شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اسلامی قانون کا دوسرا امتیاز یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی فطرت پر مبنی ہے؛ چنانچہ قرآن مجید نے اسلام کو قانون فطرت کا ترجمان قرار دیا ہے: فطرۃ اللہ التي فطر الناس علیھا (روم: ۳۰) اور کہا ہے کہ شیطان لوگوں کو فطرت سے بغاوت پر اُکساتا رہتا ہے: ولآمرنھم …… فلیغیرن خلق اللہ (نساء: ۱۱۹) اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نظام فطرت پر قائم رہنے میں انسان کی بھلائی ہے اور نظام فطرت سے ہٹ جانے میں انسان کا نقصان ہے، اللہ تعالیٰ نے جسم کو صاف کرنے اور ٹھنڈا کرنے کے لئے پانی پیدا کیا ہے، اور کسی چیز کو گرم کرنے اور پکانے کے لئے آگ پیدا کی ہے، اب اگر کوئی شخص آگ میں نہانے لگے اور ٹھنڈے پانی پر پکانے لگے تو کیا وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا؟
افسوس کہ مغربی دنیا علم وٹکنالوجی میں چاند ومریخ پر کمندیں ڈال رہی ہے اور اس نے ایسے ہتھیار بنا لئے ہیں کہ وہ لمحوں میں پورے پورے ملک کو تباہ کر سکتے ہیں؛ لیکن وہ اپنی شہوات اور خواہشات کے سامنے اتنے کمزور ہیں کہ ایک چیز کو نقصان دہ جان کر بھی اس کو انجام دیتی ہے؛ کیوں کہ نفس اس کا تقاضا کرتا ہے، پوری میڈیکل دنیا اس بات پر متفق ہے کہ شراب اور نشہ آور اشیاء انسان کے لئے بے حد نقصان دہ اور طرح طرح کی بیماریوں کا سبب ہیں، اس سے کینسر پیدا ہوتا ہے، انسان کے جسمانی قویٰ متأثر ہوتے ہیں، عمر گھٹ جاتی ہے، نشہ کی حالت میں قوت فیصلہ ختم ہو جاتی ہے، جو بات ہوش وحواس کی حالت میں انسان زبان پر لانا بھی گوارا نہیں کرتا، وہی باتیں وہ نشہ کی حالت میں بے تکلف اور بر سر عام چیخ چیخ کر بولتا رہتا ہے، بوڑھوں، عورتوں، بچوں اور دوستوں پر ہاتھ اٹھانے اور ان کو گالی گلوچ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا ہے، کتنے ہی قتل اور زنا بالجبر کے واقعات نشہ کی وجہ سے پیش آتے ہیں؛ اسی لئے قرآن مجید میں بھی اور توریت میں بھی نشہ کو حرام قرار دیا گیا؛ لیکن شراب سے ہزار نقصانات اور ان نقصانات کے اعتراف کے باوجود آج مغربی ملکوں اور ان تمام ملکوںمیں شراب کی کھلی اجازت ہے، جہاں قانون کی لگام انسانوں کے ہاتھ میں ہے۔
انسانی سماج میں ہمیشہ سے یہ بات تسلیم کی جاتی رہی ہے کہ جنسی تعلق کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ وہ مرد اور عورت یعنی شوہر اور بیوی کے درمیان رشتہ سے پوری کی جائے، اسی سے نسل انسانی کی افزائش متعلق ہے؛ لیکن موجودہ دور میں مغرب کے شہوت پر ست معاشرہ نے اس بات کا مطالبہ کیا کہ مردو عورت میں سے ہر ایک کو اپنی ہی جنس سے صنفی خواہش پوری کرنے کی اجازت دی جائے اور حکومتوں نے اس کے سامنے اپنا سر جھکا دیا، یہاں تک کہ اگر کوئی اس کی مخالفت کرتا ہے تو وہ معتوب ٹھہرایا جاتا ہے، اسی طرح ہمیشہ سے انسانی سماج اس بات کو تسلیم کرتا رہا ہے کہ جسم کا ایک خاص حصہ مردوں کی صنفی خواہش کی تکمیل کے لئے ہے، اور وہ عورت کے بدن کے سامنے کا حصہ ہے، جسم کا پچھلا حصہ انسان کی دوسری جسمانی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہے؛ لیکن جب انسان فطرت کا باغی بن جاتا ہے تو شہوت پرستی کی ساری سرحدیں ٹوٹ جاتی ہیں، مغرب میں اس کو بھی درست قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا اور بیشتر ملکوں نے اسے تسلیم کر لیا اور اب تو ایسے بدقماش لوگوں کو اپنے اس گناہ کو ظاہر کرنے میں بھی کوئی عار نہیں۔
