شہر اور گاؤں میں سیلاب : انسان کی اپنی پیدا کردہ مصیبت

گرمی کے جھلستے موسم کے بعد برسات کے ساتھ ہی سیلاب کی خبریں آنے لگیں اور حد تو یہ ہے کہ دہلی شہرمیں بھی پانی بھرتا جا رہا ہے

صفدر امام قادری

برسات کا موسم زمین پر ہریالی اور اناج کے لیے سب سے موزوں موسم مانا جاتا ہے۔ گرمی سے بے حال انسان کو برسات سے راحت ملتی ہے۔ جینے کی آسانیاں پھر سے سامنے آنے لگتی ہیں مگر اِسی کے ساتھ برسات شروع ہوتے ہی سیلاب کی خبریں بھی آنے لگتی ہیں۔ آسام اور اُس علاقے کی ندیوں کے زور سے یہ سلسلہ شروع ہوتا ہے اور پھر بنگال، بہار، اُتراکھنڈ، اُتر پردیش سے ہوتے ہوئے آندھرااور اگست تک مہاراشٹر میں یہ پھیل جاتی ہے۔ جون سے اِس کا جو سلسلہ شروع ہوتا ہے، وہ ستمبر اور کچھ علاقوں میں اکتوبر تک قائم رہتا ہے۔ پرانی کتابوں میں ہندستان کے موسموں کی تفصیل لکھتے ہوئے جغرافیا کے ماہرین نے برسات کے لیے اکثر و بیش تر جون اور جولائی مخصوص کیے تھے مگر اِس کا سلسلہ اگست ستمبر تک تو لازمی طور پر ہوتا ہے۔ اکثر دیکھنے میں یہ بھی آتا ہے کہ اکتوبر مہینے میں بھی جگہ جگہ سیلاب نے اپنی تباہیاں پھیلائیں۔

فطری طور پر دیکھیں تو برسات کی بارش اور ہمالیہ سے اترنے والی چھوٹی بڑی ندیوں میں معمول سے زیادہ بارش کو حقیقی سبب مانا جاتا ہے۔ ماہرین ہمالیہ کی برف کے زیادہ رفتار میں پگھلنے کی بھی ایک بڑی وجہ بتاتے ہیں۔ یہ برف معمول سے زیادہ گرمی کے سبب بگھلتی ہے اور اِس کی مقدار کا آسانی سے اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ آسمانی بارش سے کئی گنا پانی ہماری ندیوں میں ہمالیہ کی برف کے پگھلنے سے آتا ہے۔ ابھی اِس سال جب ہر جگہ گرمی سے ہاہاکار مچی ہوئی تھی اوربارش کی ایک بوند کے لیے شمالی ہند کے افراد ترس گئے تھے، اُس دَور میں جون کے نصف میں یہ خبر آنے لگی تھی کہ کوشی ندی میں پانی کی سطح بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اِسے عام خبروں کی طرح پڑھا اور دیکھا گیا۔ چند ماہرین کے علاوہ کسی نے اِس بات پر دھیان نہیں دیا کہ پانی کے اِس غیر معمولی دباؤ کے اسباب کیا ہیں اور اِس کے متوقع خدشات کیا کچھ ہو سکتے ہیں۔

ابھی تازہ صورتِ حال یہ ہے کہ دہلی کے نشیبی علاقوں میں پانی بھرنے لگا ہے ۔لعل قلعے کی دیواروں کو جمنا کا پانی ٹھیک اُسی طرح سے چھو رہا ہے جیسے ساڑھے تین سو برس پہلے اُس کی تعمیر کے وقت نظر آتا تھا۔ یہ درست ہے کہ جولائی کے آغاز سے لگاتار بارش ہو رہی ہے لیکن یہ ہماری خام خیالی ہے کہ اُس بارش سے قومی راجدھانی پر مصائب ٹوٹ پڑے۔بمبئی تو ہر سال کئی بار ڈوبتی ہے۔ گذشتہ برسوں میں وزیرِ اعظم کا شہر احمد آباد بالخصوص گجرات عام طور پرسیلاب کی تباہ کاریوں کا نظر ہوا۔ اِس سے پہلے راجستھان جیسے ریگ زار میں بڑے پیمانے پر سیلاب آ چکا ہے جہاں ہر بار سیلاب آتے رہتے ہیں وہاں کی بات ہم چھوڑتے ہیں مگر کچھ برس پہلے پٹنہ شہرمیں ۱۵؍ دن سے زیادہ برسات کا پانی کچھ اِس طرح جمع رہا کہ شہر میں آنا جانا بھی ناممکنات میں ہو گیا تھا۔

