میں اتنی طاقت ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں کو ہر موڑ پہ مات دے سکتی ہے، اس کےلیے سب زیادہ ضرور یہ ہے کہ ہمیں اپنا نظریہ بدلنا ہوگا،
سوچنے سمجھنے کا زاویہ تبدیل کرنا ہوگا،
دل کشادہ اور مثبت سوچ خود میں پیدا کرنا ہوگا
عام لوگوں کو اس سے کیا مطلب کہ کون آگ لگانا چاہتا ہے؟ کس کو کاٹا جائے کس کو مارا جائے؟ کس قوم سے دشمنی مولی جائے، کس کے ساتھ بداخلاقی کا مظاہرہ کیا جائے؟ کہاں مسجد ڈھائی جائے؟ کہاں مندر کو مسمار کیا جائے؟
ہر دور میں لوگ امن چاہتے رہے ہیں، پیار و محبت کے پیامیر رہے ہیں، مذہبی عصبیت سے اوپر اٹھ کر انسانیت کے فروغ میں کوشاں رہے ہیں، چند لوگوں کے ذہنی پاگل پن کی سزا کسی بھی مذہب کی ماننے والی پوری قوم کو نہیں دیا جاسکتا ہے، آج مسلمانوں کا وہ حساس طبقہ جو اللہ کی اس زمین پر رب کے پیغام کو عام کرنا چاہتا ہے اُنہیں چاہیے کہ ایسے ماحول اور ایسی جگہوں کو غنیمت جان کر معتدل مزاج لوگوں سے راہ و رسم بڑھائیں، کیونکہ ابھی بھی انسانیت کے پرچارک، بلند اخلاق کے خوگر، اور اعلی صفات کے پیکر لوگ زندہ ہیں، کسی بھی انسان کو خول میں بند رہنے سے بہتر ہے کہ وہ رب تعالی کی اس بامقصد سرزمین کو خالی کردے کیونکہ یہ دنیا ان لوگوں کے لیے ہے جو اتحاد وامن کی بالادستی کےلیے خون تک دینا جانتے ہیں۔
برہمنوں نے جتنی تکریم کی، جیسے لوگ ملے، جیسی باتیں ہوئیں اس سے سینکڑوں خدشات ذہن سے محو ہوگئے اُن کے رہنے سہنے کا انداز، گفتگو کا لہجہ، بدن پہ نفاست، گھر مکان کی صفائی سے یہ اندازہ ہوا کہ کوئی بھی ذات یا قوم صرف ذات برادری کی ہی بنیاد پر بڑی نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کا عمل اسے بڑا بناتا ہے، ملک کی دیگر ریاستوں سے قطعِ نظر صوبائی سطح پر دیانتداری کے ساتھ دیہات کے ان علاقوں کا اگر گہرائی سے مشاہدہ کیا جائے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے یا غیر مسلموں میں نچلی ذاتی کے لوگ رہتے ہیں وہاں راستے کی گندگیاں، گھر کے اندریا باہر غلاظت کے سبب مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے گھن سی آنے لگتی ہے، پل بھر ٹھہرنے کو دل نہیں کرتا، کوئی بھی نفیس الطبع انسان چند منٹوں میں ہی اکتاہٹ محسوس کرنے لگتا ہے جب کہ اسلام میں جو صفائی کی اہمیت ہے، رسولِ کائنات نے مختلف مواقع پر اس کی افادیت کو جتنی شدت کے ساتھ بیان کیا ہے اس سے کس کو انکار ہوسکتا ہے؟ لیکن صورتحال یہ ہے کہ لوگ گھر سے باہر نکلتے وقت بدن پہ عطر مَلنا تو نہیں بھولتے لیکن گھر میں رہتے ہوئے بچوں کی بہتی ہوئی ناک، آس پاس پڑی ہوئی گندگیاں، کبھی نہیں دیکھتے۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا کے اسٹیج پہ نمایا ہونے کےلیے صرف بڑے بول نہیں بڑے کردار کی ضرورت پڑتی ہے۔