اسلام کسی بھی ایسے عمل کو قبول نہیں کرتا، جو فطرت کے خلاف ہو ، چاہے سارے لوگ مل کر اس کو جائز قرار دینے کی کوشش کریں، انسانی زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق شریعت کی تعلیمات میں یہ اصول کار فرما ہے، مثلاََ اسلام نے تجارت کر کے اور کاروبار میں پارٹنر بن کر نفع حاصل کرنے کی اجازت دی ہے؛ لیکن سود اور جوا کی اجازت نہیں دی؛ کیوں کہ سود میں یہ بات فرض کر لی جاتی ہے کہ مال میں خود بخود بڑھنے کی صلاحیت ہے؛ اس لئے اگر کوئی شخص قرض حاصل کرے تو اس کو لازماََ اس پر سود ادا کرنا چاہئے، یہ بالکل فطرت کے خلاف ہے، اگر آپ اپنے سوٹ کیس میں ایک لاکھ روپئے رکھیں اور ایک سال بعد سوٹ کیس کھولیں تو ایک لاکھ روپیہ ہی نکلے گا، ایک لاکھ دس ہزار نہیں ہو جائے گا؛ اس لئے اگر آپ کسی کو ایک لاکھ روپیہ اس معاہدہ پر دیں کہ وہ تجارت کرے اور سرمایہ کار کو نفع ونقصان میں شریک رکھے، نفع حاصل ہو تو نفع دے اور نقصان ہو تو نقصان برداشت کرنے میں بھی وہ شریک ہو، تو یہ تو عین فطرت کے مطابق ہوگا؛ لیکن یہ بات کہ آپ اس رقم کو اپنی تجارت میں استعمال کریں یا نہ کریں، ہمیں بہر حال اتنا فیصد نفع دے دیں، ظاہر ہے کہ کاروبار کی فطرت کے خلاف ہے۔
غرض کہ شریعت اسلامی اور انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین میں دوسرا اہم فرق یہ ہے کہ شریعت کا قانون فطرت کے تابع ہوتا ہے، انسان کی خواہشات کے تابع نہیں ہوتا، اور انسان جب قانون بنانے کو بیٹھتا ہے تو بہت سی دفعہ فطرت کے خلاف تقاضوں کو قبول کر لیتا ہے، چاہے وہ آخرت ہی میں نہیں دنیا میں بھی انسان کے لئے بے حد نقصان دہ اور تباہ کن ہو۔
تیسرا بنیادی فرق اسلامی شریعت اور مغربی تصور قانون ( جس کی اس دور میں پوری دنیا پر حکمرانی ہے) کے درمیان یہ ہے کہ اسلام بنیادی طور پر عدل کا قائل ہے نہ کہ مساوات کا، ہاں جہاں مساوات اور برابری عدل کے تقاضہ میں شامل ہو، وہاں مساوات اور برابری کا بھی حکم دیتا ہے؛ اسی لئے قرآن مجید میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے (نحل: ۹) اور قرآن مجید میں مختلف انداز پر ۲۹؍ جگہ عدل وانصاف کی تلقین کی گئی ہے، اشتراکی دنیا نے مالک اورمزدور کے درمیان برابری کا اور معاشی مساوات کا نعرہ لگایا تھا، جو فطرت کے خلاف تھا؛ اس لئے وہ چل نہیں سکا اور جس خطہ میں اس تصور کی پیدائش ہوئی تھی، وہیں ستر سال کے اندر ہی اس کی تدفین بھی عمل میں آگئی، اسی طرح مغربی دنیا مردو وعورت کے درمیان مساوات کا نعرہ لگاتی ہے اور اس کو اپنی ترقی پسندی کی معراج سمجھتی ہے، اگر عورت کو ایک ہی شوہر پر اکتفا کرنا ہے تو مرد کو بھی ایک سے زیادہ شادی کی اجازت نہیں ہونی چاہئے، اور اگر مرد کو اس کی اجازت دی جاتی ہے تو عورت کو بھی ایک سے زیادہ مردوں سے تعلق کی اجازت ہونی چاہئے، رشتۂ نکاح کو ختم کرنے کا اختیار مردو عورت دونوں کو برابر ہونا چاہئے، ترکہ کی تقسیم میں بیٹا اور بیٹی کا حصہ برابر ہونا چاہئے، مرد ہی کی طرح عورت کو کسب معاش کی مکمل اجازت ہونی چاہئے، اگر مرد پر پردہ کی پابندی نہیں ہے تو عورت پر کیوں؟ یہاں تک کہ اب بعض مغربی ملکوں میں مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اگر عوامی مقامات پر مردوں کو سینہ کھلا رکھنے کی اجازت ہے تو عورتوں کو سینہ چھپا کر رکھنے کی پابندی کیوں؟ اسی تصور کی پیداوار لیو ان ریلیشن شپ (Liv in Relationship )،یعنی بغیر نکاح کے جسمانی تعلق ، تعلیم وملازمت، کھیل اور سفر ہر جگہ اختلاط کی اجازت ہے۔