ہندستان میں آبی وسائل کی حفاظت اور اُن کے مسائل سے واقفیت بھی کم ہے اور ذہنی بے داری تو بالکل بھی نہیں ہے۔’نرمدا آندولن‘کی طویل جد وجہد سے یہ بات بھی اُبھر کرسامنے آئی تھی کہ اِس ملک کی آبی پالیسیاں بکھراؤ کا شکار ہیں اور خاص طور پر اُن ندیوں کے سلسلے سے تو اور پریشان کُن صورتِ حال ہے جو کئی صوبوں سے ہو کر منزلِ مقصود تک پہنچتی ہیں۔ گجرات اور مہاراشٹر دونوں صوبوں نے اپنے مفاد کے پیشِ نظر جو نرمدا کے حوالے سے لڑائی لڑی، اُس نے یہ بھی بتایا کہ قومی سطح پر ندی، سمندر، پہاڑ اور زمین جیسے قدرتی وسائل سے ہم فائدہ تو حاصل کرتے ہیں مگر ہمارا استحصالی رویہ قدرتی وسائل کے ساتھ بھی قائم رہتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قدرت کا نظام توازن کھو دیتا ہے اور ہم اُس کی چپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ قدرتی وسائل کو قدرت کا تحفہ سمجھ کر پوری جمیعتِ انسانی حقوق سے ہم آہنگ نہیں کرکے ہم جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے انداز پر جینے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اِسی بے اصولی اور استحصالی رویّے سے ہم قدرتی وسائل کے عذابوں میں گرفتار ہوتے رہتے ہیں۔

ندیوں میں انسانوں نے اپنی سہولت کے مقصد سے اتنی رکاوٹیں پیدا کیں جس کی وجہ سے ندیاں رہ رہ کر ہمارے ساتھ ظالمانہ سلوک اپناتی رہتی ہیں۔ ہر بڑی ندی پر درجنوں اور سیکنڑوںکی تعداد میں پُل بنائے گئے۔ پُل کا مقصد یہ تھا کہ سڑک سے آمد و رفت کی آسانیاں پیدا ہو سکیں گی۔ بعض جگہوں پر ریل اور سڑک دونوں کے لیے یہ پُل بنائے گئے۔ ندیوں کے آبی بہاؤ میں اِن پُلوں اور اُن کے ستونوں سے رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ ہمالیہ سے بالو اور گاد اور طرح طرح کی معدنیاتی اشیا پانی میں گھُل مِل کر بڑی ندیوں تک پہنچتی تھیں پھر سمندر کی طرف اُن کے بہنے کا سلسلہ قائم ہو جاتا تھا۔برسات کے زمانے میں پانی کے اندر جو گھماؤ دار لہریں پیدا ہوتیں، اُن سے پانی کے نیچے بیٹھی مٹّی بھی گھُل کر اُپر آ جاتی ہے اور پھر بہتے بہتے سمندروں تک پہنچ جاتی ہے مگر قدم قدم پر پُل اور براج نے ندیوں کی فطری رفتار کو روک دیا۔ ندیوں کی گہرائی کم ہوتی چلی گئی اور یہ مقولہ یونہی نہیں قائم ہوا کہ پانی اپنی سطح خود ڈھونڈ لیتا ہے۔ ہر ندی کی چوڑائی میں اِضافہ ہوا۔ چوڑائی میں اِضافہ ہونے کا واضح مطلب ہے کہ یہ ندی اب کہیں بھی چھلک جائے گی اور تباہی کے دہانے کھول دے گی۔ ندیوں کے کنارے ہزاروں کی تعداد میں بڑے شہر بسے ہوئے ہیں۔ تہذیب کی تاریخ ہی یہ ثبوت فراہم کرتی ہے کہ لوگوں نے سب سے پہلے ندیوں کے کنارے ہی بسنا قبول کیا تھامگر آج یہ عالم ہے کہ ندی کنارے بسنے والی قوم کی زندگی کی مشکلات پہلے سے کافی بڑھ گئی ہیں۔