کوئی بھی شخص غیر جانبداری کے ساتھ مساوات اور برابری کے اس تماشہ کو دیکھے گا تو وہ محسوس کرے گا کہ یہ انسانیت کے لئے گمراہ کن اور خاص کر عورتوں کے لئے بہت بڑا دھوکہ ہے، اس تصور مساوات نے خاندانی نظام کے تارو پود بکھیر دئیے، عورت کو سامان تجارت اور ذریعۂ تشہیر بنا دیا، عورت کی عزت وآبرو جس طرح اس تصور کے زیر اثر پامال ہو رہی ہے، شاید ہی تاریخ انسانی میں کبھی ایسا ہوا ہو، اگر حقیقت پسندی کے ساتھ غور کیا جائے تو کائنات کے بنانے والے نے اپنی اس دنیا کو مساوات کے اصول پر نہیں بنایا ہے، اس نے بہت سی چیزوں میں یقیناََ مساوات رکھی ہے؛ مگر زیادہ تر تفاوت کے ساتھ چیزیں پیدا کی ہیں، ہر انسان کو دو ہاتھ، دو پاؤں، دو کان اور دو آنکھیں ضرور دی گئی ہیں؛ لیکن جسمانی قویٰ ، دماغی صلاحیت، گویائی اور اظہار کی قدرت، اور بہت سی چیزوں میں ان کے درمیان فرق بھی رکھا گیا ہے، اسی طرح مردو عورت کے درمیان یقیناََ بہت سی چیزوں میں یکسانیت ہے؛ لیکن اس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ ان میں بہت سی جہتوں سے فرق بھی پایا جاتا ہے، جس کا قدم قدم پر اظہار ہوتا ہے، ان کو نظر انداز کر دینا خود عورت کے ساتھ بھی ظلم ہوگا اور یہ بات فطرت کے بھی خلاف ہوگی، اگر کوئی شخص مساوات کے اصول پر اپنے دس سال کے بچے اور بیس سال کے لڑکے کو ایک خوراک دے تو کیا یہ مفید اور منصفانہ عمل ہو سکتا ہے؟ اگردس سال کے بچے پچیس سال کے جوان اور ساٹھ سال کے بوڑھے کو ایک برابر وزن اٹھانے کا مکلف کیا جائے تو کیا اس میں کوئی معقولیت ہو سکتی ہے؟
اسلام کا تصور یہ ہے کہ ہر انسان کی طاقت اور صلاحیت کے اعتبار سے اس کی ذمہ داریاں ہوں اور ذمہ داریوں کے لحاظ سے اس کے حقوق ہوں، مثلاََ خاندانی زندگی میں بیٹی کے مقابلہ بیٹے کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں، اپنی کفالت، اپنے بچوں کی کفالت، بیوی کی کفالت، بوڑھے ماں باپ کی کفالت، بیوی کا مہر اور قریب قریب تمام ہی مالی ذمہ داریاں بیٹے یا مرد پر رکھی گئی ہیں، عورت پر کوئی مالی ذمہ داری نہیں رکھی گئی ہے، اب اگر مساوات پر عمل کیا جائے تو دونوں کا حصہ برابر ہونا چاہئے اور عدل وانصاف کو ملحوظ رکھا جائے تو بیٹا کا حصہ بہ مقابلہ بیٹی کے زیادہ ہونا چاہئے، شریعت نے اسی دوسرے پہلو کو ملحوظ رکھا ہے، اس حقیقت کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے بعض لوگوں کو غلط فہمی پیدا ہوتی ہے اور ان کو لگتا ہے کہ اس میں لڑکی کے ساتھ نا انصافی کی گئی ہے۔
ایک مرد خود اپنی حفاظت کر سکتا ہے اور اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا مقابلہ کر سکتا ہے؛ لیکن ایک لڑکی اپنی جسمانی صلاحیت کے لحاظ سے اکثر اوقات ایسا نہیں کر پاتی اور اس کو کسی مرد کی طرف سے تحفظ کی ضرورت پڑتی ہے؛ اسی لئے شریعت نے پردہ تو مردو عورت دونوں کے لئے رکھا؛ لیکن عورت کے لئے اس کی مقدار زیادہ رکھی، گھر سے باہر نکلنے کی اجازت حسب ضرورت دونوں کو دی؛ لیکن عورت کے لئے شرط رکھی گئی کہ طویل سفر میں بطور محافظ اس کا شوہر یا کوئی مرد محرم رشتہ دار ساتھ رہے، ظاہر ہے کہ نہ اس میں عورتوں کی تحقیر ہے اور نہ ان کے ساتھ زیادتی؛ بلکہ ان کی زائد اور خصوصی رعایت ہے۔
یہ چند وہ بنیادی فرق ہیں، جو اللہ کے بھیجے ہوئے قانون اور انسان کے بنائے ہوئے قانون کے درمیان نمایاں طور پر محسوس کئے جا سکتے ہیں، اور جن کو سامنے رکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام انسانی سماج کو زندگی گزارنے کا کتنا بہترین، مصلحت سے ہم آہنگ اور فطری نظام حیات دیتا ہے اور اس کے مقابلہ مغرب نے جو نعرہ لگایا ہے، وہ کس درجہ کھوکھلا اور بے وزن ہے۔