بڑی اور پہاڑی ندیوں پر بڑے پیمانے پر براج بنائے گئے ہیں۔ کہنے کو یہ عام سی بات تھی کہ پانی کو ہم ضائع نہیں ہونے دیں گے اور بجلی پیدا کریں گے۔ اِسی طرح باند اور پشتیں بنانے کا جو سلسلہ قائم ہوا ، اُس کی تاریخ بھی معصومانہ انداز میں اِس طور سامنے آئی کہ پانی کو باندھ میں روک کر بڑے پیمانے پر سینچائی کی جائے گی۔ براج اور باند ھ کے نام پر جواہر لال نہرو کے دَور سے ہی کڑروں اور اربوں روپے خرچ ہوئے مگرذرااُن اعداد و شمار کو دیکھ لیجیے کہ اُن براجوں سے جو سستی بجلی پیدا کرنے کا جو نشانہ رکھا گیا تھا، اُس میں کہاں تک کامیابی مِلی۔پشتے تو نہ سیلاب سے ہمں بچا سکیں اور نہ ہی اُن سے بڑے پیمانے پر سینچائی کا فائدہ اُٹھایا جا سکا۔ مشکل تو تب آئی کہ اِ ن کی وجہ سے آبی جماؤ اور سیلاب کے حالات تو بار بار پیدا ہوئے اور بڑے پیمانے پر نقصانات سے ہم دو چار ہوئے۔

جن لوگوں نے ایسے منصوبے بنائے کہ کنکریٹ اور لوہے کی دیواروں کے سہارے ہم بہتی ندی کے زور کو تھام لیں گے، اُن کی خام خیالی پر افسوس ہوتا ہے۔ برسات کے وقت ندی میں پانی بڑھنے کی کچھ ایسی صورتِ حال ہوتی ہے کہ اگر براج میں پانی کو مزید روکا گیا تو شاہد براج بھی توڑ کر پانی لاکھوں زندگیوں کو تباہ کر دے۔ پانی اپنی فطری رفتارسے آتا تو اُس کی تباہی بہ ہر طور کم ہوتی مگر جب وہ براج کے پھاٹک میں روک لیا جائے اور پھر یکجا کیا ہوا پانی کسی لمحے میں چھوڑ دیا جائے تو تباہی کی مقدار میں اِ ضافہ ہوگا۔ اِسی طرح ایسی ندیاں جن میں دوسری ندیاں جو دیگر صوبوں سے ہوتے ہوئے آتی ہیں، اُن کے مسائل مزید مشکل ہوتے ہیں۔ کئی بار ایک ایک صوبے کو بچانے میں دوسرا صوبہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ آسانی سے پانی کے اچانک بڑھنے کو ہم تول نہیں سکتے۔ ایک مدّت گزرتی ہے تب معلوم ہوتا ہے کہ یہ سیلاب نہیں بلکہ انسانوں کا پیدا کردہ جھمیلا تھا۔

دہلی میں جمنا ندی کی تباہ کاریاں ہمیں اُن خطرات سے متنبہ کر رہی ہیں کہ قدرت سے ہم آہنگی ہی ایک راستہ ہے جس میں فطرت کے سامنے انسان سرخ رو ہو سکتا ہے۔ علاقائی اور سیاسی مقاصد سے زمین، جنگل، پہاڑ اور ندیوں کے مسائل کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ ایک گنگا ندی نیپال، اترا کھنڈ، اُتر پردیش، بہار، جھارکھنڈ، مغربی بنگال اور بنگلا دیش ہوتے ہوئے سمندر میں جا ملتی ہے۔ تمام اہل کار وں کو جمع کیے بغیر اگر کوئی اپنی طاقت یا سیاسی جوش کے بَل پر فیصلا کر لیتا ہے تو یہ نا مناسب ہوگا اور کہیں نہ کہیں ایسے فیصلوں میں ہماری حفاظت اور دنیا کی تباہی کے اصول اپنے آپ نافذ ہو جاتے ہیں۔ یہ انسان اور انسانیت دشمن اُصول ہے۔ پینے کے پانی کی آنے والے وقت میں جو قلّت ہوئی، اُس کے بارے میں ماحولیات کے ماہرین ہمیں با خبر کرتے رہتے ہیں ۔ یہ بھی معلوم ہے کہ کئی صوبوں سے ندیوں کا پانی چھین کر بڑے شہروں تک پینے کا مہیّا کرایا جاتا ہے۔عالمی سطح پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ تیسری عالمی جنگ پانی کے سلسلے سے ہوگی۔ ہندستان میں بھی پانی کے سلسلے سے کوئی مبسوط لاحۂ عمل کسی گھڑی دیکھنے کو نہیں مِلی۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ تمام صوبوں کے ماہرین مجتمع ہو کر سیلاب ہی نہیں آبی وسائل کے سلسلے سے ایک ٹھوس حکمتِ عملی قائم کریں۔ اِس کے بغیر ہماری مشکلات کم نہیں ہو سکیں گی۔

(مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں)

safdarimamquadri@gmail.com

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com